تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-12-2013

درباری

اختیارات کے ارتکاز اور من مانی کے مواقع نہیں بلکہ حکمران اپنی فردِ عمل سے معتبر ہوتاہے ۔ کوئی جائے اور جا کر میاں صاحب کو بتائے کہ ناکامی کے راستے پر وہ بگٹٹ بھاگ رہے ہیں۔ درباریوں سے نجات پائیں‘ وہ درباریوں سے ! 
اس نکتے پر زور دینے کی بجائے کہ فوج پر سول کی بالادستی ہونی چاہیے، کیا اس بات پر اصرار نہ کرنا چاہیے کہ دونوں اداروں کو ایک آہنگ کے ساتھ بروئے کار آنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ پارلیمانی نظام میں اہم فیصلے بنیادی طور پر وزیراعظم اور کابینہ کو کرنا ہوتے ہیں ۔ دوسرے محکموں کی طرح فوج کے افسر بھی سرکاری ملازم ہیں ۔ خوش دلی کے ساتھ انہیں بھی اطاعت کرنی چاہیے۔ اوّلین سوال مگر یہ ہے کہ کیا سرکاری ترجیحات جمہوری طریق سے طے کی جاتی ہیں ؟ فیصلہ سازی محض منتخب وزیراعظم نہیں بلکہ کابینہ کی ذمہ داری ہے اور پارلیمان کی ۔ اسی مقصد کے لیے اس کا انتخاب کیا جاتاہے ۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی تشکیل جمہوری خطوط پر ہونی چاہیے، نچلی سطح تک جن میں شفاف الیکشن ہوتے رہیں ۔ بلدیاتی ادارے اس نظام میں ریڑ ھ کی ہڈی ہوتے ہیں ، جہاں سے مستقبل کی قیادت اُبھرتی اور بتدریج آئندہ مراحل طے کرتی ہے ۔ سیاسی نظام کی اس سے زیادہ غلط توجیہ ممکن نہیں کہ سب کچھ وزیراعظم کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے، بادشاہ سلامت پر۔ اس آدمی پر ، تیرھویں ترمیم میں جس نے دستور کے کسی بھی حصے کو معطل کرنے کا اختیار مانگا تھا۔ چیف جسٹس کو جس نے حکم دیا تھا کہ تیزی سے فیصلے کرنے والی عدالتیں بنائی جائیں اور اس سلسلے میں وہ ان کے والدِ گرامی کی خدمت میں حاضر ہوں ۔ جو اختیار کو اپنے خاندان ، قبیلے اور خوشامدیوں تک محدود رکھنے کا آرزومند ہے۔
بریگیڈئیر صاحب نے ، جن کانام کم از کم فی الحال میں عرض نہ کروں گا، جنرل پرویز مشرف سے ایک ملاقات کا احوال سنایا۔ وزیرِ اطلاعات شیخ رشید اور وفاقی سیکرٹری اطلاعات ان کی خدمت میں حاضرتھے۔ شیخ رشید نے کہا: ہم چاپلوسی کے لوگ نہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ عوام میں آپ بے حد مقبول ہیں ۔ مخالفین بھی آپ کو مخلص اور صداقت شعار مانتے ہیں ۔ سیکرٹری سعید مہدی نے اس پر گرہ لگائی۔ بریگیڈئیر کا کہنا ہے کہ انہوںنے خود کو اجنبی اور ہونق محسوس کیا، جب ایک اور سرکاری افسر بھی اس کارِ خیر میں شریک ہوا۔ 
بریگیڈیر صاحب کے بقول ، رخصت ہونے سے قبل تنہائی میّسر آئی تو انہوںنے جنرل سے یہ کہا: میں نے محسوس کیا ہے کہ آپ کی جسمانی مستعدی (Reflexes)کم ہوتی جا رہی ہے ۔ آپ کا پیٹ بڑھ رہا ہے ۔ جسمانی چستی کم ہو جائے تو انسانی ذہن لازماً اس سے متاثر ہوتاہے ۔ آپ کو تیراکی پر توجہ دینی چاہیے۔ ایوانِ صدر میں ایک تالاب موجود ہے ۔ 
بریگیڈیر سے میں نے پوچھا : کیا فوجی صدر اس پر نا خوش نہ ہوئے؟ ''ہوئے ہوں گے‘‘ اس نے کہا ''مگر وہ جانتے تھے کہ یہ ایک بدتمیز آدمی ہے‘‘۔ پھر وہ ذرا سا مسکرایا اور یہ کہا : اللہ کے فضل سے اپنی 34سالہ ملازمت کے دوران بدتمیزی کا کوئی مناسب موقع میں نے ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ ظاہر ہے کہ بدتمیزی سے ان کی مراد صاف گوئی تھی ۔ 
فوجی ہی نہیں ، سول حکمرانوں کا عالم بھی یہی رہا ۔ جمہوری روایات پروان تو کیا چڑھتیں ، پیدا ہی نہ ہو سکیں۔ قائد اعظم گئے تو جمہوری ثقافت بھی گئی ۔ میاں محمد نواز شریف کے سوانح نگار نے میاں شہباز شریف سے سوال کیا تو انہوںنے یہ کہا: میاں صاحب کا فرمان یہ ہے کہ اگر اختلاف کرنا ہو تو تنہائی میں کیا جائے ، دوسروں کے سامنے ہرگز نہیں۔ 
امریکہ ، بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات پر فوج اور سول قیادت کے اندازِ فکر میں اختلاف پایا جاتاہے ۔ اس میں پریشانی کی ہرگزکوئی بات نہیں ۔ المیہ یہ ہوگا کہ ان میں سے کوئی بزور اپنی بات منوانے کی کوشش کرے ۔ بھارت کے باب میں وزیراعظم کی پالیسی ناکام ہو چکی۔ ایک ممتاز مبصر نے لکھا ہے : وہ ویزہ ختم کرنے کی بات کرتے ہیں مگر بھارت اس کے جواب میں سرحدوں پر گولے برساتاہے ۔ بات اتنی سی نہیں ۔ بھارتی انتخابات میں پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے کا مقابلہ برپا ہے ۔ ایسے میں ہر وقت غیر ضروری طور پر امن کی راگنی کمزور ی کا اظہار ہے ۔ قوموں کے باہمی مراسم خاص طور پر بھارت ایسے پڑوسی کے ساتھ امن کا حصول خوف کے توازن ہی سے ممکن ہے ۔ رہی جنگ اور کشیدگی ،تو وہ کسی مسئلے کا حل نہیں ۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران پاکستان میں یہ احساس تیزی سے پروان چڑھا اور خوش آئند ہے ۔ بالکل برعکس اقتصادی نمو کے ہنگام بھارتیوں میں گھمنڈ بڑھتا جا رہا ہے ۔ امریکی اور یورپی سرپرستی اس کے سوا ہے۔ افغانستان کا معاملہ بھی یہی ہے ۔ حامد کرزئی ، جن کا عہد ختم ہونے والا ہے ، پاکستان دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔وزیر اعظم من موہن سنگھ اور حامد کرزئی سے پرجوش ذاتی مراسم کے آرزومند ہیں ۔ ذاتی تعلقات کیا معنی ؟ خوشگوار مراسم کی آرزو بجامگر یہ بھی انہیںمعلوم ہونا چاہئیے کہ ہر کام کا ایک قرینہ ہوتاہے ۔ ایک موزوں حکمتِ عملی ، جسے نظر انداز کر کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے۔ 
جنرل پرویز مشرف نے وطن واپس آکر خود کو مصیبت میں ڈالنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ ان کی خوشامد پسندی نے۔ ایک عینی شاہد نے بتایا کہ کراچی روانگی سے چند روز قبل انہوںنے جنر ل کو ملاقاتیوں میں گھرے پایا۔ ان میں سے دو مسلسل یہ کہتے رہے کہ پاکستان میں موصوف بے حد مقبول ہیں ۔ ملک تباہ ہو چکا اور تعمیرِ نو کے لیے پاکستانی عوام ان کے منتظر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ، جنرل سے میں نے یہ کہا : جنابِ والا! ان کی باتوں پر نہ جائیے ، ملک میں آپ کی حمایت برائے نام ہے ۔ا س پر وہ بھڑک اٹھے اور اپنے ہمدرد سے یہ کہا کہ وہ ان سے حسد کرتاہے ۔ حسد؟ ہکّا بکّا وہ وہاں سے اٹھا اور حیران ہوتا رہا۔ 
بریگیڈئیر صاحب نے ، آغا ز میں جن کا ذکر ہے ، جنرل پرویز مشرف کے دربار سے باہر آتے ہوئے سکیورٹی پر مامور ایک فوجی افسر کو دیکھا ، جو ان کے جونئیر اور جاننے والے تھے ''آپ صدر کی حفاظت نہیں کر رہے‘‘ اس نے کہا ''آپ کو انہیں خوشامدیوں کے چنگل سے چھڑانے کی کوشش کرنی چاہیے‘‘۔ جواں سال افسر نے، جو اب ایک ممتاز عہدے پر فائز ہے، جواب میں یہ کہا ''ایوانِ صدر ویران ہو جائے گا‘‘۔ 
حکمران اپنے خوابوں کے اسیر ہو کر تباہ ہو تے ہیں ۔ مہنگائی، بد امنی، بے روزگاری، نواز شریف کی ناکامی اظہر من الشمس ہے۔ اصل مسائل پر توجہ دینے کی بجائے ، وہ اپنے حامیوں کو نوازنے اور مخالفین کا قلع قمع کرنے پر سوچتے رہتے ہیں ۔ کیا پرویز رشید عمران خان کو نمٹا دیں گے ؟ ان کی ساکھ کتنی ہے ؟ 
اختیارات کے ارتکاز اور من مانی کے مواقع نہیں بلکہ حکمران اپنی فردِ عمل سے معتبر ہوتاہے ۔ کوئی جائے اور جا کر میاں صاحب کو بتائے کہ ناکامی کے راستے پر وہ بگٹٹ بھاگ رہے ہیں۔ درباریوں سے نجات پائیں‘ وہ درباریوں سے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved