تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     04-12-2013

لاش

تصویر تو آپ نے بھی دیکھی ہوگی،اخبار میں!ایک لاش سے لپٹ کر کوئی رو رہا ہے۔ لکھا ہے کہ مرنے والے کا کوئی عزیز ہے۔کیا پورے سماج میں اس کا صرف ایک ہی عزیز تھا؟ اس کا اس سماج سے کوئی رشتہ نہیں تھا؟ آخر وہ کون تھا؟
یہ بائیس سال کا ذاکر آ فریدی تھا۔ہنستا مسکراتا نوجوان۔ میرے اورآپ کے بھائیوں اور بیٹوں کی طرح کرکٹ کا پرستار۔ اس کے چھکوں پہ لوگ داد دیتے اور کہتے: ''یہ شریف آباد کا شاہد آفریدی ہے‘‘۔شریف آباد پشاور کا وہ محلہ ہے جہاں وہ سولہ سال سے رہتا تھا۔اورہاں،چند دن بعد اس کی شادی تھی، یہی سولہ دسمبر کو۔ہر چیز تیار تھی۔اس کی ہونے والی دلہن کے لیے زیور بھی لیا جا چکا تھا۔لیکن اب یہ سب کچھ نہیں ہوگا۔جن کا جنازہ اٹھ جائے، اُن کی بارات نہیں جاتی۔ اخبار میں لکھا ہے کہ وہ ایک پولیس والا تھا، معمولی سپاہی! وہ اُن لوگوں کی حفاظت کے لیے نکلا تھا جو اس قوم کے مستقبل کو پولیو سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ پولیو کے قطرے پلانے والی ایک ٹیم کا محافظ تھا۔ اسی جرم میں مار ڈالا گیا۔ جی ہاں یہ جرم ہی تو تھا۔جہاں مارنے والے ہیرو ہوں، وہاں بچانے والے ولن ہوتے ہیں۔ جہاں جان لینے والے شہید ہوں وہاں جان بچانے والے مجرم ہوتے ہیں۔۔ محض ایک لاش!قاتلوں کی محبت میں گرفتار کسی سماج میں یہی ہو سکتا ہے! 
تین برس پہلے میں اسی طرح کا ایک منظر دیکھ چکا ہوں۔ ڈاکٹر فاروق خان کی لاش ان کے صحن میں پڑی تھی۔ پسِ مرگ بھی وہی تبسم جو زندگی بھر ان کے چہرے پر ضو دیتا رہا۔ جو طبیب بھی تھے اور حکیم بھی۔افراد کے ذہنی امراض کا علاج کرتے کرتے وہ قومی نفسیات کے معالج بھی بن گئے تھے۔ شفیق ایسے کہ مریض لوٹتا تو اس کے ہاتھ میں صرف دوا نہیں ہوتی تھی ،جیب میں کچھ پیسے ہوتے اور دعا بھی... ارمغانِ طبیب۔دنیا سے رخصت ہوئے تو لوگوں نے ان بچوں اور نوجوانوں کو گریہ کرتے دیکھا جن کا کہنا تھا کہ وہ یتیم ہو گئے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کے وہ بچے تھے، جن کی وہ رازداری کے ساتھ کفالت کرتے تھے۔ قوم کے اصل مرض کا علاج کرتے ہوئے مار ڈالے گئے۔ خیال تھا شہر تو کیا پورا علاقہ ماتم کرتے نکل آئے گا۔ لوگ اپنے محسنوں کو یاد رکھتے ہیں۔ جنازے میں گیا تو معلوم ہوا یہ غلط فہمی تھی۔ سماج کی اقدار بدل چکی تھیں۔ جن کے ساتھ اسلامی انقلاب کی تمنا میں عمر گزاری، وہ بھی نہیں تھے۔ چند احباب اور کچھ محلے دار۔میں اس مجسم مسکراہٹ سے لپٹ کر رودیا ۔ باقی سب کے لیے وہ صرف ایک لاش تھے،ذاکر آفریدی کی طرح۔
پولیس والے کی لاش دیکھی تو افسوس ہوا لیکن حیرت نہیں۔اسے کوئی شہید نہیں کہے گا۔اس کے لیے کوئی دھرنا نہیں دیا جائے گا۔ اس کے افسوس میں کوئی تعزیتی اجلاس نہیں ہوگا۔ ایک عزیر لاش سے لپٹ کر رو دیا، چار نے میت کو کندھا دیا۔ وہ اس جہانِ ستم سے اس طرح رخصت ہوا ہوگا جیسے کبھی آیا ہی نہ تھا۔جیسے وہ پیدا ہی نہیں ہوا...لاشے، حشرات الارض کی طرح!
