تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     29-11-2013

ایک لمحے کا سوال

''مرنے کے بعد بھی یہ ویسے کا ویسا ہی بے وقوف ہے ‘‘جھنجھلا کر میں نے سوچا۔ ادھر مبارک علی امید بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ ہم دونوں میدانِ حشر میں کھڑے تھے ...ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے مولوی صاحب اورٹی وی پر مذہبی پروگرام کرنے والے مشہور اینکر کا خانہ خراب ہوتے دیکھا تھا۔ 
شیخ محشر میں جو پہنچے تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے ، وہی مال ندارد
مولوی صاحب پر یہ الزام تھا کہ سوچے سمجھے بغیر خدا پر ایمان لائے تھے ؛چنانچہ درحقیقت انہیں خدا کے وجود کا یقین نہیں تھا۔ اینکر کو ریاکاری کا مجرم قرار دیا گیا ۔ فرشتوں کو حکم ہوا کہ اسے ریاکاروں کے لیے مخصوص دوزخ کے اس حصے میں پھینکا جائے ، جس سے خود جہنم بھی پناہ مانگتی ہے ۔ 
میں توایک دنیا دار آدمی تھا اور اس کے بعد اپنی بخشش کی میری آخری امید بھی دم توڑ گئی تھی۔ 
بلا کی گرمی تھی اور بار بار میں پسینہ پونچھ رہا تھا۔ سامنے ایک میزان میں میری نیکیاں اور گنا ہ تْل چکے تھے ۔ گناہوں کا وزن کئی ٹن زیادہ تھا۔ گھبرا کر میں سیّارہ ٔارض کے آخری لمحات یاد کرنے لگا۔ سورج جب چاند تک آپہنچا تو اس کی خوفناک کشش نے پہاڑوں کو روئی کے ڈھیر جیسا بنا ڈالا تھا۔زمین جوکبھی گول ہوا کرتی تھی ، روٹی کی طرح پچک چکی تھی ...
ابھی کچھ دیر پہلے میرے وہ سارے رشتے دار مجھے چھوڑ گئے تھے ، جنہیں راحت پہنچانے کے لیے میں دن رات ایک کیا کرتا تھا۔ وہ احسان فراموش نکلے لیکن خیر نفسا نفسی کے اس عالم میں وہ خود کو بچاتے یا میری مدد کرتے ۔ صرف یہ ایک مبارک ہی بچا تھا۔ کچھ دیر قبل ہی وہ مجھے پہچان کر میری طرف لپکا تھا۔حساب کتاب کا پوچھا تو ہنس کر بولا کہ اس کے پاس نہ مال و دولت تھی اور نہ عقل و دانش۔چند لمحات میں فیصلہ اس کے حق میں ہو گیا۔ 
مبارک سے میرا خون کاکوئی رشتہ نہیں تھا۔پہلی بار میں نے اسے زخمی حالت میں سڑک پہ پڑا دیکھا ۔ ایک گاڑی اسے کچلتی ہوئی گزر گئی تھی ۔میں اسے ہسپتال لے گیا اور اس کی جان بچ گئی۔ ہم دونوں میں کوئی قدر مشترک نہ تھی ۔ وہ غربت کامارا اورمیں ارب پتی ۔ وہ بے وقوف اور میں ذہین فطین لیکن اس کی باتوں میں ایسی بے ساختگی تھی کہ جس سے ہم امرا محروم تھے ۔ ہم دونوںمیں گاڑھی چھننے لگی۔ 
''کیا خدا پرتمہارا ایمان نہیں تھا ؟‘‘ مبارک علی نے ایک بار پھر مجھے جھنجھوڑااور میں خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
''تم جانتے ہو کہ میں بڑا ذہین فطین آدمی تھا۔ خدا کے وجود پر بارہا میں نے غور کیا تھا ۔ زمین کے نیچے پگھلی ہوئی چٹانوںسے پیدا ہونے والا مضبوط مقناطیسی میدان جو ہمیں سورج کی ہولناکی سے محفوظ رکھتا تھا، خدا پر ایمان لانے کے لیے وہی کافی تھا۔ مسئلہ ایمان نہیں، اعمال کا ہے ۔ ‘‘
پھرمیں نے اسے حضرتِ جنیدِ بغدادؒ کا قصہ سنایا ۔ ایک فقیر کو انہوںنے کانٹوں پر پڑا دیکھا کہ اس سے یادِ خدا کا ایک لمحہ کھو گیا تھا۔جنیدِ بغدادؒ کی دعا سے وہ اسے واپس مل گیا لیکن پھر وہ تشکر کے احساس میں وہیں پڑا رہا۔ میری تو ساری زندگی ہی کھو گئی تھی۔ مجھے ایک نیک بزرگ نے یہ بھی بتایا تھا کہ ترجیحِ اوّل سے کم پر خدا نہیں ملتا۔ وہ کوئی گری پڑی شے تو نہیں ۔
''وہ توبرگزیدہ بندوں کے معاملات ہیں ۔ مخلوق کو خدا کی طرف لے جانے والے اولیا کے ، جو اعلیٰ جنّت کے حق دار ہوںگے ۔ کیا تم نے وہ حدیث نہیں سنی کہ جس نے ایک بار بھی صدقِ دل سے لا الہ الا اللہ پڑھا اور وہ کہ جس نوجوان کی آنکھ میں خدا کے خوف سے مکھی کے سربرابر پانی بھی آگیا ۔ کیا ہمارے نبی ؐ نے اپنے اصحابؓ کو یہ نہ کہا تھا کہ تم دس میں سے ایک بھی چھوڑوگے تو...اور بعد میں آنے والے دس میں سے ایک بھی پکڑیں گے تو بچ نکلیں گے ؟ تمہارا حساب ہو کیوں نہیں چکتا؟ مانویا نہ مانو ، عشقِ خدا کا کوئی ایک لمحہ پوشیدہ ہے ۔ اسے خدا کے حضورپیش کرو‘‘ وہ اپنی اسی پاٹ دار آوا ز میں بولا ۔ 
''عشقِ خدا کا ایک لمحہ؟‘‘میں چکرا کر رہ گیا۔ مبارک علی ایسا دانشور کب سے ہو گیا؟ 
سامنے وہ کمپیوٹر نمامشین پڑی تھی ، جس میں ہم اپنی دنیا وی زندگی کا ایک ایک لمحہ دیکھ سکتے تھے ۔ ایک بار پھر میں اپنی حیاتِ رفتہ کو ٹٹولنے لگا۔ بالاخر سکرین پر روس کے میرے سفر کا منظر ابھرا۔یہ میرے بڑھاپے کا وقت ہے ۔ ایک سڑک پر چند نوجوان مجھ پہ آوازے کستے ہیں ۔ وہ مجھے گالیاں دیتے ہیں ۔ سر جھکا کر میں سنتا رہتا ہوں اور راہِ فرار تلاش کرتا ہوں ۔تماشے سے لطف اندوز ہونے کے خواہشمند ،وہ لفنگے ہر قیمت پر مجھے اشتعال دلانا چاہتے ہیں ۔ اب وہ میرے خدا کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں ۔ غضب ناک ہو کر میں ان کی طرف لپکتا ہوں اور منہ پر ایک گھونسا کھا کر گر جاتا ہوں ۔ سامنے والا میرا وہ دانت ٹوٹ جاتاہے جو کئی ہفتے پہلے سے ہل رہا تھااور یہاں منظر ساکت ہو جاتاہے ۔ 
سکرین پر میں نے ہاتھ لگایا تو ٹوٹا ہواایک دانت میری ہتھیلی پر آگرا۔ میں رونے لگا۔ 
''جلدی کرو‘‘مبارک نے سرگوشی کی ''اس کی رحمت جوش میں ہے۔ ـ‘‘
حیرت سے میں نے اسے دیکھا ۔ ایک دانت کا کتنا وزن ہو سکتاہے ؟ لڑکھراکر میں آگے بڑھا اور اپنابوسیدہ دانت نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دیا۔ اس لمحے مجھ پر انکشاف ہوا کہ وہ تو بخشنے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved