سعودی وزیردفاع کے اس دورے کا مقصد اتنا واضح تھا کہ دوسری کسی قیاس آرائی کی گنجائش نہیں تھی۔ پاکستان نے بھارت کے جواب میں اپنے ایٹمی دھماکے کر لیے تھے اور وزیراعظم نوازشریف کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ان دھماکوں کے نتیجے میں پاکستان پر عالمی پابندیاں لگائی جائیں گی۔ پاکستان چاہتا تھا کہ سعودی عرب جیسے مالیاتی طور پہ مستحکم دوست اور ساتھی کو اس انداز میں سامنے لایا جائے کہ پاکستان کے مخالفوں خصوصاً بھارت کو ان پابندیوں کا فائدہ اٹھا کر پاکستان پر اضافی دبائو ڈالنے کا موقع نہ دیا جائے۔ درحقیقت یہ دورہ اپنوں اور غیروں کو دکھانے کی غرض سے ترتیب دیا گیا تھا تاکہ پاکستان کو تنہا اور وسائل کی قلت میں مبتلا نہ سمجھا جائے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں شکوک و شبہات اس وقت بڑھ گئے‘ جب یو این میں متعین صف اول کا ایک سعودی سفارتکار خلوی منحرف ہو کر امریکہ میں پناہ لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ امریکی حکام کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس نے ایف بی آئی کے اہلکاروں پر الزامات لگائے اور ساتھ ہی سعودی عرب کی حکومت پر بھی تہمت لگائی کہ وہ پاکستان اور عراق کے ایٹمی پروگراموں کے لیے فنڈ مہیا کر رہا ہے۔ برطانوی اخبار ''سنڈے ٹائمز‘‘ نے خلوی کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ پاکستان اور سعودی عرب میں خفیہ عہد و پیمان ہوئے ہیں کہ ''اگر سعودی عرب پر کسی طرف سے ایٹمی حملہ ہوتا ہے تو پاکستان حملہ آور کے خلاف اپنے ایٹم بم استعمال کرے گا‘‘۔ایف بی آئی کے جن ایجنٹوں سے خلوی کے ان دعوئوں کی حقیقت پوچھی گئی‘ انہوں نے تصدیق سے انکار کر دیا اور خلوی کے ساتھ مزیدبات چیت کرنے‘ اسے حراست میں لینے یا اس کے لیے حفاظتی بندوبست کرنے سے انکار کر دیا اور میٹنگ سے واک آئوٹ کر گئے۔ خلوی کا مقصد محض امریکہ میں سیاسی پناہ حاصل کرنا تھا جس میں وہ کامیاب رہا، لیکن پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں شکوک و شبہات ضرور پیدا کر گیا۔ سعودی ـ ایران کشیدگی میں اتار چڑھائو کے ساتھ ہی مختلف کہانیاں پھیلائی گئیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ اگر ایران ایٹمی اسلحہ بناتا ہے تو سعودی عرب‘ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کا بندوبست کر چکا ہے۔ اس بار کہانی میں ذرا سی تبدیلی یہ تھی کہ ایٹمی تنصیبات کی نگرانی پاکستانی فوج کے سپرد ہو گی۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے بیرونی ملکوں میں امریکہ کی ایٹمی تنصیبات کی نگرانی خود اسی کے فوجی کرتے ہیں، جیسے نیٹو ممالک وغیرہ۔ اسی طرح کی ایک رپورٹ دسمبر 2003ء میں ''گارڈین‘‘ نے بھی شائع کی تھی‘ جو دو حصوں پر مشتمل تھی اور اسے ویانا میں مقیم صحافیوں کے حوالے سے مرتب کیا گیا تھا۔یاد رہے، ویانا میں انٹرنیشنل ایٹمی انرجی ایجنسی کا ہیڈکوارٹر واقع ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب اپنے ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے ایک ایٹمی طاقت کے ساتھ معاہدہ کر رہا ہے۔ اس رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ سعودی عرب کی ایٹمی تیاریوں میں پاکستان اس کا شریک ہو گا۔ رپورٹ میں بتانے کی کوشش کی گئی کہ یہ محض قیاس آرائیوں پر نہیں ‘ ٹھوس دلائل پر مبنی ہے۔لکھنے والوں نے سٹریٹیجک تجزیے بھی دیکھے ہیں، ہرچند کوئی دستاویزی حوالہ موجود نہیں تھا۔ سعودی عرب میں حکومتی نظام ایسا نہیں ہے کہ وہاں سے کسی دستاویز کے اندراجات غیرسرکاری ذرائع سے باہر آ سکیں۔سعودی انتظامیہ کے حوالے سے وہی معلومات سامنے آتی ہیں جنہیں حکومت نے خود کسی منصوبے کے تحت ظاہر کیا ہو۔ یہ رپورٹ اسی دور میں ایک نئے انکشاف کے بعدمشکوک ہو گئی۔ وہ انکشاف یہ تھا کہ سعودی عرب ایسی صورت میں ایٹم بم قبول نہیں کرے گا،اگر سعودی سرزمین پر ایٹم بم کی حفاظت کے لیے پاکستان کے فوجی محافظ آئیں گے ۔ دوسری طرف پاکستان کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس طرح کی ایٹمی تجارت ہر طرح‘ اس کے لیے نہ صرف نقصان دہ بلکہ خطرناک تھی۔ سعودی عرب کو ایٹم بم دے کر پاکستان چند ڈالروں کے سوا کچھ حاصل نہیں کر سکتا تھا، لیکن نقصان کا خطرہ لامحدود تھا۔ پاکستانی حکام اپنے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں انتہائی حساس اور محتاط رہتے ہیں۔ انہیں بھارت اور امریکہ کی طرف سے کسی بھی طرح کی کارروائی کا اندیشہ رہتا ہے۔ خاص طور سے اگر پہل دوسری طرف سے ہو جائے۔ یہ قیاس کرنا بھی خلاف حقیقت ہو گا کہ سعودی عرب ماضی میں دیے گئے فنڈز کے بدلے‘ مستقبل میں ایٹمی ہتھیار حاصل کر سکے گا۔ سعودی عرب بہت سے معاملات میں پاکستان کی مدد اور معاونت کے باوجود پاکستان سے اپنا ہر مطالبہ نہیں منوا سکتا، جیسے ایک موقع پر اس نے پاکستان سے کہا تھا کہ اسامہ بن لادن کو سعودی عرب کے حوالے کر دیا جائے۔ اگر 1990ء میں بھاری مالی امداد کے بدلے‘ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو سعودی عرب کے حوالے نہیں کیا تھا تو 1980ء میں کی گئی مالی معاونت کے عوض‘ کئی سالوں کے بعد‘ ایٹمی اسلحہ حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوسکتا ہے؟ سعودی عرب کو پاکستانی بم فراہم کرنے کی کہانی اس وقت مزید بے معنی اور غیرمنطقی ہو کر رہ جاتی ہے‘ جب اس کے نتائج اور عواقب پر غور کیا جائے۔ پاکستان کے بارے میں بھارت اور امریکہ کو یہ شک بھی پیدا ہو جائے کہ اس کا ایٹمی اسلحہ کسی اور کے پاس جا رہا یا جانے والا ہے‘ تو امریکہ‘ بھارت اور دونوں کے مغربی اتحادی‘ بلاتاخیر پاکستان کے خلاف عالمی پابندیاں لگوا دیں گے۔ وہ آئی ایم ایف کا پاکستان کے ساتھ مالیاتی تعاون کا معاہدہ بھی
بلاتاخیر معطل کرا سکتے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کے لیے اپنی معیشت کو سنبھالنا دشوار ہو جائے گا۔ امریکہ نے ابھی تک پاکستان اور بھارت کے مابین بظاہر غیرجانبداری کا بھرم بنایا ہوا ہے۔ اس میں امریکہ کی دلچسپی ختم ہو جائے گی اور وہ کھل کر بھارت کا حمایتی بن جائے گا اور امریکہ کے اندر بھارت نواز لابی‘ جو ان دونوں ملکوں کو پاکستان کے خلاف اتحادیوں کی شکل میں دیکھنا چاہتی ہے‘ فوراً ہی سرگرم ہو جائے گی۔چین کے ساتھ پاکستان کی دیرینہ اور آزمودہ دوستی پر بھی دبائو آ جائے گا۔ درحقیقت چین ‘ امریکہ سے بھی زیادہ برافروختہ ہو سکتا ہے۔ وہ اپنی ضروریات کا 20فیصد تیل سعودی عرب سے خریدتا ہے اور خلیج کی ریاستوں سے وہ مزید درآمدات کی کوشش میں ہے۔پاکستان خلیج کے کسی ملک کو ایٹم بم دے کر‘ گلف سے چین کو ہونے والی سپلائی میں خلل ڈال سکتا ہے‘ جس سے چین کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کو زبردست نقصان پہنچے گا۔ چین اپنی تیل کی سپلائی میں یہ خلل برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ سپلائی لائن متاثر ہونے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بحران‘ خود چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے لیے خطرات پیدا کر سکتا ہے۔ ایران پر لگی ہوئی پابندیوں میں نرمی کا فائدہ اٹھانے کے لیے سب سے پہلے بھارت تیزرفتار پیش قدمی کرے گا۔ اس سلسلے میں ابتدائی اقدامات شروع ہو چکے ہیں۔ بھارت ‘ چاہ بہار کی پورٹ سے استفادہ کرنے کی عملی تیاریاں ایک مدت سے کر رہا ہے۔اس نے افغانستان تک سڑک تعمیر کرنے کے لیے بھی مالی اور فنی حصہ ڈالا ہے۔ چاہ بہار پر سہولتیں مل جانے کے بعد‘ اس کا دیرینہ خواب پورا ہو جائے گا اور اسے براہ راست وسطی ایشیا اور یورپ تک زمینی رابطوں کی سہولت میسر آ جائے گی‘ جو اس کا دیرینہ خواب ہے اور وہ یہ کہ اسے وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے پاکستان کا محتاج نہ رہنا پڑے۔ سعودی عرب اور پاکستان کا ایٹمی تعاون لازمی طور پر پاک ایران تعلقات کو بری طرح متاثر کرے گا اور ایران جو پہلے بھی بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہے‘ دفاعی معاملات میں بھی بھارت کے ساتھ تعاون پر مجبور ہو جائے گا۔ یہ اتحاد ہمارے لیے کتنا خطرناک ہو گا؟ اس کا اندازہ صرف ایک بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ایران اور بھارت کی نیوی کسی بھی وقت پاکستانی بحریہ کو اپنے پانیوں میں بند کر کے رکھ سکتی ہے۔ اگر ان سارے خطرات کو سامنے رکھا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان‘ سعودی عرب کی ساری دولت کے بدلے بھی اپنی بقا کو دائو پر نہیں لگا سکتا اور نہ ہی ایسا کرے گا۔ سعودی عرب کے لیے پاکستانی ایٹم بم کا شوشہ محض ہمیں ہراساں کر کے دبائو میں لانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ حقیقت میں ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اپنے ایٹمی اثاثوں کو کسی بھی طرح کی سودے بازی کے لیے استعمال کریں۔یہ بات دنیاتسلیم کر چکی ہے کہ ہمارے ایٹمی اثاثے انتہائی محفوظ اورقابل اعتماد سکیورٹی سسٹم کی نگرانی میں ہیں۔