اس سماج کی کایا کیسے پلٹی، خوب بتدریج ناخوب کیسے ہوا؟ دوست دشمن کی تمیز کیسے مٹی؟ اندھیرا اجالا کیسے بنا؟ محسن مذموم کیسے ہوا؟ ہماری لغت ہی نہیں نفسیات بھی بدل گئی۔ محبت، احسان، ایثارجیسے الفاظ کہاں کھو گئے؟نئی لغت کہاں سے آئی؟ مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم کیسے مان لیا گیا؟ اقدار پر یہ زوال کیسے آیا؟ ڈرون کے ہاتھوں بے گناہ مرتے ہیں تو صرف ایک کونے سے آوازاٹھتی ہے۔ پولیو کا محافظ جب مار دیا جاتا ہے تو اِس کونے سے کوئی صدا نہیں آتی۔ گرجا شعلوں کی نذر ہوتا ہے تو ایک طرف آہ و فغاںہوتی ہے، ڈرون معصوم بچوں کے چیتھڑے اڑا دیتا ہے تو اِس طرف خاموشی چھا جاتی ہے۔ یہ کیسا نفسیاتی بحران ہے؟ محض نفسیاتی نہیں، اخلاقی بھی۔ یہ پولیس والا خیبر پختون خوا میں مارا گیا۔ کیا نیٹو سپلائی کو حرام کہنے والوں کی شریعت میں اس مظلوم کے قاتلوں کے لیے بھی کوئی فتویٰ موجود ہے؟ 
یہ محض ایک لاش نہیں احتجاج ہے۔ جب مظلوم کے حق میں کوئی آواز نہ اٹھے تو لاش بول اٹھتی ہے، احتجاج کرتی ہے۔ مظلوم کی آواز جب عرش کی طرف پرواز کرتی ہے تو کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ وہ اس دروازے پر ضرور دستک دیتی ہے جہاں سے صرف انصاف کا صدور ہوتا ہے۔جہاں ظلم نہیں ہوتا۔ زمین والے جب بے حس ہو جائیں تو آسمان بول اٹھتا ہے۔ یہ آسمان بول تو رہا ہے۔۔ کوئی اس کے کلام کو سمجھے تو۔ یہ بھوک کیا ہے؟ یہ خوف کیا ہے؟ یہ بے حسی کیا ہے؟ یہ آسمان بول رہا ہے ۔کچھ فیصلے ہیں جو صادر ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے کونے کونے سے آج مظلوموں کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ہم شاید سن نہیں رہے۔ یقیناً آسمان والاضرور سنتا ہے۔ مرنے والے بہت ہیں۔ سب کے حق میں کوئی دلیل ہے تو ممکن ہے مخالفت میں بھی ہو۔ ڈرون کے ہاتھوں بے گناہ مرنے والوں کو سب غلط کہتے ہیں لیکن قاتل کے تعین میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ اُن کا قاتل کون ہے ؟ ڈرون یا پھر وہ جو انسانی ڈھال استعمال کر رہے ہیں؟لیکن اس پولیس والے کی مظلومیت کے بارے میں کسی دوسری رائے کا کوئی امکان نہیں۔ اس کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر اس کے مرنے پر کوئی جلوس نہیں نکلتا۔ اگر اس کے قاتلوں کی تحسین ہوتی ہے۔ اگر وہ سماج میں لاواث قرار دیا جاتا ہے تو پھر یہ اعلانِ عام ہے کہ سماج کی اخلاقی موت واقع ہو چکی۔ غور کیجیے! یہ صرف ا یک پولیس والے کی نہیں یہ ہماری لاش ہے۔ یہ قومی احساس کی لاش ہے۔
میں برسوں سے واویلا کررہا ہوں کہ یہ مسئلہ ریاست کا نہیں سماج کا ہے۔ ریاست نہیں سماج مر رہا ہے۔ سماج اقدار سے باقی رہتا ہے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ سماج کی کوکھ سے ریاست نے جنم لیا۔پاکستان کیا ہے؟ برِصغیرکے مسلم سماج کی اولاد۔ترتیب یہی ہے۔ باپ باپ ہے اور بیٹا بیٹا۔ ریاست نے کبھی سماج کو جنم نہیں دیا۔ پاکستان میں اقدار پامال ہوئیں۔ ظلم کو رواج ملا اور 1971ء میںریاست ٹوٹ گئی۔اس کے بعد بھی، سماج کی بربادی کا عمل تین عشروں سے جاری ہے۔ کوئی قدر باقی نہیں رہی۔ آج ہمیں تشویش ہے کہ ریاست کا کیا ہوگا؟ بے توفیقی کا عالم یہ ہے کہ اگر کوئی اس بھنور سے نکلنے کی بات کرتا ہے تو ریاست کے دفاع کا فارمولا لے آتا ہے۔آج کے اخبار میں لکھا ہے کہ داخلی سلامتی کے لیے پالیسی بنالی گئی۔ سریع الحرکت فورس ہوگی اور فضائی نگرانی ہو گی۔اس بصیرت پر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ سریع الحرکت فورس اور آلات بچا سکتے تو سوویت یونین بچ جاتا۔ اقدار برباد ہو جائیں تو پھر آلات اور ہتھیار کام نہیں آتے۔ تاریخ کے چہرے پر صاف لکھا ہے۔ افسوس ہے کوئی پڑھتا نہیں۔
بے توفیقی کے اس عالم میں کیا ایک پولیس والے کی لاش سماج کو زندہ کرسکتی ہے؟ اس کا صرف ایک پیمانہ ہے۔ اگر کوئی انسانیت کی خدمت کرتا اس طرح مارا جائے تو پوری قوم سڑکوں پر نکل آئے۔ کوئی اپنے گھر میں نہ رہے۔ پورا سماج سراپا احتجاج ہو۔ساری قوم ایسے پولیس والے کی وارث بن جائے۔ ایسا نہیں ہوا۔ ایسا نہیں ہوگا۔ اور جب ایسا نہیں ہوگا تو میں جانتا ہوں پھر کیا ہوگا!
عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پولیس والے کی لاش کوایک بار پھر غور سے دیکھیے ! اس کے خدو خال، ہم سے کتنے ملتے جلتے ہیں۔جی ہاں!یہ ایک پولیس والے کی نہیں، ہم سب کی لاش ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved