تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     02-12-2013

سوال ریٹائر نہیں ہوتے!

''نومبر2004ء کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی بطور ڈی جی آئی ایس آئی ، جنرل پرویز مشرف کے اہم ترین مشیروں میں سے تھے۔ جب کبھی مشاورت کی مجلس برپا ہوتی تو اس میں چودھری شجاعت حسین، شوکت عزیز ، طارق عزیز اور جنرل کیانی مستقل ارکان کے طور پر مدعو کیے جاتے جبکہ دیگر وزراء کو کم کم ہی رسائی ملتی ۔ اس مجلس میں جنرل کیانی کا معمول رہا کہ جیسے ہی انہیں کسی مسئلے پر اظہار خیال کے لیے کہا جاتا تو وہ اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر سگریٹ کا پیکٹ نکالتے اور اس میں ایک سگریٹ آدھا باہر نکال کر جنرل مشرف کی طرف بڑھا دیتے۔ کبھی جنرل مشرف پیکٹ سے باہر جھانکتا ہوا یہ سگریٹ لے لیتے اور کبھی منع کردیتے۔ اگر ان کا پیش کردہ سگریٹ جنرل مشرف کی انگلیوں میں منتقل ہوجاتا تو پھر اگلے مرحلے میں وہ لائٹر جلا کر پہلے جنرل مشرف کااور پھر اپنا سگریٹ سلگالیتے۔ اس کارروائی کے بعد وہ کوئی ایسا فقرہ کہتے جس سے بات کہیں اور نکل جاتی اور ان کا اظہار خیال ٹل جاتا۔ اگر کبھی جنرل مشرف براہ راست کوئی ایسا سوال داغ دیتے جس کے جواب سے گریز ممکن نہ ہوتا تو پھر جنرل کیانی جواب کے لیے مزید معلومات کے لیے کچھ وقت کی درخواست پیش کردیتے۔ اس طرح کوئی یہ نہ جان پایا کہ جنرل کیانی کسی مسئلے پر کیا سوچ رہے ہیں‘‘، ہمارے ملک کے ایک محترم سیاستدان نے یہ سب کچھ مجھے ساڑھے تین سال قبل اس وقت بتایا تھا جب جنرل کیانی کی سپہ سالاری کی ایک میعادکی توسیع کی باتیں ہورہی تھیں۔ ان سے میں نے پوچھا تھا کہ کیا جنرل صاحب توسیع قبول کرلیں گے یا نہیں تو انہوں نے جواب دینے کی بجائے مجھے ان کی خاموش طبعی کے محیرالعقول واقعات سناکر سمجھا دیا کہ اس بارے میں اگر کوئی شخص جانتا ہے تو وہ صرف جنرل کیانی ہے، لیکن ان سے تم کچھ اگلوا نہ سکو گے۔ 
جنرل کیانی نے اپنی خاموشی کو زرہ بکتر کی طرح استعمال کیا۔ سخت سے سخت سوال کے جواب میں بھی انہوں نے اتنا ہی کہا جتنا وہ کہنا چاہتے تھے۔ کوئی ذومعنی فقرہ ان سے منسوب ہوا نہ کوئی طنزیہ قہقہہ۔وہ گزشتہ نو سال سے ملک میں پیش آنے والے بے شمار اہم واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ایک طویل سفر کے بعد جب امین فہیم ایک کاغذ پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی تحریر کردہ شرائط لے کر جنرل مشرف سے ملے تو کس نے کیا کہا تھا اور آخر معاملات کیسے طے ہوئے تھے اور این آر او لکھنے کی ذمہ داری کسے دی گئی تھی۔ ان کے سامنے یہ واقعہ بھی پیش آیا کہ ملک کے چیف جسٹس کو بلا کر استعفٰی دینے کا 'حکم ‘ دیا گیا ۔ وہ تین نومبر 2007ء کے ان واقعات کے بھی شاہد ہیں جن کی پاداش میں جنرل پرویز مشرف کٹہرے میں کھڑے اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلے کے منتظر ہیں۔
جنرل مشرف کے بعد جنرل کیانی پاک امریکی تعلقات کے ایسے نقشہ ساز کے طور پر ابھرے جو اپنے قول کو عمل میں لا کر دکھا سکتا ہے۔امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کے سابق سربراہ ایڈمرل مائیک ملن کی حربی کامیابیاں تونجانے کیا ہیں لیکن ایک کامیابی جسے وہ بڑے فخر سے بیان کیا کرتے تھے ، وہ یہ تھی کہ ان کے تعلقات جنرل کیانی سے بڑے اچھے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ واشنگٹن کو پاکستان سے فوجی تعلقات بہتر بنانے کے لیے قائل کرنے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتے تھے۔ بے شک ان کی وکالت کا مقصد پاکستان کے مفادات کا تحفظ نہیں تھا بلکہ امریکی مفادات کی نگہبانی تھا۔ جب مائیک ملن ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچے تو انہوں نے امریکی سینیٹ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی جو تفصیلات بیان کیںوہ ان کی مایوسی اور شکست کا کھلا اعتراف ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی آئی ایس آئی پر متعین الزامات لگائے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مائیک ملن جو جنرل کیانی کو اپنے ڈھب پر لانا چاہتے تھے ،بڑی سادگی سے جنرل کیانی کی خاموش سفارتکاری سے مار کھا گئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کی فتح کا یہ معرکہ ہمارے سپہ سالار نے کیسے سر کیا، اس سے کوئی واقف نہیں۔ یہ ہمارا ایسا اعزاز ہے جس کی تفصیل اگر معلوم ہوجائے تو ہم کم ازکم امریکی بے وقوفیوں پر کھُل کر ہنس تو سکیں گے۔ 
جنرل کیانی کے عہدِ سالاری میں ہی ایبٹ آباد میں امریکیوں نے اسامہ بن لادن کو دریافت کرکے باقاعدہ فوجی کارروائی کے ذریعے ٹھکانے لگا دیا۔ اس واقعے سے ایک تو ہماری یہ کمزوری کھل گئی کہ فوجیوں سے لدے ہوئے غیر ملکی ہیلی کاپٹر پاکستان کے کسی شہر میںکارروائی کرکے بحفاظت واپس بھی نکل سکتے ہیں اور دوسرے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی فضا میں بھی ہماری ریاستی مشینری اتنی غیر ذمہ دارہے کہ عین اس کی ناک کے نیچے دنیا کا مطلوب ترین فرد اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہا ہے اور ہم اس کے بارے میں بے خبر ہیں۔ ایک عالمی طاقت اسے ہمارے گھر سے برآمد کرکے پوری دنیا میں ہماری رسوائی کا سامان کردیتی ہے اور ہم اب تک ان کرداروں سے ناواقف ہیں جن کی بے پروائی یا ملی بھگت سے یہ ڈرامہ ہماری سرزمین پر کھیلا گیا۔ اسی واقعے کی کوکھ سے جنم لینے والے میمو گیٹ سکینڈل نے حالات یہاں تک پہنچا دیے کہ جمہوریت کی بساط ایک بار پھر لپٹتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔میمو کے معاملے پر کمشن بنا، بیان ریکارڈ ہوئے ، جگ ہنسائی ہوئی، لیکن جنرل کیانی کے لب نہ کھلے اور اگر کھلے تو انتہائی نپی تلی بات کرکے وہ پھر اپنی خاموشی کی پناہ میں چلے گئے۔ میمو کی کہانی کا مصنف کون تھا او ر وہ یہ ڈرامہ کھیل کر کیا چاہتا تھا، ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن جنرل کیانی کہہ سکتے ہیں مگر وہ خاموش ہیں۔ 
2013ء کے الیکشن سے کچھ پہلے ڈاکٹر طاہرا لقادری پاکستان وارد ہوئے اور مینار پاکستان کے سائے تلے انہوں نے دستور کی وہ دفعات بھی برآمد کرلیں جو انہیں اس نظام کو تلپٹ کرنے کا حق دیتی تھیں۔ یکا یک ان کے معتقداتنے مہربان بھی ہوگئے کہ ان پر ہُن برسانے لگے، ان کی آگ بگولا تقریروں کی لپٹیں لاہور سے نکل کر اسلام آباد کے درودیوار چاٹنے لگیں اور ایک روز وہ اپنے کارواں کے ساتھ آدم بو، آدم بو کے نعرے لگاتے دارالحکومت کو اپنے قدموں تلے روندنے آگئے۔ خواتین اور بچوں کی آڑ لے کر اس مفتیٔ جہاں گشت نے پارلیمان کی عمارت پر قبضے کی باتیں شروع کردیں۔جب معاملہ آگے بڑھا توان کا مبلغ طنطنہ اتنا ہی نکلا کہ لاہور میں سیاسی راہنماؤں کی ایک پریس کانفرنس نہ جھیل سکا۔ آج تک یہ راز نہیں کھُلا کہ وہ کون لوگ تھے جو سوڈے کی اس بوتل میں نمک ڈال کر تماشا دیکھنا چاہتے تھے۔ بہت سے لوگ جو جنرل کیانی کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے معترف ہیں ، یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان لوگوں سے آگاہ ہیں جنہوں نے شیخ الاسلام کے ذریعے جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی یہ سازش تیار کی تھی۔ 
جنرل کیانی تاریخ کے یہ سب راز سینے میں لیے ریٹائر ہوگئے ہیں، لیکن تاریخ کے سوال ریٹائر نہیں ہوتے، یہ جواب کے انتظار میں سرِ راہ کھڑے رہتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved