تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     30-11-2013

افسوسناک اور تشویش انگیز

ہم اس قدر فرض شناس قوم ہیں کہ ہیرو کو زیرو بنانے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرتے۔ ہماری ٹیم دو میچ جیت لے تو ہیرو اور اگر ایک ہار جائے تو زیرو ہو جاتی ہے، حتّیٰ کہ ہم نے قائد اعظم جیسے ہیرو کو بھی زیرو بنانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ برادرانِ اسلام نے اگلے روز اپنے بعض مطالبات کے حق میں سپریم کورٹ کے سامنے مظاہرہ کیا‘ تندوتیز تقریریں کیں‘ اندر داخل ہونے کی کوشش کی اور پولیس کے روکنے پر عمارت کے شیشے توڑ دیے۔ میں یہ بات دردمندی سے اس لیے بھی لکھ رہا ہوں کہ میں خود لاہور ہائیکورٹ بار کا ایک ادنیٰ رکن ہوں۔ بہرحال، پولیس نے بعض وکلا کو زدوکوب کیا‘ اگرچہ ان کا موقف ابھی سامنے نہیں آیا۔ وکالت کا معزز پیشہ بجائے خود عمومی تنزل کا شکار ہے۔ ہمارے کچھ بھائی عدالتی افسروں سے لے کر پولیس تک کی خوشامد کرتے ہیں اور ان کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ ہم نے کئی بار عدالت کے اندر اور باہر پولیس اہلکاروں کے کپڑے پھاڑے اور انہیں زدوکوب بھی کیا۔ کسی چھوٹے بڑے جج نے ہمارے مؤکّل کے خلاف فیصلہ دیا تو ہم نے اُسے گالیاں دیں اور اس پر حملہ آور ہوئے اس پر خوفزدہ ہو کر اس نے اپنے ریٹائرنگ روم میں پناہ لی۔ بعض اوقات ہم کمرۂ عدالت کو مقفل کر کے اس میں جج سمیت کسی کا بھی داخلہ بند کر دیتے ہیں جبکہ اس پس منظر میں ''وکلا گردی‘‘ کی اصطلاح بھی منظرعام پر آئی۔ 
اب اخباری اطلاعات کے مطابق معلوم ہوا ہے کہ بعض صوبوں کی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنوں نے چیف جسٹس کے اعزاز میں دیا جانے والا الوداعی'اعزازیہ‘ منسوخ کر دیا ہے اور اس واقعہ پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے جس میں سندھ بار سب سے پیش پیش ہے‘ حتیٰ کہ سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جیلانی نے بھی‘ جو چیف جسٹس کو ناپسند کرنے والوں کی فہرست میں خصوصی طور پر نمایاں ہیں‘ اس موقع پر ایک زوردار بیان جاری کیا۔ یہ موقف بھی اختیار کیا جا رہا ہے کہ اس واقعہ کے ذمہ دار رجسٹرار سپریم کورٹ ہیں؛ چنانچہ ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ پولیس کا رویہ واقعتاً قابلِ مذمت ہے اور اس بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں، لیکن جوکچھ بھائی لوگوں نے وہاں کیا‘ اس کی بھی تحسین نہیں کی جا سکتی کیونکہ وکلا‘ جو خود قانون کے محافظ تصور کیے جاتے ہیں‘ ان سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ 
قارئین کو یاد ہو گا کہ سپریم کورٹ پر باقاعدہ حملہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں ہوا تھا۔ وہ میاں نواز شریف کی وزارت عظمٰی کا دور تھا اور کہا جاتا ہے کہ اس میں حکومت خود ملوث تھی اور یہ کہ اس یُورش میں کئی حکومتی ارکان اسمبلی بھی شامل تھے جن میں سے بعض حضرات بعد میں سزایاب بھی ہوئے؛ تاہم اس کا ڈراپ سین اس وقت ہوا جب جناب رفیق احمد تارڑ کی سربراہی میں ایک وفد مبینہ طور پر کوئٹہ گیا اور بعض ججوں کو اپنے چیف کے خلاف ایکشن لینے پر آمادہ کیا اور جس کے نتیجے میں انہیں سبکدوش ہونا پڑا۔ 
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہماری بار کونسلیں بھی نہ صرف باقاعدہ سیاسی ہو چکی ہیں بلکہ جگہ جگہ دونوں بڑی پارٹیوں کے ونگز بھی بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات بھی ہر شخص جانتا ہے کہ چونکہ پیپلز پارٹی چیف جسٹس سے کبھی خوش نہیں رہی اس لیے اس جماعت کے ہمنوا وکلا بھی ان کے بارے میں ایک ذہن بنا چکے ہیں اور خاص طور پر بار ایسوسی ایشنز کے سالانہ انتخابات کے موقع پر اس حوالے سے اپنی پسند اور ناپسند کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ماشااللہ علی الاعلان کرتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ وکلا سیاست سے دور رہ بھی نہیں سکتے‘ لیکن جہاں تک عدلیہ کے احترام اور غیرجانبداری کا تعلق ہے، اس سلسلے میں کچھ حدودوقیود کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے۔ 
میں موجودہ سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوتا‘ اس لیے مجھ پر چیف جسٹس کی خوشامد کا الزام نہیں لگایا جا سکتا جو ویسے بھی اب چند دنوں ہی کے مہمان ہیں۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ پیش رفت اور بھی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ایک مؤثر انگریزی روزنامہ کی اطلاع کے مطابق خواتین پر تشدد کی محافظ وفاقی محتسب محترمہ یاسمین عباسی نے چیف جسٹس سمیت کئی دوسرے جج صاحبان کے خلاف صدر مملکت کو ریفرنس بھجوایا ہے تا کہ ان حضرات کے خلاف دستور پاکستان کے آرٹیکل 109 کے تحت 3 نومبر 2007ء سے متعلق ایک عدالتی حکم کے ضمن میں کارروائی کی جائے۔ ان میں ریٹائرڈ جسٹس رانا بھگوان داس‘ ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال‘ ریٹائرڈ جسٹس شاکر اللہ جان‘ ریٹائرڈ جسٹس راجہ فیاض احمد‘ جسٹس ناصرالملک اور ریٹائرڈ جسٹس غلام ربانی بھی شامل ہیں۔یاسمین عباسی نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ انہوں نے جو شہادتیں اکٹھی کی ہیں ان کے مطابق یہ حضرات شدید مس کنڈکٹ اور کرپشن کے مرتکب پائے گئے ہیں؛ چنانچہ ان کی دوران ملازمت پنشن تک کے مفادات روک دیے جائیں ورنہ اس ریفرنس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ 
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ محترمہ یاسمین عباسی خود ایک انکوائری کے تحت رہ چکی ہیں جس میں انہیں قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سوئس عدالت میں زیر سماعت 60 ملین ڈالرز والے مقدمہ کے بارے میں ریکارڈ غائب کر دیا تھا؛ تاہم اپنی نیوز کانفرنس میں انہوں نے اس میں اپنے ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ پریس کانفرنس شاید ایک پیش بندی کے طور پر کی گئی ہے کیونکہ وزارت قانون کی طرف سے ان کے خلاف مذکورہ انکوائری کمیٹی کے انکشافات کے حوالے سے ایک ریفرنس کی سمری صدر کو منظوری کے لیے بھیج دی گئی ہے ع 
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی 
اپنے ابتدائی بیان کی طرف لوٹتے ہوئے عرض ہے کہ جسٹس افتخار محمد چودھری پوری قوم اور اس کے بے اختیار عوام کے متفقہ ہیرو ہیں جنہوں نے کرپشن کے خاتمے اور لوٹی ہوئی دولت واپس وصول کرنے اور مظلوم و لاچار عوام کی حق رسی کے لیے بے مثال اقدامات کیے‘ نیز حکومتوں کو بھی بے لگام ہونے اور اپنے اختیارات سے تجاوز سے بڑی دلیری کے ساتھ روکے رکھا‘ حتیٰ کہ سوموٹو ایکشن ان کے لیے ایک طعنہ بن گیا۔ حکومت اور اداروں کی ناجوازیوں کا بروقت قلع قمع کرنے میں انہوں نے ایک درخشاں مثال قائم کی بلکہ بعض مقدس گائیوں کو بھی للکارا۔ یاد رہے کہ ہماری تاریخ جہاں عدالتوں کے نظریۂ ضرورت کے واقعات اور فیصلوں سے بھری پڑی ہے‘ وہاں خلقت نے پہلی بار دیکھا کہ قانون اور دستور پاکستان پر صحیح معنوں میں عملدرآمد بھی ممکن ہے۔ بے عیب تو اللہ تعالیٰ کے بعد رسول اکرمؐ کی ذاتِ والا صفات ہی ہے، انسان سے غلطی بھی ہو سکتی ہے؛ چنانچہ اس کی کسی مفروضہ غلطی کے حوالے سے اس کی بے شمار نیکیوں اور راست اقدامات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ بے شک بہت سے لوگ چیف جسٹس کے ساتھ اپنا سکور برابرکرنے کی فکر میں بھی ہوں گے کیونکہ صاحبِ موصوف نے ان کے ساتھ کوئی خصوصی رعایت کرنے کے بجائے محض انصاف کو ملحوظِ خاطر رکھا۔ 
آج کا مقطع 
ہم اگر قید نہ کر پائے قفس میں تو ظفرؔ 
اُس کو دیوار پہ تحریر تو کر سکتے تھے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved