رُت بدل رہی ہے۔ نومبر کی ہلکی خنکی کے بعد دسمبر کے مہینے کا آغاز ہو چکا ۔ اگرچہ ابھی ویسی ٹھنڈ شروع نہیں ہوئی جو دسمبر کے مہینے کا خاصہ ہے لیکن رفتہ رفتہ دسمبر دُھند میں بھیگتا جائے گا‘ دِنوں کا دورانیہ سکڑ جائے گا اور راتیں طویل ہوں گی۔ شامیں اپنے سُرمئی لباس میں سرِ عام ہی آنگنوں میں اتر آئیں گی۔ ایسے سرد موسم میں اہل دِل کی اداسی بڑھے گی‘ سوچنے‘ اور لکھنے کو بہت کچھ ہو گا۔ اس لیے بھی کہ دسمبر سال کاآخری مہینہ ہے۔ سو اِس میں سودوزیاں کا حساب بھی ہوتا ہے اور اگلے موسموں کے لیے اُمید بھی باندھی جاتی ہے۔
موسم کی اس تبدیلی کے ساتھ ہی قومی منظر نامہ بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ آرمی چیف کی تبدیلی کے چند ہی روز بعد اگلے چند دنوں میں چیف جسٹس کی رخصتی بھی ہو گی۔ یوں ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچے گا۔ فی الحال فوج میں آنے والی تبدیلی پر تجزیے ہو رہے ہیں۔ جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی نے کمان جنرل راحیل شریف کے سپرد کر دی ہے۔ کوئٹہ میں پیدا ہونے والے جنرل راحیل کے آبائو اجداد گجرات کے مردم خیز گائوں کنجاہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کنجاہ کا تذکرہ آئے تو شریف کنجاہی کا یاد آنا قدرتی بات ہے۔ پنجابی زبان کا خوب صورت شاعر‘ درویش صفت انسان‘ اور پنجاب یونیورسٹی میں پنجابی ڈیپارٹمنٹ کا پہلا سربراہ شریف کنجاہی اپنی تمام تر ادبی اور تخلیقی سرگرمیوں کے ساتھ گمنامی میں رہنا ہی پسند کرتا تھا مگر اُن کے اشعار میں خوشبو کی طرح سفر کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔
ممتاز دانشور منو بھائی‘ شریف کنجاہی کے قریبی عزیز بھی ہیں اور دوستی کا رشتہ بھی استوار تھا۔ منو بھائی نے شریف کنجاہی کی درویش صفت طبیعت اور سادگی کے حوالے سے ایک جگہ لکھا کہ ایک وقت تھا میں شریف کنجاہی کے پاس گھنٹوں بیٹھا رہتا‘ ہرموضوع پر بے تکلف گفتگو ہوتی مگر پھر رفتہ رفتہ مجھے اُس کی سادگی اور شرافت سے ڈر لگنے لگا۔ اُس کی کھلی ڈلی اور بے تکلف باتوں سے خوف آنے لگا۔ اُسے جب کوئی بھی مشورہ دیتا کہ سادگی چھوڑ کر کچھ دنیا کے ساتھ چلو تو وہ بڑے آرام سے کہتا ''میں اچکن لا ہ کے کوٹ کیوں پاواں‘ پنجابی دی نالائقی چھڈ کے انگریزی دی لیاقت ثابت کیوں کراں‘‘ منو بھائی لکھتے ہیں کہ مجھے ایسا لگتا کہ '' اوہدی اچکن مرے سوٹ دا مذاق اڈاندی اے‘‘
خالص تخلیق کار ، بے ریا انسان اور درویش۔ آج کے لکھاریوں میں یہ خوبیاں کم نظر آتی ہیں۔ آج کل تو شاعر‘ ادیب‘ خود ہی اپنے میڈیا منیجر بنے ‘ اپنی شہرت کی خبریں اور تقریبات کی تصویریں لیے اخبارات کے دفاتر میں نظر آتے ہیں۔
شریف کنجاہی یاد آتے ہیں تو اُن کی پنجابی کی خوب صورت شاعری کا نمونہ بھی پڑھیے۔ یہ نظم یقینا انہوں نے اپنی بیٹی جو ان کی اکلوتی اولاد تھی کے نام لکھی ہے۔
کھیڈلَے میریے بھولیے دھیے کھیڈلَے گڈیاں نال
اپنیاں ضداں اڑیاں منوا لے چار دیہاڑے
تیرا راہ مل بیٹھے ہوئے کنیّ وخت پواڑے
کنّیِ دکھ جنجال!!
کھیڈلَے کھیڈلَے چھیتی چھیتی ‘ کھیڈلَے گڈیاں نال
کوئی کِسے دی سُندا ناہیں ایتھے کوک روال
اَنھیّ راجے دی نگری، اُنج ہر کوئی کُتوال
وِہل دے ایہہ چار دہاڑے کھیڈلَے گڈیاں نال!!
کیا بات ہے۔!باپ کی بیٹی کو نصیحت ایک نکتے سے دائرے کی صورت پھیلتی‘ ہر اُس شخص تک پہنچ جاتی ہے‘ جو شریف کنجاہی کی شاعری کا قاری ہے۔
بات بدلتی رُت سے بدلتے ہوئے قومی منظر نامے پر پہنچی ‘ نئے آرمی چیف راحیل شریف کے آبائی گائوں کنجاہ سے ہوتی ہوئی شریف کنجاہی تک جا پہنچی ہے‘ اچھا ہے کہ اس بہانے ہم نے پنجابی زبان کے اس عظیم شاعر کو بھی یاد کر لیا‘ جس کی پہلی پنجابی کتاب کو پاکستان سے، اپنی دھرتی سے کوئی پبلشر نہ مِلا اور یہ کتاب لدھیانہ سے شائع ہوئی تھی۔ بات سوچنے کی ہے کہ ہم اپنوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ تبدیلی کی بات پھر کرتے ہیں‘ ایسا لگتا ہے کہ پچھلے کچھ دِنوں سے ہمارے ملک کی انتہائی منظم اور مہذب دینی و سیاسی جماعت‘ جماعت اسلامی بھی اپنے مسلمہ تاثر کو زائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔اسی لیے ، منور حسن جب بھی لب کشائی کرتے ہیں تو سوچ اورفکر کے ہر فورم پر بحث چھڑ جاتی ہے۔ جماعت اسلامی کو موقف کی وضاحت کرنا پڑتی ہے اور اب جماعت کے زیر اثر طلبہ تنظیم نے پنجاب یونیورسٹی میں وہ ہنگامہ آرائی کی ہے کہ یونیورسٹی کے پُرامن ماحول کو فائرنگ‘ احتجاج‘ جلائو گھیرائو سے بدنما کر دیا۔
شہر میں بدامنی کا ماحول پیدا کیا۔ بسوں کو جلانا بدترین بدمعاشی ہے۔ یہ کیسے طالب علم ہیں جو برسوں سے ہاسٹلوں پر قابض ہیں‘ نہ کلاسوں میں جاتے ہیں نہ امتحانات دیتے ہیں۔ کتاب سے واسطہ نہیں‘ کمروں میں کتابوں کی بجائے بھنگ چرس‘ اور متنازعہ لٹریچر مِلتا ہے ۔ ایسے عناصر کا ایک قابل قدر تعلیمی ادارے سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ ان کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہیے۔ اگرچہ چند کالی بھیڑوں کا کام ہے تو ایسے عناصر سے جماعت اسلامی کو بھی چھٹکارا پانا چاہیے جو اُن کی جماعت کے منظم اور مہذب تاثر کو تباہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ کم از کم کوئی طالب علم تو ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا گوارا نہیں کر سکتا۔ جنہیں سیاست کا شوق ہے وہ تعلیمی اداروں کی پناہ لیے بغیر سیاست کریں۔ جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو ان شرپسندانہ سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کی بجائے‘ کھلے الفاظ میں اِن کی مذمت کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس سے صرف اُن کی جماعت کا ایک اچھا امیج ہی خراب نہیں ہو رہا بلکہ عوام کے دِلوں میں بھی شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ منفی سمت میں تبدیلی کے اس عمل کو روکنا ہو گا!