میرا بیٹا ایک خطرناک اور تکلیف دہ مرض میں مبتلا ہے۔ میں Sindh Institute of Urology & Transplantation(SIUT)یعنی ادارۂ امراضِ گردہ وانتقالِ گردہ میں گیا،وہاں ڈاکٹر نجیب نعمت اللہ سے ملاقات اور طبی مشورہ لینا تھا۔وہاں ڈاکٹر الطاف ہاشمی اور ڈاکٹر نسیم خان سے بھی ملاقات ہوئی،انہوں نے کہا کہ ہم آپ کواس ادارے کے سربراہ عالمی شہرت یافتہ سرجن ڈاکٹر ادیب رضوی سے ملوانا چاہتے ہیں ۔ڈاکٹر ادیب رضوی بلاشبہ ایک لیجنڈاور آئیڈیل شخصیت ہیں۔ وہ یقیناً ایک انسانیت نوازشخص ہیں۔ ان کی دیانت، امانت ، پیشہ وارانہ مہارت اور دکھی انسانیت کے درد کا درماں کرنے کے جذبے سے متاثر ہوکر ہی کئی اہلِ ثروت نے SIUTکے لئے مختلف عمارات بنا کر وقف کیں ، طبی آلات فراہم کئے، مفت دوائیں فراہم کیں اور ہسپتال کے جملہ مصارف کی کفالت کررہے ہیں ۔ مجھے بتایا گیا کہ ڈاکٹر ادیب رضوی اپنی ٹیم کے ساتھ SIUTمیں روزانہ تقریباً بارہ سوبیرونی مریضوں (Out Door Patients) کا معائنہ کرتے ہیں۔ میں نے ان کی ساری ٹیم کوانتہائی مخلص،ہمدرداورمقصد کی لگن سے سرشار پایا،ظاہر ہے کہ ماتحت عملے میں یہ خوبی ادارے کے سربراہ کے عملی نمونے سے پیدا ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ادیب رضو ی نے بتایا کہ SIUTکے تحت تمام سہولتوں سے آراستہ ایک ہاسپیٹل سکھر میں بھی قائم کیاگیا ہے۔انہوں نے بتایا،ان کی خواہش ہے کہ پورے پاکستان میں ایسے ہاسپیٹل قائم ہوں۔میری تمنا ہے کہ ہر شہری کے لیے علاج مفت ہو۔لوگ میری اس تمنا کو مجذوب کی بَڑاوردیوانے کا خواب سمجھتے ہیں، بلاشبہ ایسے خواب دیکھنا بجائے خودایک سعادت ہے اورفرزانوں کے دیس میں اس طرح کی باتیں کرنے والے کو لوگ دیوانہ نہیں سمجھیں گے تواورکیا سمجھیں گے؟جہاں سیم وزر،درہم ودیناراوردولت کی پرستش ہونے لگے،دل جس میں اﷲتعالیٰ اور اس کے حبیبِ مکرم ﷺ کی محبت کی شمعِ فروزاں ہونی چاہئے، وہاںحرص وہوس ڈیرے ڈال دیں توان کے نزدیک دکھی انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے اپنی کمائی ہوئی دولت کو لُٹا دینا یا اپنی فنی مہارت بلا معاوضہ فراہم کرنا اور اپنے آپ کو تکلیف میں مبتلا کرکے دوسروں کو راحت پہنچانادیوانگی نہیں تواورکیا ہے؟
مجھے ڈاکٹرادیب رضو ی صاحب نے بتایا کہ وہ بدھ کی رات کو ٹرین سے سفر کرکے سکھر جاتے ہیںاورجمعرات کی صبح ریلوے اسٹیشن سے نکل کر سیدھے ہاسپیٹل جاتے ہی اپنے کام میں جُت جاتے ہیں اور بلا تمیزِمذہب ومسلک تقریباً بارہ تیرہ سو مریضوں کو اپنی ٹیم کے ہمراہ دیکھتے ہیں جو سندھ اور جنوبی پنجاب کے دوردرازعلاقوں سے آتے ہیں، نہ صرف ان کے مرض کی تشخیص کرتے ہیں بلکہ دوا اور علاج کا بھی انتظام کرتے ہیں، پھرشبِ جمعہ ٹرین کے ذریعے سکھر سے کراچی کا سفر کرکے جمعتہ المبارک کی صبح SIUTکراچی میں اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر اپنے کا م میں جُت جاتے ہیں،نہ کسی سے صلے کی تمنا اور نہ کسی ستائش کی خواہش،بس وہ تو اپنے حصے کاکام کیے جارہے ہیں ۔
لیکن میں اُس وقت سے اب تک سوچ رہا ہوں اور یہ خیال میرے ذہن سے نکل نہیں پاتا کہ ایک ایسا ملک جہاں کئی سرمایہ داروں کے ذاتی جہاز ہیں،جب چاہیں جہاں چاہیں اڑکر پہنچ جائیں، وزرائے اعلیٰ اور مختلف سول اوردفاعی اداروں کے سربراہان کے لیے ہیلی کاپٹرہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔اِن سرمایہ داروں کا سرمایہ پاکستان کی سرزمین اور پاکستانیوں کے خون پسینے سے کشید ہوتاہے، سول اوردفاعی اداروں کے بہت سے سربراہان اورسیاست دانوںکو یہ سہولتیں عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہیں، ڈاکٹر ادیب رضوی سندھ کے حکمرانوں اورسیاستدانوں کے ووٹروںکی توخدمت کررہے ہوتے ہیں، کیا ممکن نہیں کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ یا کوئی اور دردِ دل رکھنے والا ہرجمعرات کو سکھر آنے جانے کے لیے ڈاکٹرادیب رضوی کو اپنا ہیلی کاپٹر فراہم کردے۔ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے: ''پھرا س کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے، سو وہ پتھروں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت ہیں،بعض پتھروں سے دریا پھوٹ پڑتے ہیں اور بے شک بعض پتھر پھٹتے ہیں توان سے پانی نکل آتاہے اور بے شک بعض پتھر اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں‘‘ (البقرہ:74)۔کیا وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ادیب رضوی کو جمعرات کے دن سکھرآنے جانے کے لیے اپنا ہیلی کاپٹر فراہم کردیں گے ؟یاخوش حال طبقات میں سے کوئی ایک بھی اپنے سینے میں ایسا دل نہیں رکھتا جو دکھی انسانیت کے لیے پسیج جائے؟
حدیث قدسی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تو بھوکے انسان کی بھوک کو،لباس سے محروم انسان کی ضرورت لباس اور بیمار انسان کی عیادت کو اپنی ذات کی طرف منسوب کیا،ارشادِ رسولﷺہے:''اللہ عزوجل فرماتاہے:اے بنی آدم! میں بیمارہوا، تو تو نے میری عیادت نہ کی اور میں پیاسا ہوا تو تو نے مجھے پانی نہ پلایا، (رسول اللہﷺ فرماتے ہیں) میں نے عرض کی اے میرے پروردگار! کیا تو بھی بیمار ہوتاہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: زمین پر میرا کوئی بندہ بیمار ہوتاہے اور اس کی عیادت نہیں کی جاتی،اگروہ (یعنی بنی آدم میں سے کوئی) اس کی عیادت کرتا، تووہ(درحقیقت) میری ہی عیادت کرتا۔اور زمین پرکوئی میرا بندہ پیاسا ہوتاہے اوراسے پانی نہیں پلایا جاتا،اگر اسے پانی پلا دیا جاتا،تووہ (درحقیقت) مجھے ہی پلانا ہے۔‘‘ (مسنداحمد:9242)اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے:''پس وہ دشوار گھاٹی میں سے کیوں نہیں گزرا اور تو کیا جانے کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟وہ(قرض یا غلامی کے پھندے سے کسی کی)گردن چھڑانا یا بھوک کے دن کسی قرابت دار یتیم یا خاک افتادہ مسکین کو کھانا کھلانا ہے‘‘ (البلد:11-14)۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:''(کسی قرابت داری یا خصوصی تعلق سے قطع نظر) ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پرپانچ (عمومی) حقوق ہیں:کوئی مسلمان بھائی سلام کرے تواس کا جواب دے اوربیمار ہوجائے تواس کی عیادت کرے، اس کا انتقال ہوجائے توجنازے میں شریک ہو،وہ دعوت دے تواسے قبول کرے اور چھینک آنے پر وہ ''الحمد ﷲ‘‘ کہے تو یہ جواب میں '' یرحمک اﷲ ‘‘کہے‘‘۔(صحیح بخاری:1240)
مریض کی عیادت یا بیمار پرسی یا تیمارداری سے مرادصرف یہی نہیںکہ اس کا حال پوچھ لیا بلکہ اس کی روح اور حقیقت یہ ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اس کے مرض کے علاج،درد کے درماں اوردکھ کے ازالے کے لیے کوئی تدبیر بھی کرے۔نہایت افسوس کی بات ہے، ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیاصفحۂ قرطاس اور ٹیلی ویژن اسکرین کی رونقوں،آب وتاب اورچمک دمک میں اضافے کے لیے رقص وغنااورلہوولعب کے مناظرکوانتہائی پُرکشش بناکرنوخیز نسل کی نظروں کے سامنے پیش کرتاہے اورپھرایسے ہی طبقات کے افراد کو اسٹار، سپر اسٹار اور ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتاہے اور اِس کے نتیجے میں نئی نسل کے ذہنوں میں یہی قدریں اور یہی نَقش ثبت ہوجاتے ہیں۔نتیجے میں خواہشات اور بدکاری کو فروغ ملتا ہے۔اذہان گناہ کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔کاش کہ ہمارے معاشرے میں فکری رجحانات کے وسائل رکھنے والے کبھی تقویٰ،کردار،امانت ودیانت، صداقت وشَجاعت، عِفّت وسَخاوت اور خدمتِ انسانیت کو بھی تکریم کا درجہ دیں اوران صفات کے حامل افراد وشخصیات کی تکریم اور احترام کاجذبہ ہماری نئی نسل کے ذہنوں میں بٹھائیںکیونکہ انسانیت سے محبت کرنے والے، دکھی انسانوں کو راحت پہنچانے والے ، دردکا مداوا کرنے والے اور مصیبت زدوں کو مصیبت سے نجات دلانے والے کم یاب ہیں اور اگر معاشرے میں بے توقیری کا یہی رجحان رہا تو خدشہ ہے کہ نایاب ہوجائیں گے۔