تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     04-12-2013

لا پتہ افراد اور چیف جسٹس آف پاکستان

انجینئر محمد عمران میرے بچپن کے دوست ہیں ۔ ہم نے چھٹی جماعت سے میٹرک تک کریسنٹ ماڈل سکول میں اکٹھے تعلیم حاصل کی ۔ میٹرک کے بعد ہمارے تعلیمی ادارے بد ل گئے۔انہوں نے کریسنٹ ماڈل کالج میں ایف ایس سی میں داخلہ لے لیا تو میں نے گورنمنٹ کا لج لاہور میں ۔ ایف ایس سی کے دو سالوں کے درمیان ہمارا رابطہ برقرار رہا اور ہم گاہے ماہے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے رہے ۔ایف ایس سی کے بعد میں انجینئر نگ یونیورسٹی لاہور ،اور محمد عمران پنجاب یونیورسٹی میں چلے گئے ۔ہم دونوں نے 1995ء میں انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی۔ میں نے بعد میں مزید تعلیم جاری رکھی جبکہ محمد عمران عملی زندگی میں داخل ہوگئے ۔ان کے والد کا ڈیزل انجنوں اور جنریٹرز کا بڑے پیمانے پر کام تھا ۔وہ ان کے ہمراہ خاندانی کاروبار میں مشغول ہوگئے ۔ وقت گزرنے کے باوجود ہمارے باہمی رابطوں میں کسی قسم کا تعطل پیدا نہیں ہوا بلکہ بتدریج دوستی گہری ہوتی چلی گئی ۔ہم دونوں ایک دوسرے کے قریبی رشتہ داروں سے بھی پوری طرح واقف ہیں اور ایک دوسرے کی خاندانی تقریبات میں بھی شریک ہوتے ہیں ۔محمد عمران کے کئی کزنز کے ساتھ بھی میرے اچھے مراسم ہیں اور ہم ایک دو سرے کے ساتھ رشتہ داروں کی طرح ملتے ہیں ۔محمدعمران کے دو چچا زاد بھائی محمد عرفان اور نعمان عارف بہت ہی نفیس طبیعت کے مالک ہیں ۔ان دونوں بھائیوں کو اللہ نے دین اور دنیا کی بہت سی نعمتوں سے نواز ا ہے ۔ وسیع کاروبار کے ساتھ نماز پنجگانہ کے پابند ہیں ۔جوانی ہی میں ان میں اتبا ع رسول ﷺکا جذبہ اپنے کما ل کو پہنچا ہوا ہے ۔ اس مادیت زدہ دور میں ان نوجوانوں کی دین سے محبت کو دیکھ کر کو ئی بھی انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ان باشرع اور شبِ زندہ دار نوجوانوں کے بارے میں میرے احساسات ہمیشہ ہی بہت اچھے رہے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے ان کی کامیابی کا خواہاں ہوں ۔
گزشتہ رمضان کی بائیسویں رات کو انجینئر محمد عمران نے مجھے فون کیا ۔و ہ بہت بے قرار اور پریشان تھے ۔جب میں نے اضطراب کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ نعمان عارف مسجد سے نماز ادا کرکے مسلم ٹائون میں واقع اپنے گھر آرہے تھے کہ راستے سے ان کو گاڑی سمیت غائب کر لیا گیا ۔جواں سال نعمان عارف کی گمشدگی پورے خاندان کے لیے پریشانی کا باعث تھی ۔کچھ دن کی بھا گ دوڑ کے بعد بس اتنا علم ہوا کہ نعمان عارف ایسے اداروں کی تحویل میں ہیں جہاں سے ان کی بازیا بی آسان نہیں ۔ دکھی اور پریشان خاندان نے اپنے بیٹے کی برآمدگی کے لیے بہت کوششیں کیں لیکن چار مہینے کا عرصہ گزر جانے کے باوجو د نعمان عارف بازیاب نہیں ہوسکے ۔
مَیں نے محمد عمران کو کئی مرتبہ مشورہ دیا کہ وہ اس نوجوان کی بازیابی کے لیے عدالتوں سے رجوع کریں اور اس کیس کو جس حد تک ممکن ہو میڈیا پر اجا گر کریں مگر نعمان عارف کے بھائی محمد عرفان اس سلسلے میں شدید دبائو کا شکار ہیں اور وہ اپنے بھائی کی جان کی سلامتی کی خواہش کے باعث اس معاملے کی زیادہ تشہیر سے کترا رہے ہیں ۔ان کے ذہن میں یہ خیال راسخ ہوچکا ہے کہ اگر میڈیا یا عدالتی ذریعے سے اپنے بھائی کو برآمد کروانے کی کوشش کی گئی تو شاید واپسی کے امکانات بالکل معدوم ہوجائیں گے ۔مظلوم خاندان کا معاملہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاںتک پہنچ چکا ہے ۔انہوں نے اس سلسلے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن چونکہ حکمرانوں کی بے پایاں مصروفیات عام طور پر عوام کے کاموں کے راستے میں آڑے آتی رہتی ہیں ۔اس لیے یہ معاملے بھی سر ِدست التوا کا شکار ہے ۔سیاسی حریفوں کے ساتھ پنجہ آزمائی وزراء کو اتنا مشغول رکھتی ہے کہ کسی مظلو م کا مسئلہ حل کرنے کے امکانات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں ۔اس خاندان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہا ہے کہ یقین دہانیوں کے باوجو د عملی طور پر کچھ نہ ہوسکا ۔
یقینا یہ بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ملک کے وزیر داخلہ تک رسائی حاصل کرنے باوجود کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوسکی ۔دکھی خاندان اس وقت انصاف کا طلبگار ہے لیکن خدشات اور بے چینی نے خاندان کی قوت عمل کو سلب کر رکھا ہے۔ خاندان کے لوگ اس معاملے کو اچھالنے سے کترا رہے ہیں اورغائب کرنے والوں کی طاقت او راثر ورسوخ کے مقابلے میں اپنے آپ کو بالکل بے بس محسوس کر رہے ہیں ۔اس معاملے پر کھل کر بات کرنے کا مطلب ان کے نزدیک کسی نئی آزمائش کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔نعما ن عارف کا مسئلہ اپنی نوعیت کا واحد مسئلہ نہیں ۔ملک کے طول و عرض سے بہت سے لوگ بغیر کسی ایف آئی آر اور مقدمے کے اندراج کے طویل عرصے سے لاپتہ ہیں اور ان میں سے کئی ایک کی بازیابی کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے ۔کئی بچے زندہ باپوں کی موجودگی میں یتیموں اور کئی عورتیں زندہ شوہرو ں کی موجودگی میں بیوائوں کی طرح روز وشب بسر کررہی ہیں ۔عرصہ دراز تک مختلف سیاسی اورسماجی تقریبات میں ،محترمہ آمنہ مسعود جنجوعہ اپنے لا پتہ شوہر کی بازیابی کے لیے موجود ہوا کرتی تھیں لیکن کچھ عرصے سے انہوں نے بھی احتجاج کا راستہ ترک کردیا ہے ۔کئی برس کی انتھک جدوجہد کے بعد غالباً اس مظلوم خاتون نے بھی مایوس ہوکر حالات سے سمجھوتہ کرلیا ہے ۔چیف جسٹس آف پاکستان اپنے منصب کی مدت مکمل کرنے والے ہیں ۔اپنی رخصتی سے قبل وہ بڑی شد ومد سے لاپتہ افراد کے معاملے کو اٹھا رہے ہیں ۔ ان کا یہ قدم ہر اعتبار سے لائق تحسین ہے ۔چیف جسٹس چونکہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو انجام دے رہے ہیں اس لیے سرِدست ان کی توجہ کا مرکز وہ پینتیس افراد ہیں کہ جن کے لواحقین نے ان کی بازیابی کے لیے سپریم 
کورٹ سے رجوع کیا ۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ان پینتیس لا پتہ افراد میں سے دو افراد جا ں بحق ہوچکے ہیں ۔چیف جسٹس نے بغیر کسی مقدمے کے اندراج کے حساس اداروں کی تحویل میں ہلاک ہونے افراد کی موت کو قتل قرار دیا ہے اورباقی ماندہ افراد کی فی الفورطلبی کا حکم جاری کیا ہے ۔ان پینتیس افراد کے علاوہ ایک طویل فہرست ان لوگوں کی ہے کہ جن کے لواحقین خوف اور دہشت کی وجہ سے میڈیا اور عدالتوں سے رجوع نہیں کررہے اور اپنے معاملے کو اللہ کے سپر د کرچکے ہیں ۔لاپتہ افراد کا معاملہ بہت بڑا انسانی المیہ ہے اور کسی بھی مہذب معاشرے میں ماورائے عدالت گمشدگیوں،گرفتاریوں اور قتل کی کارروائیوں کو قبول نہیں کیا جا سکتا لیکن سر زمین پاکستان میں اس طرح کے واقعات ریاست میںآئین اور قانون کی بالا دستی کے حوالے سے سوالیہ نشان کی حیثیت رکھتے ہیں ۔قانون میں قتل سے لے کر ڈکیتی تک اور دہشت گردی سے لے کر بغاوت تک ہر جرم کی سزا کا تعین کردیا گیا ہے۔پولیس اور عدالتوں کے اختیارات کی بھی وضاحت موجود ہے۔اس سارے نظام کی موجودگی میں اس طرح کی کارروائیاں ایک اسلامی و جمہوری معاشرے کے لیے سخت بدنامی کا باعث ہیں۔
مجرم کا جرم خواہ کتنا بڑا کیوں نہ ہو اس کو عدالت سے ہی سزا ملنی چاہیے ۔یہ اسلام اور اخلاقیات کا نہایت اہم تقاضا ہے کہ ہر شخص کو اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی تردید اور اپنے دفاع کا حق دیا جائے محض شک کی بنیا د پر کسی بھی شخص سے وضاحت اور صفائی کا حق چھیننا شرعی اوراخلاقی اعتبار سے قابل قبول نہیں ۔زندہ اور موجود انسان اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا دفاع کرسکتا ہے جبکہ گمشدہ یا مردہ انسان اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی صفائی نہیں دے سکتا ۔پاکستان کی سرزمین کو ریاستِ بے آئین و قانون بنانے والے لوگ خواہ کوئی بھی ہوں ان کا احتساب ہونا چاہیے اور چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری اس حوالے سے بہت عمدہ یادیں اور روایات چھو ڑ کر رخصت ہورہے ہیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved