تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     30-11-2013

نئی عسکری قیادت

وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدرِ مملکت نے لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر پاکستانی فوج کا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت جنرل راحیل شریف نے جمعہ کے روز پاک فوج کی کمان سنبھال لی ہے۔ یوں گزشتہ کئی ماہ سے جاری قیاس آرائیوں نے دم توڑ دیا ہے‘ جن میں ملک کے اس اہم اور طاقت ور عہدے کیلئے مختلف نام لیے جا رہے تھے۔ ان قیاس آرائیوں کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وزیراعظم نواز شریف نے جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے آرمی چیف کے تقرر کا فیصلہ آخر وقت تک موخر کیے رکھا۔ اب جبکہ نئے آرمی چیف نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں، ملک کے اندر اور باہر دونوں جگہ جنرل راحیل شریف کے تقرر، ان کی شخصیت اور موجودہ صورتِ حال میں ان کے ممکنہ کردار پر الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا میں بھرپور بحث اور تبصرے جاری ہیں۔ کوئی اور ملک ہوتا تو یہ خبر ٹی وی پر ایک مختصر اعلان یا اخبار میں ایک آدھ سطر سے زائد نہ ہوتی لیکن ہمارے ہاں اس اعلان کو اخبارات کی شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے اور ٹی وی چینلز اشتہارات کے بعد خبروں کیلئے بچ جانے والے تھوڑے سے وقت کا 90 فیصد نئے آرمی چیف کے تقرر اور اس کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لینے میں صرف کر رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی یا اچنبھے والی بات نہیں۔ پاکستان کی گزشتہ 66 برس کی تاریخ میں اقتدار زیادہ تر فوج کے ہاتھ میں رہا، جسے اس نے کبھی براہ راست یعنی مارشل لاء کے ذریعے اور کبھی بالواسطہ طور پر یعنی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر یا چیف ایگزیکٹو کو صدر کے عہدے میں تبدیل کر کے استعمال کیا۔ اپنے حجم اور پروفیشنل اہلیت کی بنا پر پاکستانی فوج کو دنیا کی چھٹی بڑی اور بہترین فوج تصور کیا جاتا ہے‘ اس لیے اس کے نئے سربراہ کے تقرر پر مختلف حلقوں کی طرف سے تبصروں اور آراء کا اظہار بالکل فطری اور قابل فہم بات ہے۔
اب تک جتنے تبصرے اور خیالات کا اظہار کیا گیا‘ ان سب کا فوکس جنرل صاحب کی پیشہ ورانہ زندگی، ان کے تجربات، دفاعی امور پر ان کا عبور اور پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کو درپیش چیلنجز پر ان کا ممکنہ ردِعمل رہا ہے۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ ان کے پیشرو جنرل اشفاق پرویز کیانی جو روایات (Legacy) چھوڑ کر جا رہے ہیں اور قومی امور میں فوج کے کردار کیلئے جو رہنما اصول مرتب کر چکے ہیں کیا جنرل راحیل شریف ان پر کاربند رہیں گے یا ان سے ہٹ کر نئی راہیں متعین کریں گے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر فرد کے اپنے خیالات، اپنے نظریات اور انداز ہوتے ہیں اور اجتماعی زندگی میں افراد کے کردار کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم پاکستانی فوج ایک ایسا ادارہ ہے جو خوش قسمتی سے انتہائی منظم اور ہر قسم کے لسانی، علاقائی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بالاتر ہے۔ چیف آف دی آرمی سٹاف کے پاس بے شمار اختیارات ہوتے ہیں اور چونکہ پاکستانی فوج یونٹی آف کمانڈ (Unity of Command) کے اصول پر متحرک ہوتی ہے اس لیے اس کے فیصلوں کی نوعیت اور اہمیت پر چیف کی چھاپ بہت گہری ہوتی ہے۔
جرمنی کے مشہور فلاسفر فریڈرک ہیگل نے جینیس (Genius) کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھاکہ تاریخ سب کو گھسیٹ کر اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کر دیتی ہے لیکن عقلمند شخص وہ ہوتا ہے جو تاریخی عمل کے رجحانات کا پہلے ہی اندازہ لگا لیتا ہے اور پھر ان سے مطابقت اختیار کر کے اپنا تاریخی کردار ادا کرتا ہے۔ ایسے شخص کو لیڈر کہا جاتا ہے‘ اس لیے کسی بھی شخص کے کردار کو سمجھنے کیلئے اس کے تاریخی دور کے رجحانات کا جائزہ لینا ضروری ہے جس میں اس شخص کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملا ہو۔
پاکستان جس تاریخی دور (Epoch) سے گزر رہا ہے اس کی اپنی خصوصیات ہیں۔ ان خصوصیات کی روشنی میں اندرونی اور بیرونی محاذوں پر ملک کو جس صورت حال کا سامنا ہے اس کے اگر منفی پہلو ہیں تو مثبت بھی ہیں، اگر چیلنجز ہیں تو نئے مواقع بھی ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ سول اور ملٹری قیادت ان چیلنجز سے کس طرح نبرد آزما ہوتی ہے اور ان مواقع (Opportunities) سے کس طرح فائدہ اٹھاتی ہے۔ چونکہ چیلنجز کا ذکر بہت ہو چکا ہے اس لیے یہاں صرف ان مواقع کا ذکر کیا جائے گا جن سے فائدہ اٹھا کر نئے چیف آف دی آرمی سٹاف نہ صرف قومی امور میں فوج کے کردار کے بارے میں راہیں متعین کر سکتے ہیں بلکہ ملک اور قوم کی بھی بہت بڑی خدمت سرانجام دے سکتے ہیں۔ پاکستانی عوام کیلئے سب سے زیادہ قابل فخر بات یہ ہے کہ اس وقت ملک میں نہ صرف جمہوریت پر مکمل قومی اتفاق رائے (National Consensus) پایا جاتا ہے بلکہ تمام سیاسی پارٹیاں اس بات کی حامی ہیں کہ سیاست میں اب فوج کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ ان پارٹیوں میں مذہبی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں اور یہ حقیقت نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ اس وقت پاکستان میں جو سیاسی جماعت یعنی مسلم لیگ (ن) برسرِاقتدار ہے، وہ اس اصول کی سب سے بڑھ کر علمبردار رہی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں عوام کی طرف سے اس پارٹی کو بھاری مینڈیٹ ملنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت بھی اس اصول کی حامی ہے۔ جنرل کیانی نے اس تبدیلی کو بھانپ کر فوج کو جہاں تک ممکن ہو سکا سیاست سے دور رکھا امید ہے کہ نئے آرمی چیف بھی اس رجحان کی پیروی کریں گے کیونکہ اس سے نہ صرف ملک کے اندر اتحاد اور ترقی کو فروغ حاصل ہو گا بلکہ عالمی برادری میں پاکستان کا وقار بھی بلند ہوگا۔
علاقائی اور عالمی سطح پر اس وقت غالب رجحان معاشی ترقی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کیلئے قوموں کے درمیان رابطوں اور علاقائی تعاون کی رفتار تیز کرنے کا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے قومیں اپنے فرسودہ نظریات اور پرانے تعصبات کو خیرباد کہہ رہی ہیں۔ اس کی واضح مثال چین اور بھارت کے درمیان تجارت‘ اقتصادی تعاون کے شعبوں میں بڑھتے ہوئے دوطرفہ تعلقات اور حال ہی میں ایران کے ساتھ مغربی ممالک کا جوہری پروگرام پر سمجھوتہ ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان تعاون میں اضافے سے ایشیا میں علاقائی تعاون کیلئے نئی راہیں کھلی ہیں جن پر چل کر پاکستان بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ایران اور مغربی ممالک کے درمیان سمجھوتہ ہونے کی صورت میں مشرق وسطیٰ، خلیج فارس، افغانستان اور وسطی ایشیا میں تجارت اور اقتصادی تعاون میں تیزی آئے گی۔ اپنی جغرافیائی پوزیشن کے اعتبار سے پاکستان ان دونوں مواقع سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کیلئے پاکستان کو خارجہ اور دفاعی شعبوں میں ان نظریات اور اہداف سے دستبردار ہونا پڑے گا جو گزشتہ تین دہائیوں سے ہماری اندرونی اور بیرونی پالیسیوں پر غالب رہے ہیں۔ چونکہ ان دونوں شعبوں میں فوج کا اثرورسوخ اور کردار فیصلہ کن رہا ہے، اس لیے تبدیلی لانے کیلئے بھی فوج کو ہی اقدامات کرنا ہوں گے۔ جن عناصر کو اب تک ہم قومی اثاثہ سمجھتے آئے ہیں ان کے بارے میں ہمیں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ جمہوری نظام میں فوج سویلین حکومت کی برابر حصہ دار نہیں ہوتی بلکہ سول حکومت اور سویلین اتھارٹی کے تابع ہوتی ہے۔ البتہ اسے قومی سلامتی سے متعلقہ امور پر اپنی ایکسپرٹ رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ یہ سویلین حکومت کا کام ہے کہ اس رائے کو مانے یا مسترد کر دے۔ آخری فیصلہ سویلین حکومت کا اختیار ہے اور جو بھی فیصلہ ہو، اسے تسلیم کرنا فوج کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر یہ روش اپنائی گئی تو پاکستان میں ملٹری سول تعلقات میں پائے جانے والا عدم توازن بہت حد تک کم ہو جائے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved