تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-12-2013

مغرب اور اُردو کا مستقبل

میں لائبریری میں مشاعرہ پڑھنے کی خوشی میں باقی سب باتیں بھول گیا اور اولڈھم کے مشاعرے کو عام مشاعرہ قرار دے دیا۔اولڈھم کے مشاعرے میں ایک دو اورباتیں بھی ایسی تھیں جو اسے دیگر مشاعروں سے ممتاز بناتی ہیں۔پہلی یہ کہ اس کا اہتمام کرنے والوں میں ایک بالکل غیر روایتی ادبی فورم ''اولڈھم اردو ریڈرز گروپ ‘‘تھا۔ یہ اولڈھم کے خواتین و حضرات کا ایک ادبی فورم ہے جو گزشتہ دس سالوں سے اردو زبان و ادب کے فروغ اور نئی نسل میں اپنی زبان سے آگاہی کے لئے کوشاں ہے اور اولڈھم لائبریری میں ہر پندر دن بعد اجلاس کرتے ہیں۔دوسری خاص بات یہ تھی کہ برطانیہ میں ہونے والے مشاعروں کے برعکس اس میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی نمایاں تعداد موجود تھی۔یہ نوجوان سامعین اولڈھم اردو ریڈرز گروپ کے ممبران یا ممبران کے بچے تھے۔عمومی طور پر برطانیہ کے مشاعروں میں نئی نسل کی شرکت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
لائبریری کا کمیونٹی ہال صرف فل ہی نہیں تھا بلکہ کافی لوگ پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔اولڈھم اردو ریڈرز گروپ کو جب میری برطانیہ آمد کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے محدود وسائل میں انتہائی مختصر وقت میں اس مشاعرے کا اہتمام کیا۔ ہال کا کرایہ حلقہ ارباب ذوق برطانیہ نے دیا۔ریفریشمنٹ اردو ریڈرز فورم کے ممبران نے کروائی اور مجھے مفت مشاعرہ پڑھوانے کی ذمہ داری کاروان ادب برطانیہ کے روح ورواں صابر رضا نے اٹھائی۔حلقہ ارباب ذوق برطانیہ شاید برطانیہ بھر میں اردو زبان و ادب اور ثقافت کی ترویج کے لیے قائم ہونے والی سب سے پرانی تنظیم ہے۔آئندہ سال 2014ء میں اسے قائم ہوئے پورے ستر سال ہوجائیں گے۔1944ء میں حلقۂ ارباب ذوق کا قیام عمل میں آیا۔لیورپول میں بننے والی یہ تنظیم بڑی فعال ہے۔ ایک عرصے سے اس کے مدار المہام چودھری محمد انور ہیں جو یورپی یونین کی 
پارلیمنٹ کے پہلے مسلمان ممبر سجاد کریم کے چچا ہیں۔
مشاعرے سے پہلے مجھے خطاب کی دعوت دی گئی۔میں نے سب سے پہلے تو سامعین میں نئی نسل کے نمائندوں کی موجودگی پر اولڈھم اردو ریڈرز گروپ کو مبارک دی کہ اردو زبان سے محبت کو انہوں نے اگلی نسل میں منتقل کیا ہے جس کی وجہ سے آج یہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نظر آرہی ہیں۔میں نے کہا کہ آپ لوگوں کے بزرگوں کے پاس کبھی سبز پاسپورٹ ہوتا تھا آپ کے پاس آج سرخ برطانوی پاسپورٹ ہے۔سبز پاسپورٹ آپ لوگوں نے اپنی آسانی کے لیے رکھا ہوا ہے۔ پاکستان جاتے ہوئے آپ سبز پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں تاکہ ویزے کے جھنجھٹ سے جان چھوٹے اور آتے ہوئے آپ سبزپاسپورٹ بیگ میں ڈال لیتے ہیں اور سرخ پاسپورٹ ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں تاکہ برطانیہ میں داخلہ مزے سے ہوجائے۔ سبز پاسپورٹ سے آپ کا رشتہ محض سہولت کا رشتہ ہے۔جیسے جیسے پاکستان سے داماد یا بہو لانے کا سلسلہ کم ہوتا جائے گا اگلی نسل کا پاکستان سے تعلق ختم ہوتا جائے گا۔ مزید دو نسلوں کے بعد آپ کی اولاد کے پاس پاکستان جانے کا یہ بہانہ بھی ختم ہوجائے گا کہ وہاں ان کے والدین کی قبریں ہیں۔ اب پاکستان میں وہی دفن ہوتا ہے جو وہاں وفات پاتا ہے وگرنہ اب یہاں مرنے والوں کی قبریں یہیں بن رہی ہیں۔آپ کی آئندہ نسلوں کا تعلق اگر پاکستان سے رہا تو صرف اور صرف اپنی زبان کی وجہ سے ہی باقی رہے گا وگرنہ اور کوئی ایسی ڈور نہیں ہوگی جس میں ہم اور آپ بندھے ہوں۔پاکستان سے جُڑے رہنے کے لیے اردو ہی آخری رشتہ ہوگا۔اسے بچانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اولڈھم 
اردو ریڈرز گروپ اپنی یہ ذمہ داری پوری کررہا ہے مگر صرف یہ گروپ کافی نہیں۔تمام والدین کو اپنی اس اہم ذمہ داری کو پوری لگن اور جذبے سے پورا کرنا ہوگا۔ آپ اپنے بچوں کو صرف اردو سکھانے کا فریضہ سرانجام دیں۔ انگریزی تو اس نے ہر حال میں سیکھ ہی لینی ہے۔آپ کے بچے قرآن مجید پڑھ لیتے ہیں مگر اردو لکھ پڑھ نہیں سکتے۔ قرآن مجید کو پڑھ لینے کی برکت سے وہ اردو رسم الخط بھی جلد سیکھ سکتے ہیں۔پہلے رسم الخط چھوٹتا ہے اور پھر زبان اجنبی ہوجاتی ہے۔آپ لوگ غنیمت ہیں کہ آپ لفظ ''ریڈرز‘‘ کے حوالے سے مجھے اس خوش کن تصور سے سرشار کررہے ہیں کہ آپ لوگ اردو '' پڑھ‘‘ سکتے ہیں۔خدا کرے کہ میرا گمان سچ ہو۔
برطانیہ، امریکہ اور یورپ وغیرہ میں رہنے والے پاکستانیوں کو اپنی ذمہ داریاں پوری کئے بغیر خوش گمانی ہے کہ دیارغیر میں اردو کا مستقبل محفوظ ہے۔ برسوں پرانی بات ہے میں مشاعرے کے سلسلے میں اوسلو ناروے گیا۔برطانیہ سے بخش لائلپوری مرحوم اور اعجاز احمد آئے ہوئے تھے۔ مشاعرے کا اہتمام پاکستانیوں کی ایک تنظیم نے کیا تھا۔ شام کو ہم اوسلو کے ایک مقامی سیاستدان دوست کے گھر میں کھانے پر مدعو تھے۔ وہاں ناروے میں اردو کے مستقبل پر بحث چھڑ گئی۔ناروے والے دوست کا کہنا تھا کہ یہاں اردو کا مستقبل بہت محفوظ ہے۔اگلی کئی نسلوں تک اردو کے معدوم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔یورپ کے ایک اور ملک سے آنے والے اردو اور پنجابی کے شاعر کا کہنا بھی یہی تھا کہ یہاں اردو کو مستقبل قریب میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔اس دوران یورپ کے اس شاعر کے ساتھ آیا ہوا بیٹا کانوں میں ہیڈ فون ٹھونسے اپنے واک مین پر انگریزی گانے سنتا رہا۔ پچھلے تین دن سے وہ یہی کچھ کررہا تھا۔ مشاعرے کے دوران بھی وہ مسلسل انگریزی گانے سنتا رہا۔ ہم نے اسے اپنے باپ سے صرف اور صرف انگریزی میں بات کرتے سنا تھا۔ اس کا باپ اس سے پنجابی میں بات کرتا تھا مگر جواباً وہ انگریزی بولتا تھا۔ وہ صرف پنجابی سمجھتا تھا مگر بول نہیں سکتا تھا۔ ابھی بحث جاری تھی کہ اندر سے چھ سات سال کی عمر کے دو بچے لڑتے ہوئے آئے۔ دونوں ایک نامانوس زبان میں ایک دوسرے سے لڑرہے تھے۔ بچے نارویجین زبان میں لڑرہے تھے۔ دونوں بچوں نے اپنا مقدمہ باپ کے سامنے پیش کیا۔سارا مقدمہ نارویجین زبان میں تھا۔ باپ نے دونوں کی بات سنی۔ پھر نارویجین میں ایک کو ڈانٹا اور دوسرے کو تسلی دی اور اندر بھیج دیا۔
بحث دوبارہ وہیں سے شروع ہوئی جہاں ختم ہوئی تھی۔میں اب کسی بحث میں نہ تو حصہ لینا چاہتا تھا اور نہ ہی اس ناروے والے دوست اور یورپی شاعر کی کوئی مزید لاف گزاف سننے کے موڈ میں تھا۔ میں نے کہا جناب آپ براہ کرم اس بحث پر لعنت بھیجیں ۔مجھے مزید کوئی دلیل یا کہانی نہیں سننی۔ اردو کا مستقبل میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔شاعر صاحب کا بیٹا پچھلے تین دن سے مسلسل انگریزی بول رہا ہے اور کانوں میں لگی ہوئی ''ٹوٹیوں‘‘ سے انگریزی گانے سن رہا ہے۔میزبان کے بچے نارویجین زبان میں لڑتے ہیں اور باپ انہیں نارویجین میں سمجھاتا ہے۔یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور ان کی زبان ہی اردو کا مستقبل واضح کررہی ہے۔ لڑنا ایک غیر ارادی اور اضطراری عمل ہے۔اس میں آپ اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے وہ زبان استعمال کرتے ہیں جس میں آپ کو بہتر دسترس ہوتی ہے اور جو آپ کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔اگر آپ کا بیٹا،میں نے شاعر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،آپ کے کسی پنجابی یا اردو شعر کی تشریح کردے اور میرے میزبان کے بچے اردو میں گنتی سنادیں میں اپنا الزام بلکہ دعویٰ واپس لے لوں گا۔کمرے میں مکمل خاموشی چھاگئی۔
پاکستان سے مغرب میں نقل مکانی کرجانے والوں کی دوسری اور تیسری نسل آہستہ آہستہ اردو سے فارغ ہوتی جارہی ہے۔پاکستان میں انگریزی زبان کے کمپلیکس میں مبتلا مڈل کلاس کے لوگ جب مغرب میں جاتے ہیں تو اس کمبخت انگریزی کا کمپلیکس اپنے ہمراہ لے کر جاتے ہیں اور بچوں سے وہاں انگریزی میں بات کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔انگریزی سکولوں میں پڑھنے والے ،انگریزی معاشرے میں پروان چڑھنے والے اور انگریزی کارٹون دیکھنے والے بچوں کو گھر میں انگریزی سکھانے کی کوشش کرنا ویسے ہی ہے کہ جیسے مچھلی کے بچے کو تیرنا سکھایا جائے۔ اردو دیارغیر میں رہنے والوں کی پاکستان سے بندھی ہوئی آخری ڈور ہے ۔اسے کاٹنایا سلامت رکھنا بچوں کی نہیں بچوں کے والدین کی ذمہ داری ہے ۔کیا والدین یہ ذمہ داری پوری کررہے ہیں؟رات اپنے آپ سے یہ سوال کیجیے گا۔اگر جواب نہ میں ہو تو صبح سے اس غلطی کی اصلاح شروع کرنا ہی اس کا واح حل اور علاج ہے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ یہ کام بعد میں کرسکتے ہیں تو خام خیالی نہیں حماقت ہے۔آپ کے پاس صرف آج کی رات اور کل کی صبح ہے۔ اگر اب نہیں تو کبھی نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved