ہم اپنی زندگی جس سچائی کی تلاش میں بسر کرتے ہیں وہ کہیں نہیں پائی جاتی۔ وہ ایک فریب نظر ہے لیکن ہم زندگی کے صحرا میں اس امید پر اپنا سفر جاری رکھتے ہیں کہ ایک دن سچائی کی جھلک پا لیں گے۔ سچائی کی قریب ترین شکل کتابو ں میں تحریر شدہ لفظ کی صورت ہوتی ہے۔ کتابیں کون لکھتا ہے؟ عام طور پر مورخ، سیاسی تجزیہ کار اور سوانح نگار مشہور افراد کی زندگیوں میں پیش آنے والے واقعات قلم بند کرتے ہیں اور ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حقیقت پر مبنی ہوں گے۔
کسی شخص، چاہے وہ آدمی ہو یا عورت، کی سوانح عمری میں دلچسپی کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشہور افراد، جیسا کہ ہمارے ہاں بے نظیر بھٹو، جنرل پرویز مشرف، جنرل ایوب خان یا عمران خاں، کو اپنی زندگی کے واقعات عوام تک پہنچانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ وہ کیوں سمجھتے ہیں کہ ان کی زندگی اتنی اہم ہے کہ اس کے حالات زریں الفاظ میں لکھنے کے قابل ہیں؟ ان تمام افراد کی سوانح عمریوں کا جائزہ لینے کے لیے کئی ایک کالم اور برس ہا برس کی عرق ریزی درکار ہے۔ اس محنت پر تو پی ایچ ڈی کی ڈگری ملنی چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ موضوع اتنی جانفشانی کا مستحق ہے بھی یا نہیں؟ کیا ان افراد‘ جو اس دنیا سے چلے جاتے ہیں‘ کی کتابوں سے دانائی حاصل کی جا سکتی ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم کتاب کے ''وسیلے‘‘ کو درمیان سے ہٹاتے ہوئے اُس شخص کا براہ راست ''مطالعہ‘‘ کرنے کی کوشش کریں اور اس کے نتیجے میں ہم زیادہ کچھ جان سکیں؟ گزشتہ چھ سال سے پاکستان میں دو افراد، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی، ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز ہیں۔ اگرچہ اس وقت ان کی کارکردگی کا جائزہ لینا قبل از وقت ہو گا لیکن کوشش کرنے میںکیا حرج ہے۔
عظیم اقوام میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے۔۔۔ وہ اُن افراد کا کڑا جائزہ ضرور لیتی ہیں جو بڑے مناصب پر فائز رہے ہوں۔ ان کی کارکردگی کا ناقدانہ انداز میں جائزہ لیا جاتا ہے اور ایسا کرنا ملک دشمنی کے یا ان شخصیات پر کیچڑ اچھالنے کے مترادف نہیں سمجھا جاتا۔ درحقیقت یہ ایک صحت مند روایت ہے اور اس سے آنے والوں کو بھی بہت سے معاملات میں رہنمائی ملتی ہے؛ تاہم اس جائزے کا پریس میں دیے جانے والے بیانات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ درحقیقت میڈیا میں ہونے والی کارروائی جائزہ نہیں بلکہ تبصرہ ہوتی ہے۔ ہمارے لیے مسئلہ یہ ہے کہ تبصرے کو جائزہ سمجھ کر کوئی نہ کوئی رائے قائم کر لیتے ہیں اور پھر دنیا ادھر کی اُدھر ہو جائے، یہ رائے ہمارے لیے پتھر پر لکیر بن جاتی ہے۔ کیا یہی وہ شعور ہے جو میڈیا رات دن عوام کو دیتے ہوئے ''قوم سازی‘‘ کا دعویٰ کرتا ہے؟
بدقسمتی سے پاکستان میں غیر جانبدار ہو کر معروضی انداز میں جائزہ لینے کا کوئی انتظام نہیں۔ یہاں قدم قدم پر افواہ ساز فیکٹریاں رات دن عوامی خدمت میں مصروف رہتی ہیں‘ لیکن گردوغبار کے ان اُڑتے ہوئے جھکڑوں میں ہم حقیقت سے بیگانہ رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ واقفان حال اس بات پر بے چین رہتے ہیں کہ ابھی ''اصل بات‘‘ معلوم نہیں ہو پائی۔ اس کی ایک مثال سابق صدر آصف زرداری ہیں۔ گزشتہ دو عشروں میں ان کے خلاف اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ اس مواد کو پڑھنے کے لیے بھی اتنے ہی عشرے درکار ہیں۔ پھر بھی جو لوگ ان کے بہی خواہ ہیں، اُن کا خیال ہے کہ آصف علی زرداری کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا تھا اور یہ کہ اُنھوں نے بلاجواز سزا بھگتی اور الزامات سہے۔ اب حقیقت کیا ہے؟ شاید ہم میڈیا میں گردش میں رہنے والے بیانات اور کیے گئے تبصروں سے کبھی نہ جان پائیں کہ زرداری صاحب اصل میں کیا تھے۔
اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے کیا عوام اب یہ سوچنے میں حق بجانب نہیں ہوں گے کہ جب رخصت ہوتے ہوئے چیف صاحبان اور ان کی قومی خدمات کے بارے میں لکھا جائے گا یا ان کو ہدف تنقید بنایا جائے گا تو عین ممکن ہے کہ سچائی ہر دو مبصرین کو غچہ دے جائے؟ دراصل سوانح عمری کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ اس میں اُس شخص کی تعریف و توصیف میں مبالغہ کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ مصنف زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے دعویٰ کرتا ہے کہ وہ صاحب وطن میں آفاقی انقلاب لے ہی آئے تھے‘ بس ایک آنچ کی کسر رہ گئی۔ روایت میں نرگسیت کی برملا جھلک ملتی ہے۔ دراصل یہ ایک ایسی کہانی ہوتی ہے جس میں ہیرو مذکورہ شخصیت ہوتی ہے جبکہ ولن کا کردار وہ تمام شخصیات یا حالات ادا کرتے ہیں جو اُس شخص کو ناکام بنانے کی کامیاب کوشش کر چکے ہوتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کچھ عرصہ بعد جنرل کیانی اور چیف جسٹس صاحب کسی صحت افزا مقام پر چائے سے محظوظ ہوتے ہوئے لیپ ٹاپ سامنے رکھے اپنے خیالات کی رو کو الفاظ اور الفاظ کو فقرات میں ڈھالتے ہوئے لکھنے کی کوشش کریں۔ ہو سکتا ہے کہ جنرل صاحب کو یاد آئے کہ کبھی وہ ایڈمرل مولن کے سامنے بیٹھ کر بھی چائے پیتے تھے کیونکہ امریکی ملٹری چیف کا جی ایچ کیو میں تواتر سے آنا جانا رہتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اُن دنوں کے بارے میں ہمیں کچھ مزید پڑھنے کو بھی مل جائے۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہو کیونکہ ہماری دنیا میں سچائی بہت سے پردوں میں ملوف رہتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کو مزید تیس سال انتظار کرنا پڑے جب کچھ خفیہ کیبل پیغامات تک عوام کی رسائی ممکن ہو۔ اس دوران ہو سکتا ہے کہ ہم FOIA (فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ ) سے بھی استفادہ کر سکیں؛ تاہم کہا جاتا ہے کہ اس ضابطے کے تحت ہم ہر کسی کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں‘ لیکن جن معلومات کو خفیہ یا حساس قرار دیا جائے گا تو عوام ان تک رسائی حاصل نہیںکر پائیں گے۔ اس حساسیت کا دارومدار سرکاری افسران کی صوابدید پر ہے۔
اگر پاکستان میں کوئی ایسی نجی تنظیم ہو جو غیر جانبدار طریقے سے اعدادوشمار جمع کرے اور پھر ان اعدادوشمار کی روشنی میں افراد کا تجزیہ کیا جائے تو میڈیا پر چلائی جانے والی مہم کا توڑ ہو سکتا ہے اور عوام سچ اور جھوٹ کے فرق کو جان سکتے ہیں۔ یہ تنظیم ایسی ہو جسے ''ریٹنگ‘‘ بڑھانے کا خبط نہ ہو۔ کیا آپ سوچ رہے ہیں کہ میں مثالیت پسند بنتی جا رہی ہوں؟ میرا خیال ہے کہ آپ کا اندازہ درست ہے۔ کچھ مہینے پہلے میں پی پی پی کے سابق رہنما ڈاکٹر مبشر حسن ، جن کی عمر اس وقت اکانوے سال ہے، کا ایک کھلا خط شائع ہوا تھا۔ وہ ایک انگریزی اخبار میں لکھنے والے مشہور کالم نگار کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں۔۔۔''آپ گزشتہ پچیس سال سے لکھ رہے ہیں لیکن ان عمدہ مضامین سے ملک میں ایک ذرہ بھر تبدیلی نہیں ہوئی‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ اس ملک کے عام آدمی کو آگے آنا ہو گا لیکن اس میں ابھی دیر محسوس ہوتی ہے۔ بات یہ ہے کہ جب یہ لوگ صدیوں سے حالات کے جبر تلے دبے ہوئے ہیں تو اُنہیں کھڑا ہونے میں بہت وقت لگے گا۔ وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس ملک کے تعلیم یافتہ طبقے نے عوام کی تنظیم سازی نہ کرکے ملک کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک منقسم معاشرہ ہیں اور ہم عقیدے اور ذاتوں میں پناہ تلاش کرتے ہیں۔