تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     03-12-2013

یہ طوق غلامی مہنگا ہے

اسٹیٹ بینک کے ذرائع اور میڈیا رپورٹس کے مطا بق مرکزی بینک کے پاس صرف ساڑھے تین ارب ڈالر کا زرمبادلہ رہ گیا ہے جو بھارت کے کسی ایک بڑے صنعت کار کے ذخائر سے بھی کم ہے۔ 24 دسمبر2012 ء کو ''پاکستان کی سیر‘‘ کے زیرعنوان روزنامہ 'دنیا‘ میں شائع ہونے والے کالم میں راقم الحروف نے خبردار کیا تھا کہ ''چند ماہ بعد امریکی ڈالر110 روپے سے بھی اوپر پہنچ جائے گا‘‘۔اس وقت ڈالر96روپے کے قریب تھا اور آج اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 110 روپے ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دورحکومت میں وزیر خزانہ جناب اسحٰق ڈارشدومد سے الزام لگایا کرتے تھے کہ حکومت روزانہ تین سے چارارب روپے قرض لے رہی ہے، لیکن آج جب ان کی اپنی حکومت ہے تو وہ خود 9 ارب روپے روزانہ قرض لے رہے ہیں۔ 30جون تک صرف مرکزی حکومت کا قرضہ 14کھرب روپے تھا جو آج15کھرب روپے ہو چکا ہے۔اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ کمرشل بینکوں نے اپنا آپ بچانے کے لیے حکومت کو دیے گئے قرضوںکو ری شیڈول کرنے سے معذرت کر لی ہے۔13نومبرکوجاری ہونے والی رپورٹ کے مطا بق ہمارے قلیل زر مبادلہ سے ایک ارب ڈالر مزید کم ہو گئے ہیں۔آج یہ لکھتے ہوئے خوف محسوس ہورہا ہے کہ 2007ء میں بیرونی قرضوں کا بوجھ 35 ارب ڈالر تھا‘2015ء تک 85ارب ڈالر اور اندرونی قرضہ 20 کھرب ڈالرکی بھیانک حد تک پہنچ جائے گا۔اس کے بعد ہمارے پاس ان کی ادائیگی کے لیے بیچنے کوبھی شاید کچھ نہ رہے۔ 
سان فرانسسکو میں قائم '' رین فارسٹ ایکشن نیٹ ورک‘‘ نامی تنظیم کی طرف سے15 نومبر1990ء کو نیو یارک ٹائمز میں پورے صفحے کا شتہار شائع کرایا گیا جس میں اس تنظیم نے عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے قرضوں کی سیا ست کو بے نقاب کرتے ہوئے تیسری دنیا کے لوگوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو تباہی سے بچانے کے لیے ان دونوں اداروں کے قرضوں سے دور رہیں‘ اس لیے کہ آئی ایم ایف کے حکام کسی بھی غریب ملک کو قرضہ دینے سے قبل مطالبات کی ایک فہرست پیش کرتے ہیں جس میں ملازمین کی تعدادمیں کمی(گولڈن شیک ہینڈ)،کرنسی کی قدرکم کرنا اورمعیشت پر مقامی کنٹرول کاخاتمہ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ یہ مالیاتی ادارے تیسری دنیاکی مدد کرنے کے بجائے انہیں تباہ کن اور فنڈزضائع کرنے والے منصوبے شروع کرنے کی جانب مائل کر تے ہیں۔ پاکستانی بیورو کریسی بطورخاص ان کی بھر پور مددکر تی ہے جس کے بدلے وہ خود اوران کا خاندان عمر بھر عیش کرتاہے۔ اس روش کا نتیجہ یہ نکلا کہ مالیاتی اداروں کا اصل زر تو دور کی بات ہے، قرضوں پر سود ادا کرنے کے لیے بھی ملکی وسائل کی فروخت اورشہریوں کا استحصال شروع ہوگیا اورآہستہ آہستہ
ملک غلامی کی دلدل میں اُترنے لگا۔ مالیاتی اداروں کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ غریبوں کی سہولتیں کم ہوناشروع ہو گئیں،نچلا متوسط طبقہ اورمحنت کش جو پہلے ہی کم تنخواہوں کے باعث مشکلات کاشکار تھے، فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے۔ اس کے برعکس امیر اس قدر امیر ہونے لگے کہ ان کی دولت آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی۔''رین فارسٹ ایکشن نیٹ ورک‘‘نے اپنے مذکورہ اشتہار میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے خواہشمند تیسری دنیا کے ممالک سے اپیل کی تھی کہ ہم آپ کی مد د کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن آپ کویہ فیصلہ ضرور کر نا ہو گا کہ آپ کو اپنے ملک کی بقا اور اس کے کروڑوں غریب عوام کی بہبود کی فکر ہے یا چند لاکھ دولتمندوں کی ۔
عالمی مالیاتی ادارے نصف صدی سے پاکستان کی 'مدد‘ کر رہے ہیں اور سب دیکھ رہے ہیں کہ ان کی طرف سے کی جانے والی اس مدد نے کس طرح ملک کی اقتصادی صورت حال کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کرتے ہیں مگر یہ سفید جھوٹ ہے،وہ غریبوں کی نہیں بلکہ اپنی بنائی گئی پالیسیوں کے ذریعے غریب عوام کے بدن سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑکر خود غرض حکمرانوں اوردولتمندوں کی مدد کرتے ہیں۔ میںکھل کر لکھ ر ہا ہوں کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ انہی مالیاتی اداروں نے پاکستان دشمن طاقتوںاور ملک میں موجو د ان کے ایجنٹوں کے ذریعے ختم کرایا ہے ۔ 
یاد رکھئے،اپنی تقدیر کے فیصلے دوسروں کے سپرد کرنے والی قوم ایک آزاد اور با وقار قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے۔ سب سے پہلے حق خود ارادیت اس کے ہاتھ سے چھنتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ قوم دین کی رہتی ہے نہ دنیا کی۔ پاکستان بننے کے چند سال بعد ہم نے عالمی بینک کے آگے ہاتھ پھیلایا،پھر یہ سلسلہ ایسا چلا کہ رکنے میں نہیںآیا۔ہم نے خود کچھ کرکے کمانے کے بجائے مانگے تانگے کے پیسوں سے تعمیر کیے گئے محلات میں جشن منانے شروع کرد یے، کبھی بھی ادا نہ ہونے والے قرضوں سے لمبی لمبی سڑکیں اور پل بنا کر اکڑنے لگے،لیکن قدرت کے قوانین اٹل ہوتے ہیں، انسانی خواہشات ان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں عموماًاندلس سے مسلمانوں کے انخلا کی مثالیں دی جاتی ہیں، بھلا اتنا دور جانے کی کیا ضرورت ہے، بر صغیر میں مغلیہ سلطنت کے زوال پر ہی نظر ڈال لی جائے تو عبرت حاصل کرنے کے لیے کافی ہے ۔۔۔مغلیہ خاندان کے شہزادے، ایک ہی باپ کی کئی کئی بیویوں کے بیٹے، تاج و تخت کی خاطر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے۔ جاہ و جلال پر مبنی اقتدار کی خاطر محلاتی سازشیں ہوتیںاورجوتوجہ دشمن کی سرگرمیوں کی طرف مرکوز ہونی چاہیے تھی وہ ایک دوسرے کا تخت و تاج چھیننے پرصرف ہوجاتی۔ایسٹ انڈیا کمپنی ان شہزادوں کو راگ ور نگ کی محفلیں اور محلات سجانے کے لیے مالی امداد سے نوازتی اور آخرکارانگریزان کے تخت پر قابض ہوگیا۔
آج حالت یہ ہو چکی ہے کہ پاکستانی اپنی زمین کی پیداوار کے بھی مالک نہیں رہے، پانی جو ہماری زمین کی امانت ہے، ہمیں دودھ کے بھائو مل رہا ہے۔ گیس ہماری زمین کی پیداوار ہے لیکن اس کے نرخ وہ ساہوکار مقرر کر رہے ہیں جن کے دیے ہوئے قرضے ہمارا حکمران طبقہ اپنے اقتدار کے استحکام اورعیش و عشرت پر خرچ کرتا ہے۔کتنی شرمناک بات ہے کہ ہمارے حکمران عالمی ساہوکاروں کے قدموں میں گرگئے اور اپنے آپ کواتنامجبور اور بے بس کرلیا کہ اندرونی اور بیرونی ساہو کاروں کی مرضی کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے۔ ستم یہ ہے کہ حکمرانوں کی لغزشوں اورعیا شیوں کی قیمت ملک کے عوام ادا کر رہے ہیں۔ بجلی ہر ماہ اتنی مہنگی کی جا رہی ہے کہ اس کی لپک سے غریبوں کے آشیانے جلنا شروع ہوگئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved