تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     04-12-2013

سول حکومت کی بالا دستی

نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تقرری کے حوالے سے ہونے والے بحث و مباحثے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ کوئی معمولی معاملہ نہیںہے۔ نئے آرمی چیف کے لیے نام کا اعلان اور ان کے عہدہ سنبھالنے کا واقعہ ایک ''بریکنگ نیوز‘‘ بن گیا اور اس پر ماہرین کی طویل گفتگو سننے کو ملی۔ گزشتہ دنوں ہونے والے مباحثے کے پروگرام بھی‘ جن میں عام طور پر سیاسی موضوعات زیر ِ بحث لائے جاتے ہیں، اس موضوع کا احاطہ کرتے دکھائی دیے۔ سیاسی رہنمائوں نے اپنی آراء پیش کیں تو صحافی حضرات اپنے موقف کے ساتھ سامنے آئے۔ آرمی چیف کی تقرری کومیڈیا میں اس طرح زیر ِ بحث لانا مستحسن نہیں سمجھا جاتا۔ جمہوری ریاستوں میں ایسی تقرریاں معمول کی کارروائیاں سمجھی جاتی ہیں۔ عوام کے ذہنوں میں اس پر غیر ضروری تجسس ابھارنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ ماہرین اور صحافی اس موضوع کو صرف اُسی صورت میں کریدتے ہیں جب اُنہیں کی جانے والی تقرری میں کوئی حقیقی سقم دکھائی اور یہ محسوس ہو کہ درست شخص کا انتخاب نہیں کیا گیا۔ گویا تنازع کے علاوہ، یہ موضوع اس قدر وسیع خبر نہیں بنتا جتنا گزشتہ دنوں پاکستان میں بنا دیا گیا۔ 
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پاکستان میں آرمی چیف کی تقرری اتنا دلچسپ ، بلکہ ہنگامہ خیز موضوع کیوں ہے؟اس کا جواب بہت سادہ ہے۔۔۔ پاکستان میں روایتی طور پر آرمی چیف کا کردار صرف سکیورٹی کے معاملات تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ وہ سیاسی معاملات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ بات فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ چار چیفس آف آرمی سٹاف نے منتخب حکومتوں کا تختہ الٹ دیا، آئین معطل کردیا اور عملی طور پر ایسے بادشاہ بن گئے جنھوں نے یونیفارم پہنا ہوا تھا۔یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کسی زمانے میں ہمارے ملک میں ''انتخابات‘‘ کی طرح ہی اہم ہوتی تھی اور ملک کی قسمت کا دارومدار بہت حد تک فوجی سربراہ پر ہوتا تھا۔
تاہم یہ ماضی تھا، آج پاکستان تبدیل ہوچکا ہے۔ آج امید کی جانی چاہیے کہ شب خون قصہ ٔ پارینہ بن چکے ہیں لیکن پاکستان میں آرمی چیف کی تقرری ایک اہم موضو ع ہے کیونکہ جمہوریت کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے پاکستان کے سامنے دفاعی اداروں پر سول حکومت کی بالا دستی کا سوال اپنی جگہ پر موجود ہے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد سے پاکستان میں جمہوری تبدیلی کا مرحلہ کامیابی سے طے ہوا۔ اس کے بعد سے پاکستان چار تبدیلیوں سے گزر چکا ہے اور یہ عمل ہنوز جاری ہے۔ اس حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ اہم سیاسی جماعتوں میں اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ ملک کے لیے جمہوری عمل کا تسلسل ناگزیر ہے اور اس میںکوئی رخنہ نہیں پڑنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اہم سیاسی جماعتوںنے باہم اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی حکومت گرانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ سیاست دانوں کو ایک بات کی سمجھ آچکی ہے کہ جمہوری عمل میں کسی بھی حکومت کا آئینی مدت کا پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے۔۔۔ تاہم یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔
اگرچہ سابق آرمی چیف جنرل کیانی نے جمہوری عمل میں براہ ِ راست مداخلت سے گریز کی پالیسی اپنائی تھی لیکن بری خبر یہ ہے کہ خارجہ پالیسی اور سکیورٹی کے لیے بنائی جانے والی حکمتِ عملی میں حکومت کی رائے کو بلڈوز کرتے ہوئے امریکہ ، بھارت، فاٹا ، افغانستان، اور بلوچستان کے حوالے سے اپنی متوازی پالیسی پر عمل کیا گیا۔ درست ہے کہ اُنھوںنے اُس وقت کی جمہوری حکومت کے ساتھ مشاورت کی لیکن یہ عمل دراصل ''قائل ‘‘ کرنے کی کاوش کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ ڈرون حملوںسے لے کر امریکہ کے ساتھ سکیورٹی کے معاہدے اور افغان طالبان سے خفیہ روابط اور ان کی حمایت کے حوالے سے دفاعی اور خفیہ اداروںکے معاملات شفافیت سے عاری ہونے کی وجہ سے سول حکومت کی نظر وں سے اوجھل تھے۔ 
سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے ایک نئی جہت سامنے آئی۔۔۔ اسے ''کیانی ڈاکٹرائن ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا اظہار اس پیرائے میںکیا جاسکتا ہے۔۔۔سول حکومت دفاع اور قومی سلامتی کے سوا آئین کے تحت ہر اختیار رکھتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اہم فیصلہ خود کرے گی۔ اسی طرح امریکہ، افغانستان اور انڈیا کے ساتھ تعلقات اور داخلی سلامتی کے معاملات پر فیصلہ کن رائے رکھے گی۔آصف زرداری کی حکومت کو دفاعی اداروںکی طرف سے بہت سی بریفنگ ملیں لیکن حتمی فیصلہ کرنے میں دفاعی اداروں کو ہی بالا دستی حاصل رہی تھی۔ اُس وقت کی سول حکومت کے پاس کوئی چوائس نہ تھی۔ اصل جمہوری اقدار اس کے برعکس ہوتی ہیں۔ اس لیے ایسا تاثر ملتا ہے کہ پاکستان میں تبدیلی کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا۔ اس ضمن میں بدترین بات یہ ہے کہ اس کی وجہ سے بسا اوقات منتخب شدہ جمہوری حکومت کو قومی اور عالمی معاملات میں ندامت کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ جب ہماری حکومتیں انڈیا اور افغانستان کے حوالے سے دلیرانہ فیصلے کرتی ہیں تو اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ داخلی طور پر وہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے عاری ہوتی ہیں۔ 
آج جب کہ ملک میں نئے آرمی چیف اپنا منصب سنبھال چکے ہیں، اس لیے ایک موقع ہے کہ ان معاملات کو درست کیا جائے تاکہ جمہوری عمل اپنی تکمیل ، جس میں ہر آن بہتری کی گنجائش رہتی ہے، کی طرف بڑھتا دکھائی دے۔ جمہوری حکومت اور دفاعی ادارے ایک صفحہ پر ہونے چاہئیں۔ دفاعی اداروںسے مشاورت کی جانی چاہیے لیکن انہیں ''ویٹو ‘‘ کا حق حاصل نہیںہونا چاہیے۔ یہ ایگزیکٹو کا اختیار ہے کہ وہ حتمی فیصلے کرے اور اپنی پالیسیوں پر عمل یقینی بنائے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس بات پر اتفاق ِ رائے پایا جاتا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ جب بھارت، افغانستان اور امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جائیں۔ اس لیے آج جمہوری اور ملٹری قیادت کو ہم آواز ہونے کی ضرورت ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved