تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     01-12-2013

60 ملین ڈالرز کے لیے!

حیران ہوں، وزیراعظم نواز شریف کے اس اعلان کے بعد کہ جو بھی ملک میںڈھائی کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرے گا،اس کے ذرائع آمدنی کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا، صحافیوں کے پاس کیا جواز رہ گیا ہے کہ وہ ملک کو لوٹنے والوں کو برا بھلا کہیں یا کرائے کے قاتلوں اور بھتہ خوروں کے خلاف خبریں اورسکینڈل فائل کریں؟ اس نئے شاہی حکم کے تحت طالبان اوردوسرے دہشت گردوں نے اغوا برائے تاوان سے جو مال کمایاوہ بھی اس سے اپنا کاروبار شروع کر سکتے ہیں،ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ کراچی، لاہوراوراب اسلام آباد میں جرائم پیشہ عناصرجوبھتہ لیتے ہیں وہ بھی''لانڈری‘‘ کا کاروباری شروع کردیں توحکومت کو اعتراض نہیں ہوگا۔کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں میں کرائے کے قاتل اپنا دفتر کھول سکتے ہیں، ان سے بھی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ 
میرا خیال ہے مخدوم امین فہیم کو بھی وہ چار کروڑ روپے واپس کردیے جائیں جوان کی بیگم کے اکائونٹ سے برآمد ہوئے تھے کیونکہ اب وہ رقم قانونی ہوچکی ہے۔اس سکینڈل میں مطلوب محسن حبیب وڑائچ کو بھی وہ ایک ارب چالیس کروڑ روپے واپس کر دینے چاہئیں جو ان سے ایف آئی اے نے یہ کہہ کروصول کئے تھے کہ یہ انہوں نے این آئی سی ایل کے ناجائز معاملات میں کمائے تھے۔ اسی طرح مونس الٰہی بھی ان چونتیس کروڑ روپوںکو قانونی قرار دلوا لیں جوانہوں نے مبینہ طور پراین آئی سی ایل سے کمائے تھے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پربھی اب عملدرآمد کی ضرورت نہیں جس میں لکھا ہے کہ مونس الٰہی اورمحسن وڑائچ کی برطانوی بیوی کے برطانوں بنکوں میں پڑے تیس لاکھ پائونڈ واپس لائے جائیںکیونکہ یہ رقم اب قانونی ہوگئی ہے۔اگر وہ دونوں مہربانی کریں اوریہ رقم پاکستان واپس لائیں تو ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ ہاں،یہ رقم اگربرطانوی بنکوں میں پڑی رہی تو پھریہ منی لانڈرنگ تصور ہوگی۔اگران تیس لاکھ پائونڈ کو پاکستان لاکرقانونی شکل دلوالی جائے توبعد میںقانونی طریقوں سے یہ رقم دوبارہ لندن کے بنکوں میں جمع کرائی جا سکتی ہے،کوئی نہیں پوچھے گااور سپریم کورٹ کے فیصلے کی لٹکتی تلوار بھی نہیں رہے گی۔ 
میرے دوست انجم عقیل خان کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی اب سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں رہ گئی کہ انہوں نے نیشنل پولیس فائونڈیشن کوچھ ارب روپے کا ٹیکہ لگایا تھا۔انجم عقیل کی لوٹی ہوئی رقم اب جائز قرار پاجائے گی اوران پر نیب کے ذریعے مقدمہ چلاناجائز نہیں رہے گا۔ ایک اور اراضی سکینڈل میں سپریم کورٹ مقدمے سے جان چھڑانے کے لیے سولہ ارب روپے ادا کرنے کی جو پیشکش کی گئی ہے وہ اب واپس لی جا سکتی ہے کیونکہ جو مال کمایاگیاوہ اب قانونی ہوچکا ہے اوراس رقم سے کوئی نیا کاروبار شروع کیاجاسکتا ہے۔
ان فوجی افسروںکے لیے بھی خوشخبری ہے جن پر این ایل سی میں چارارب روپے کمانے کا الزام ہے۔ان صاحبان نے این ایل سی کے دوارب روپے اڑائے اوربنکوں سے دوارب روپے کا کمرشل قرضہ لے کربھی مال کمایا۔اب اگر وہ چاہیں تونوازشریف کی شاہانہ پیشکش سے فائدہ اٹھا کریہ رقم کاروبار میں لگا سکتے ہیں۔فوجی فرٹیلائزر کے وہ اعلیٰ افسرجوبیوی بچوں 
کے ہمراہ برازیل میںجہازپربورڈ آف ڈائریکٹرزکا اجلاس منعقد کرنے گئے تھے اورجس پرٹی اے ڈی اے سمیت لاکھوں ڈالرزخرچ ہوئے، اس سکیم سے فائدہ اٹھا کر ناجائز طور پر کمایا ہوا مال کاروبارمیں لگا سکتے ہیں۔ 
میرے دوست یوسف رضا گیلانی بھی سوچ لیں، یہ موقع پھر نہیں آئے گا۔ان پرالزامات لگتے رہتے ہیں کہ ان کے دور میں ان کے عزیزوں نے مال کمایا تھا۔وہ بھی چاہیں تواس مال سے کاروبارکرلیں۔اگران کے برخوردار عبدالقادرگیلانی سمجھدار ہیں تو وہ بھی اپنی مرسیڈیزکار بیچ کر کاروبار شروع کر دیں جو انہوں نے حج سکینڈل کے بعد دوبئی سے منگوائی تھی اور جس کے بارے میںایف آئی اے والے پوچھ رہے ہیں کہ کیسے خریدی تھی۔ گیلانی صاحب کے جانشین وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پر بھی اپنے صوابدیدی فنڈ سے اپنے بھائی کوچالیس کروڑ روپے عنایت کرنے جیسے سنگین الزامات ہیں،وہ بھی اس پیشکش سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ 
اس حکم کے بعدنیب کے پاس حدیبیہ پیپرملزکیس کے حوالے سے اسحاق ڈار کے اس بیان حلفی کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی جس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کے حکم پرناجائز طریقے سے دولت ملک کے باہرمنتقل کی تھی۔ اب وہ ساری رقم قانونی طور پر واپس لائی جاسکتی ہے،کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی کہ یہ رقم کیسے کمائی۔ 
ہاں یاد آیا، اگرعزت مآب ڈاکٹر آصف علی زرداری (حیران نہ ہوں، عملی سیاست میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری انہیں پہلے ہی مل چکی ہے) سوئس اکائونٹس میں پڑے اپنے ساٹھ ملین ڈالرز واپس لا سکتے ہیں کیونکہ اب ان سے کوئی نہیں پوچھے گا کہ یہ ڈالر کہاں سے گئے اور کہاں سے واپس آئے۔اس معاملے میں مزے کی بات یہ ہے کہ جب ایک سوئس اخبار میں یہ خبر آئی تھی کہ وہاں کے مقامی حکام بینظیر بھٹو اورآصف زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات میں تحقیقات کر رہے ہیں تونواز شریف حکومت نے باقاعدہ طور پر اس کیس میں یہ کہہ کر پارٹی بننے کی درخواست دی تھی کہ یہ رقم پاکستان کی ہے جو لوٹ مارکے بعد منی لانڈرنگ کے ذریعے وہاں بھیجی گئی۔ سوئس حکام نے یہ درخواست قبول کرلی تھی۔یہ درخواست لکھنے والے اٹارنی جنرل سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈخلیل رمدے کے سگے بھائی تھے۔یہ مقدمہ لڑنے کے لیے تیس کروڑ روپے آئی بی کو دیے گئے اور اس کے حکام سے کہا گیاکہ وہ یہ رقم چپکے سے احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمن کودے دیں۔ سیف الرحمن نے یہ رقم انگریز جاسوس کمپنیوں اور مقدمہ لڑنے کے لیے وکلاء کی بھاری فیسوں پر خرچ کی۔ سوئس عدالت نے بینظیر بھٹو کو بلا کر ان پر کئی گھنٹے جرح کی۔ پاکستان میں ان ساٹھ ملین ڈالرز کے لیے بینظیر بھٹو کے ریڈ ورانٹ جاری کرنے والے اس وقت کے وزیرداخلہ آفتاب شیر پائو تھے۔یہ رقم بچانے کے لیے بینظیر بھٹو نے جنرل مشرف سے ڈیل کی، وطن لوٹ آئیں اورقتل کردی گئیں۔ ڈاکٹر زرداری نے انہی ساٹھ ملین ڈالرز کے لیے اپنے دشمن جج ملک قیوم کواپنی حکومت کا پہلا اٹارنی جنرل بنا لیا،یہ وہی جج تھے جنہوں نے انہیں اوران کی بیگم کو اسی کیس میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ان کی آڈیو ٹیپس الیکشن کے دنوں میں پیپلز پارٹی قوم کو سناتی رہی۔بعد میں اسی سابق جج سے ہی این ار آو کے تحت سوئس حکام کو خط لکھو ا کر مقدمہ ختم کرایا گیا ۔ 
ساٹھ ملین ڈالرواپس لانے کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں تین سال تک مقدمہ چلتا رہا اورنوبت یہاں تک پہنچی کہ لگتا تھا ملک رہے گا یا عدالت اور پارلیمنٹ۔اسی مقدمے میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی قربانی دی گئی۔ دوسرے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو توہین عدالت کا نوٹس ملامگر ججوں اور وکلاء کے مابین طویل مکالمے کے بعد سوئس حکام کو خط لکھ دیا گیا۔اب سوئس حکام کا کہنا ہے کہ وہ ساٹھ ملین ڈالرز کا یہ مقدمہ دوبارہ نہیں کھول سکتے۔ زرداری صاحب کامقدمہ لڑنے کے لیے وکیلوں کو سرکاری خزانے سے کروڑ روپے فیس دی گئی۔ حفظ ماتقدم کے طور پر زرداری صاحب نے وہ ساٹھ ملین ڈالرز سوئس بنک سے نکال کر کسی اور ملک میں منتقل کر دیے۔
لیکن اب نواز شریف کے حکم سے زرداری صاحب کے وہ ساٹھ ملین ڈالرز حلال ہوگئے ہیںاور ڈاکٹر زرداری اگر چاہیں تویہ رقم پاکستان لا کرقانونی طور پرکاروبار شروع کر سکتے ہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved