بی بی سی کے ایک مبصر کی توقع‘ تھکی ہوئی اور مضمحل امیدوں کی صف میں چمکتی ہوئی ایک چنگاری کی طرح ہے۔ مبصر نے جنرل راحیل شریف اور ان کے پیش رو میں دلچسپ موازنہ کرتے ہوئے‘ اپنی توقع کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے۔''جنرل راحیل‘ جنرل کیانی سے قد میں شاید ایک آدھ انچ اونچے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ فوجی اور اس سے بڑھ کر ملکی وقار کو بھی جنرل کیانی سے اگر زیادہ نہیں‘ تو ایک دو انچ بڑھا دیں گے۔‘‘ ایک اندازے کے مطابق باقاعدہ جنگ لڑنے والی پاکستانی فوج کی آخری نشانی جنرل کیانی تھے۔ ان کے بعد فوجی قیادت کی صف میں شاید ہی کوئی جنرل ایسا رہ گیا ہو‘ جس نے عملاً باقاعدہ جنگ میں حصہ لیا ہو اور ہمارے ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد پاک فوج کے باقاعدہ جنگ میں حصہ لینے کا زیادہ امکان نہیں۔ ہم کوئی سپرپاور تو ہیں نہیں کہ اپنے خطے سے باہر نکل کر جنگیں لڑتے پھریں۔ یہ شوق صرف اقوام متحدہ کی مدد سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس کی طرف سے جو امن فوج مختلف ملکوں میں جاتی ہے‘ اس کا کام مقامی بغاوتوں اور شورش پر قابو پانا ہوتا ہے۔ باقاعدہ جنگ اس کے حصے میں نہیں آتی۔ ہمیں قدرت نے باقاعدہ جنگ لڑنے کے لئے صرف چار پڑوسی دیئے ہیں۔ ان میں سے دو کے ساتھ ہم زورآزمائی کرتے رہتے ہیں۔ چین اور ایران کے ساتھ ابھی تک زورآزمائی کا موقع نہیں ملا اور جن کے ساتھ زورآزمائی کی ہے‘ ان میں بھی باقاعدہ جنگیں صرف بھارت کے ساتھ ہوئیں۔ افغانستان جنگ ''ہرچند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے‘‘ کے مثل ہے۔
افغانستان سے جنگ کرنے والوں کو مایوسی نہیں ہوتی۔ اگر کوئی چاہے‘ تو لامتناہی عرصے تک جنگ جاری رکھ سکتا ہے۔ روس نے کوشش کی ‘سات برس میں جنگ کا شوق پورا کر کے‘ واپس چلا گیا۔ امریکہ 43 ملکوں کے ریوڑ کے ساتھ جنگ کے جنون میں افغانستان آیا اور ایک عشرے کی انتھک جنگ کے بعد واپسی کی تیاریاں کر رہا ہے۔ لیکن پوری فراغت کا وہ بھی خواہش مند نہیں۔ دنیا بھر میںدور دور جا کر جنگیں لڑتے لڑتے‘ امریکہ کے معاشی رگ پٹھے ڈھیلے پڑ گئے ہیں۔
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
اب عناصر میں اعتدال کہاں
جنگ کی عادت ‘ علّت یا لت پوری کرنے کے لئے امریکہ ‘ افغانستان کو ایک مستقل اور محفوظ جنگ کے لئے مختص کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ چند روز پہلے صدر اوباما نے ایک نیا اور مستقل میدان جنگ تیار کرنے کے لئے شام پر نظر جمائی تھی۔ لیکن حساب کتاب لگانے کے بعد سمجھ آ گئی کہ یہ خطہ لمبی‘ طویل اور قابل برداشت جنگ کے لائق نہیں ہے۔ وہاں ایک تباہ کن اور فاسٹ ٹریک جنگ بھگت کے یوں نکلنا پڑے گا جیسے عراق سے نکلنا پڑا۔ امریکہ کا مسئلہ بھی اب ہماری طرح کا ہو گیا ہے۔ بے شک وہ سپرپاور ہے اور ہم نان سپر۔ مگر ضرورتیں دونوں کی ایک جیسی ہو گئی ہیں۔ امریکی معیشت میں اب وہ طاقت اور توانائی باقی نہیں رہی‘ جو تیزرفتار اور دورازکار جنگوں کا بوجھ برداشت کر سکے۔ امریکہ اپنی جنگی ضرورت اب اسی طرح پوری کر سکتا ہے‘ جیسے بوڑھا شیر گوشہ عافیت میں بیٹھ کر آتے جاتے شکار کو پنجہ مار لے۔ امریکی جنگجوئوں کا گوشہ عافیت افغانستان ہو گا۔ یہاں وہ پانچ سات اڈوں پر بوڑھے شیر کی طرح ٹھکانے بنا کر بیٹھ جائے گا۔ مقامی جنگجوئوں نے چھاپہ مارا‘ تو پنجے جھاڑ کے انہیں بھگا دیا اور پھر سے میٹھی نیند اور کھٹے میٹھے خواب۔ جنگ بھی چلتی رہے گی۔ معیشت بھی چلتی رہے گی اور جنگ کے نقصان بھی نحیف و نزار معیشت کے لئے قابل برداشت ہوں گے۔
ہمارا مسئلہ بھی امریکہ سے ملتا جلتا ہے۔ جنگ یا ''جنگ کے حالات‘‘ جس طرح امریکہ کے لئے ضروری ہیں‘ اسی طرح ہمارے لئے۔ امریکہ کی معیشت کو جنگ چاہیے اور ہمیں اپنے بجٹ کے لئے۔ امریکہ بھی ایٹمی طاقت بن کر فیصلہ کن جنگ لڑنے کے قابل نہیں رہ گیا اور یہی مصیبت ہمارے گلے پڑ گئی ہے۔ امریکہ جہاں بھی جنگ لڑنے جائے گا‘ اس کا ہدف بننے والے ملک کی حمایت میں کوئی نہ کوئی ایٹمی طاقت سامنے آ کر کھڑی ہو جائے گی۔ ایٹمی طاقت کو وہ میدان میں اتار نہیں پاتا اور ہزاروں میل دور آ کر روایتی جنگ لڑنا‘ قابل عمل چیز نہیں۔ کوریا میں آئے‘ تو سامنے چین تھا اور اس وقت چین اور سوویت یونین اکٹھے تھے اور سوویت یونین ایٹمی طاقت تھا۔ ویتنام میں آئے تو پھر وہی صورتحال سامنے تھی۔ افغانستان میں آ کر سوویت یونین کو للکارا تو ضرور۔ لیکن خود میدان میں اترنے کی ہمت نہ ہوئی۔ چنانچہ ہمارے مردمومن کو ڈالر اور اسلام دے کر سوویت یونین سے بھڑا دیا۔ امریکہ کو فتح مل گئی اور ہمیں طالبان۔ جنگوں میں کود کر‘ جنگ کے نقصانات اور خطرات سے بچنے کا اس سے بہترین نسخہ تاریخ میں کبھی استعمال نہیں ہوا۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ امریکہ کو اپنی معیشت اور ہمیں اپنے بجٹ کے لئے جنگ یا جنگی حالات کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے۔ امریکہ افغانستان میں اڈے بنا کر اپنی ضرورت پوری کرے گا اور ہمیں باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ طالبان نے ہمیں گھر بیٹھے وہی سہولتیں فراہم کر دی ہیں‘ جو امریکہ ہزاروں میل دور آ کر افغانستان میں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ افغانستان میں طویل مدتی مقاصد کے تحت اپنے اڈے قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔ لیکن ہم تو
پورے ملک سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ طالبان جہاں چاہتے ہیں‘ کارروائی کر گزرتے ہیں اور ہم جتنا چاہتے ہیں رونا دھونا کر لیتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ جنگوں میں ہم نے 25سال بہت ''اچھی طرح‘‘ گزار لئے۔ جب لڑنا چاہا‘ لڑتے رہے اور جب سمجھ آئی کہ جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا تو سیز فائر کر لیا اورشمن کو گھر بلا کر اسے پستول کا تحفہ دے دیا۔ 1998 ء میں ایٹمی طاقت بنے تو بھارت سے جنگ کی عیاشی بے معنی ہو گئی۔ جنرل پرویزمشرف نے یہ عیاشی کرنے کی کوشش کی تھی مگر کمبل سے جان چھڑانے کے لئے امریکہ سے مدد مانگنا پڑی۔ بعد میں بھی دو اڑھائی مرتبہ بھارت سے جنگ کا موقع آیا مگر دونوں میں سے کسی نے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی اور فوجیں سرحدوں سے ہٹا لیں۔ جنگ کے خطرات تو ٹل گئے مگر امن کا خطرہ سامنے آ گیا۔اگر امن یقینی ہو جاتا‘ تو ہمارے دفاعی بجٹ کا برقرار رہنا مشکل تھا۔ یہ ہے وہ مقام جس پر ہم امریکہ کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور ہیں۔ اسے اپنی معیشت کے لئے جنگ چاہیے‘ ہمیں اپنے بجٹ کے لئے۔ ہم دونوں کا علاج افغانستان میں ہے۔ امریکہ اپنے علاج کے لئے افغانستان میں اڈے بنا رہا ہے۔ ہم نے اپنا ملک طالبان کی زور آزمائی کے لئے وقف کر دیا ہے۔ یہ واحد جنگ ہے‘ جس میں ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر مجبور نہیں ہونا پڑے گا۔ طالبان اتنا خطرہ ضرور پیدا کرتے رہیں گے‘ جو ہمارے بجٹ کی ضرورت پوری کرتا رہے۔ ہمیں نہ اس سے زیادہ جنگ کی ضرورت ہے اور نہ کم۔ ہم دونوں کی ایک ہی کوشش ہے کہ امریکہ اپنے فوجیوں کو اڈوں پر محفوظ کر کے جانی نقصانات سے بچنے کی کوشش کرے گا اور ہمیں بھی یہی کچھ کرنا ہو گا کہ جنگ میں فوج کو جانی نقصانات سے بچاتے ہوئے اپنی ضرورت پوری کرتے رہیں۔ چھاپہ ماروں کے خلاف باقاعدہ جنگ کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن جنگ کے حالات دستیاب ہیں۔ طالبان طویل عرصے تک یہ ضرورت پوری کرنے کے اہل ہیں۔ امریکہ اور ہم‘ دونوں ہی افغانستان پر انحصار کرتے ہوئے اپنی اپنی ضرورت پوری کرتے رہیں گے۔ آنے والے دنوں میں ہمیں کوئی جنرل حمیدگل ‘ جنرل مشرف یا جنرل کیانی نہیں ملیں گے‘ جنہوں نے باقاعدہ جنگوں میں حصہ لیا ہے۔ آئندہ ہمارے فوجی کارناموں کا تعلق داخلی جنگوں سے ہو گا۔ مایوسی بہرحال گناہ ہے۔ اگلے چند عشروں میں دفاعی تصورات بھی بدل جائیں گے اور خوشحالی بھی دروازے توڑ کر ہمارے گھر میں داخل ہو جائے گی۔ دفاعی بجٹ کا بڑا حصہ جہالت‘ بیماری‘ غریبی اور قدرتی آفات کے خلاف صرف ہوا کرے گا۔ البتہ موجودہ لیڈر شپ ہمیں اس منزل تک نہیں لے جا سکتی۔ مگر میں نے کونسا سال دو سال کا حساب لگایا ہے؟ میں بھی عشروں کی بات کر رہا ہوں۔فی الحال تو ہم فوجی قیادت کی تبدیلی کی رسم کو بھی شاہی تقریب جیسی شان و شوکت کے مظاہرے میں بدلتے جا رہے ہیں۔