تحریر : وصی شاہ تاریخ اشاعت     03-12-2013

ذرا ساتوٹھہر اے دِل

پچھلے دنوں خبر آئی کہ اکانومی کو قابو رکھنے والے ''شاندار‘‘ اور بے مثال صلاحیتوں کے مالک اسحق ڈار صاحب دل کے عارضہ کے باعث ہسپتال میں داخل رہے۔ ویسے موجودہ حکومت کے ابتدائی چند ماہ کی کارکردگی کے باعث اسحق ڈار صاحب نے ہسپتال پہنچنے میں کچھ وقت لگایا ورنہ عام آدمی تو پہلے مہینے سے ہی بجلی، گیس، پٹرول اور اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافے کے باعث دل تھام کر بیٹھا ہواہے۔ نہ قیمتیں اس کے قابو میں ہیں نہ دل کی بے ترتیب دھڑکنیں۔ بڑے میاں صاحب سے رشتے داری کا بھی یہ عین تقاضا تھا کہ اسحق ڈار صاحب اگر کسی بیماری میں مبتلا ہوں تو عارضہِ دل کا ہی انتخاب کریں۔ یہ دل کا عارضہ ہی تھا کہ بڑے میاں صاحب پچھلی گورنمنٹ کے دور میں ہر اہم موقع پر دل پہ ہاتھ رکھ کر علاج کی غرض سے بیرون ملک چلے جایا کرتے تھے۔ رہتے اب بھی زیادہ تر باہر ہی ہیں مگر اب دل تھام کر نہیں ''دل کھول کر‘‘۔
چھوٹے میاں صاحب خدا کے فضل وکرم سے دل کے مریض تو شاید نہیں ہیں مگر دل پھینک ضرور ہیں، یہ الگ بات کہ دل پھینکنے کا انجام آخر کار دل کے امراض کی صورت میں ہی سامنے آیا کرتا ہے ۔ اور زرداری صاحب تو جب دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے تھے تو قارئین کو یاد ہو گا کہ دلِ ناتواں نے اور میڈیا نے تب کیا کیا نہ شور ڈالا تھا۔خیر زرداری صاحب ہوں یا اسحق ڈار صاحب ، بڑے میاں صاحب ہوں یا چھوٹے میاں صاحب یا دیگر حکمران وسیاستدان، قوم کو بے شمار عارضوں میں مبتلا کرنے والوں کے لیے بھی دعا یہی ہے کہ خدا ان کے دلوں کو سلامت رکھے ۔کیا خبر،کب ان کے دل پھرجائیں۔۔۔ ان کے دل پھریں گے یابھریں گے، تبھی قوم کے دن پھرنے کی بھی کوئی امید پیدا ہو گی، ورنہ وہی ایک طرف مٹھی بھر اشرافیہ کے ڈاکے ہی ڈاکے اور دوسری طرف کروڑوں کے مقدر میں ناکے ہی ناکے ۔
قدرت نے انسانی سینے میں یہ دل نما ''گوشت کی سِل‘‘ بھی عجیب شے بنائی ہے جو بیک وقت کسی کے لیے موم سے زیادہ نرم ہوتا ہے تو اسی لمحے کسی دوسرے کے لیے پتھر سے زیادہ سخت۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسانی جسم میں جن اعضاء کی زیادہ اہمیت ہے دل ان میں نمایاں ہے، جب اوپر والا کسی سے خفا ہوتا ہے، ناراض ہوتا ہے تو اس کے دل پر ''مہر‘‘ لگا دیتا ہے، جب دل پر مُہر لگ جائے تو نہ کچھ سجھائی دیتا ہے نہ سنائی دیتا ہے نہ دکھائی دیتاہے۔ بینا ہوکربھی انسان نابینارہ جاتا ہے۔ اوروہی پروردگارجب کسی سے خوش ہو کراس کے دن پھیرنے پر آئے تواس کا دل پھیردیتا ہے، جیسا کہ اوپر لکھا کہ دل پھرجائے تو دن خود بخود پھرجایاکرتے ہیں۔دعا کرتے رہنا چاہیے کہ حکمرانوں کے دل پھرجائیں یادل بھرجائیں ورنہ پاکستان یونہی خوشیوں سے خالی رہے گا۔
دلوںکوپھیرنے کافائنل اختیارباری تعالیٰ نے ہمیشہ اپنے پاس رکھا تبھی تواللہ تعالیٰ کو ''مقلب القلوب‘‘ کہا جاتا ہے یعنی دلوں کو پھیرنے والا۔برگزیدہ ہستیاں بھی ہمیشہ ساری محنت انسانوں کے دلوںکوپھیرنے پرصرف کیاکرتی رہیں۔آج کی طرح صرف ''معیشت معیشت ‘‘ کا ورد کبھی کسی مدبر،عالم اورمذہبی راہنما نے انسانی تاریخ میں نہیں کیا،وہ خوب جانتے تھے کہ معیشت انسانوں کے لیے ہواکرتی ہے انسان معیشت کے لیے نہیں ہوا کرتے۔
میرے سرکارؐ نے فرمایا:''تمہارے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہے تو سب ٹھیک ہے اوروہ ہے دل‘‘۔
پھرایک اورجگہ آپؐ نے فرمایاجس کا مفہوم ہے:''جوبات شک میں ڈالے اُسے چھوڑدو‘‘۔
یہ شک اور یقین سب دل کے ہی مختلف گوشوں کے اسرار ہوا کرتے ہیں۔
بڑے بڑے بادشاہ جوکسی میدان میں کبھی نہ ہارتے تھے،دل کے ہاتھوںشکست کھاتے رہے اورجوسلطنتیں ذہن، تدبیر،اورطاقت کے بل بوتے پرفتح کرتے رہے،دل کے ہاتھوں مفتوح ہوتی رہیں۔
دل نے شاعری کو بھی بہت کچھ دیا ہے۔ اُردوشاعری کوتو بے بہا۔ شاعربے بدل غالب نے کہا:
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت دردسے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
اقبال نے کہا:
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
عشق بنیادی طور پر دل ہی کا نمائندہ ہے، تبھی تو آگ میں بے خطر کود پڑتاہے اور پار بھی ہو جاتا ہے:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشا ئے لبِ بام ابھی
دنیا کے بڑے بڑے کام جو عقل کی تدبیر سے نہیں ہو پاتے وہ عشق کے زور پر'' دل‘‘ کر جایا کرتا ہے، یہ عشق ہی ہے جو اویس قرنی کو حضرت اویس قرنیؓ بناتا ہے، ''313‘‘ کو اپنے سے تین گنا سے زیادہ پر فتح یاب کرتا ہے، ''72‘‘کو جام شہادت نوش کرنے کا حوصلہ دے کر ہمیشہ کے لیے زندۂ جاویدکر دیتا ہے۔ سوچنے والے ظلم کے ساتھ رہ جاتے ہیں اور دل والے ''حُر‘‘ بن کر امر ہو جایا کرتے ہیں۔
دل کا ذکر آئے تو اس شعر کے بغیر بات مکمل ہی نہیں ہو سکتی:
دل دریا سمندروں ڈونگھے
کون دلاں دیاں جانے ہو
بات شروع ہوئی تھی اسحق ڈار صاحب کے عارضہِ دل سے اور سمندروں کی گہرائیوں تک جا پہنچی تو ٹھیک ہی جا پہنچی کہ دل میں خواہشوں کے کیا کیا سمندر آباد نہیں ہوا کرتے ۔ دل کی دھڑکنیں رک جایا کرتی ہیں مگر خواہشوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر خشک ہونے ہی پہ نہیں آتے۔ ایسی ہی ایک نظم یاد آگئی کہ جب دل ساتھ چھوڑنے لگے تو کیا کیا نہیں یاد آرہا ہوتا۔ مگر یہ طے ہے کہ دلِ ناکردہ کار جب ساتھ چھوڑنے پہ آجائے تو انسان بہت سے ضروری کام ادھورے چھوڑجانے پر مجبور ہو جایا کرتا ہے۔ نظم کا عنوان تھا 
Heart Attack
ذراسا تو ٹھہر اے دل...!
ابھی کچھ کام باقی ہیں 
ابھی آنگن میں مجھ کوموتیے کے کچھ نئے پودے لگانے ہیں
ابھی اُن شوخ ہونٹوں کے کئی انداز ہیں جن کو 
مرے ہونٹوں پہ کُھلنا ہے 
ابھی اُس جسم نے مجھ سے 
بہت سی بات کرنی ہے 
ابھی اس د ل کے جانے کتنے ہی غم ایسے ہیں جن کو 
مجھے اپنے بدن میں رُوح میں بھرنا ہے 
اس کے ساتھ جانے کتنے رستے ہیں 
اِکٹھّے جن پہ چلنا ہے 
ابھی کچھ ایسے وعدے ہیں 
کہ جن کو پورا کرنے کا کئی برسوں سے لمحہ ہی میسر آ نہیں پایا 
ابھی وہ وقت آنا ہے 
ابھی وعدے نبھانے ہیں 
ابھی کچھ شعر ایسے ہیں کہ جو میں کہہ نہیں پایا 
اُنہیں تحریر کرنا ہے 
ابھی کچھ گیت ایسے ہیںکہ جن کی دُھن بنانی ہے 
ادھوری سی کسی تصویر کی تکمیل کرنا ہے 
کئی کاغذ ہیں وہ جن پر مرے سائن ضروری ہیں 
ابھی کچھ باتیں ایسی ہیں کہ جو برسوں سے 
میرے ذہن میں تھیں 
سوچ رکھا تھا، اسے اِک دِن بتائوں گا
بتانی ہیں 
ابھی کچھ قِصّے ایسے ہیں کہ جو اس کو سنانے ہیں 
کئی کوتاہیاں ایسی بھی ہیں جن پر ندامت ہے 
اُسے سب کچھ بتا کر
بوجھ اس دل کا گھٹانا ہے 
ابھی کچھ دیر پہلے بس ذرا سی دیر پہلے ہی
ذرا سی بات پر وہ مجھ سے رُوٹھا تھا 
ذرا ساتوٹھہر اے دِل 
ابھی اس کو مناناہے 
ابھی اس کو منانا ہے...

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved