تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     05-12-2013

مکّار

'' انگریز کی نس نس میں سازش اور فریب ہے! ‘‘مونچھوں کو تائو دے کر میں نے کہا۔ مولوی عبدالقدوس نے بڑی شدّو مد سے میری تائید میں سر ہلایا۔ میں سوچنے لگا کہ خود کو سائنسدان کہلانے پر مصر اْس بدبخت گورے کو اپنی حویلی سے کیسے چلتا کروں ، جو کئی ماہ سے میری چھاتی پر مونگ دل رہا تھا۔بظاہر اس کی شکل ڈاکوئوں جیسی تھی۔ وہ امریکہ میں مقیم میرے بھائی کا دوست تھا ۔ بھائی صاحب کا کہنا یہ تھا کہ وہ پاکستان کی زرخیز زمینوں پر تجربات کرنا چاہتاہے۔ دل ہی دل میں ، میں نے سوچا کہ امریکی زمینیں کیا سیلاب کی زد میں ہیں کہ اسے پاکستان کی سوجھی ہے۔پھر میرا ماتھا اس وقت ٹھنکا ، جب عجیب و غریب مشینوں سے لدے ایک پورے ٹرالر کے ساتھ اس نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا۔ مجھے ایسٹ انڈیا کمپنی یادآنے لگی ۔
مولوی عبد القدوس بڑا اچھا آدمی ہے ۔ متقی اور صاحبِ علم۔ پانچ برس قبل وہ ایک خوشخبری کے ساتھ مجھ تک پہنچا تھا۔ اسے خواب میں بشارت ملی تھی کہ میں ایک مسجد تعمیر کروں گا اور جنت سے نوازا جائوں گا۔ میں مذہبی آدمی نہیں لیکن ڈھلتی ہوئی عمر میں اب ضمیر پر خوامخواہ کا ایک بوجھ سا رہنے لگا ہے۔ مولوی کے آنے کے بعد میں ہلکا پھلکاہوگیا۔ پھرمیرا ہاتھ تھام کے ،وہ مجھے عین اس جگہ لے گیا، جو مسجد کے لیے مخصوص کر دی گئی تھی ۔ میں نے اسے امام اور خطیب کے فرائض سونپنا چاہے تو اس نے سختی سے منع کردیا۔پھر میرے اصرار پر وہ ایک دم پگھل گیا۔ ہیرا آدمی ہے!
ا س سال جب چاول کی پیداوار تباہ کن حد تک کم ہوئی تو انگریز کی نحوست کے بارے میں میرا رہا سہا شک بھی تحلیل ہو گیا۔ہر کچھ دن کے بعد میں خواب دیکھتا ہوں کہ اپنی مشینوں کی مدد سے وہ زمین کی ساری زرخیزی چوس کر بھاگ رہا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اردو بولتا ہے ۔ گاہے ماہے قیمتی گاڑیوں میں لوگ اس سے ملنے آتے ہیں ۔ خود میری تعلیم واجبی سی ہے لیکن اپنے عزیزوں میں سے گنے چنے تعلیم یافتہ لوگوں کو میں اس کی مشینری دکھا چکا ہوں۔ وہ سب غار کے انسان جیسی شکل بنا کر بھاگ نکلے ۔
سب سے عجیب انکشاف اب مولوی عبدالقدوس نے کیا ہے۔ گائوں کے لڑکوں کو وہ کالے رنگ کے عجیب پتھر ڈھونڈ لانے پر انعام سے نواز رہا ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ دوٹوک بات کی جائے۔ مولوی کو ساتھ لے کر میں اس کے پاس جا پہنچا۔ وہ ایک پتھر کے معائنے میں مصروف تھا۔ 
''آنجناب زرخیزی جانچنے آئے تھے لیکن اب پتھر ڈھونڈتے پھرتے ہیں ۔ کیا میں پوچھ سکتاہوں کہ یہ کیا ہورہا ہے ؟‘‘میں نے زہریلے لہجے میں پوچھا۔ 
''میری آمد کا مقصد تم لوگوں کی سوچ سے بالاتر تھا ۔ اس لیے زمین پر تجربات کی بات کی گئی ۔ ایک برس قبل ایک پاکستانی نے عجیب ساخت کا ایک پتھر اپنے غیر ملکی دوست کو تحفے میں دیا تھا۔ مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوا وہ سائنسدانوں کے ایک گروپ تک پہنچا تو تہلکہ مچ گیا۔ وہ کسی شہابِ ثاقب کا ٹکڑا تھا اور اس میں زندگی موجود تھی ۔ اس شخص کو ڈھونڈا گیا اور اس نے اسی علاقے کی نشاندہی کی، جس میں ہم موجود ہیں ‘‘
''زندہ پتھر؟ــ"مولوی عبد القدوس بھونچکا رہ گیا۔ گورا طنزیہ انداز میں ہنسا‘‘ نہیں ، پتھر میں خوردبینی حیات موجود تھی ۔ تم کیڑے مکوڑے سمجھ لو‘‘
''بے شک خدا پتھر میں بھی رزق پہنچاتا ہے‘‘مولوی نے جھوم کر کہا‘‘لیکن کیڑوں کے پیچھے خوار ہونے کا کوئی فائدہ نہیں‘‘ گورے نے سر پیٹ لیا۔ مولوی عبدالقدوس کو میں نے گھور کر دیکھا اور وہ لا تعلق سا ہو کر بیٹھ گیا۔ 
''جنابِ والا، انسانیت کوقتل و غارت کے سواآپ نے کیا دیا ہے کہ اب آسمان میں زندگی ڈھونڈنے نکلے ہیں ؟ " میں نے ذرا اونچی آواز میں کہا ۔ 
''تحقیق ہمارے ماتھے کا جھومر ہے ۔ موٹر سائیکل سے لے کر جہاز اور ریڈیو سے موبائل فون اور انٹرنیٹ تک ، سبھی کچھ ہم نے دیا ہے ۔ بجلی ہم نے ایجاد کی ۔ٹیلی ویژن اور وائرلیس ٹیکنالوجی ، سورج کی شعائوں سے توانائی کشید کرنا ہم نے سکھایا۔ تم جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے ہم پر تنقید کرتے ہو۔ ایٹم میں ہلاکت خیز توانائی موجود تھی ۔ اگر ہماری دشمن اقوام ہم سے پہلے اسے ڈھونڈ نکالتیں تو ہیرو شیما کی بجائے نیویارک تباہ ہوتا۔ ہم نے تمہیں انسانی اعضاکی پیوندکاری سکھائی ۔جب تمہارا جگر کام کرنا چھوڑ دے تو ایڑیاں رگڑتے ہوئے تم ہمارے ہسپتالوں کو بھاگتے ہو۔ تیل اور گیس ختم ہو رہے ہیں لیکن ہم میٹر (Matter)اور اینٹی میٹر (Anti Matter)کے ملاپ سے توانائی کے حیرت انگیز سرچشمے ڈھونڈ رہے ہیں ۔ کرّہ ارض پہ گزرے تباہ کن برفانی ادوار (Ice Ages)کی وجوہ ہم نے ڈھونڈ نکالیں ۔مارچ 1989ء میں آسمان سے آنے والی حیرت انگیز قوت نے کینیڈا کے صوبے کیوبک میں اندھیرے مسلّط کر دئیے ۔ غیر مرئی طاقتوں کے سامنے جھکنے کی بجائے ہم نے سراغ لگایا کہ یہ ایک خطرناک شمسی طوفان کا نتیجہ تھا۔ آج ہم سورج پر نظریں گاڑے بیٹھے ہیں اور قبل از وقت اگلے طوفان کو بھانپ لیتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ ساڑھے چھ کروڑ سال قبل خلا سے آنے والے ایک دم دار سیارے نے ڈائنا سار سمیت کرّہ ارض کے 70فیصد جانداروں کا خاتمہ کر دیا تھا ۔ اب کی بار ہم میزائل سے اس کی سمت بدل ڈالیں گے۔‘‘وہ فخر سے بولتا چلا گیا۔ 
''ہم مسلمان بھی پیچھے نہیں ۔ابو ظہبی کے شیخ حماد بن حمدان النہیان نے ساحلِ سمندر پر اپنا نصف میل اونچا اور دو میل لمبانام کھدوایا ہے اور یہ خلا سے بھی پڑھا جا سکتاہے ۔معروف عالمِ دین شیخ علی الحکیمی نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ مغرب کی طرف سے مریخ کی سیر کا مشن مارس 1 ناجائز ہے ‘‘ مولوی چونک کر بولا۔ گورے نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا۔ 
میں نے مولوی عبد القدوس کا بازو پکڑا اور اسے گھسیٹتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ کاش اس وقت مجھے معلوم ہوتا کہ خدائی ذرّے (God's Particle)کو کھوجنے والوں میں ہمارے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام بھی شامل تھے تو اس مکّار شخص کا منہ میں بند کر دیتا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved