تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     06-12-2013

دو قوموں کا ایک ترجمان

لاہور میں میراایک دوست تھا نواز‘ کئی بار وہ مجھے مال روڈ پر بڑے ڈاکخانے جی پی او کے پچھواڑے لے گیااور تھڑے کے پار کھلے دفتر کے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا: اس کرسی پر بیٹھ کر راجندر سنگھ بیدی کلرکی کیا کرتے تھے اور جب خود میں نے ڈاکخانے کی نوکری کی تو ساتھ والی کرسی پر بیٹھتا رہا ۔ہم دونوں بیدی کی افسانہ نگاری کے مداح تھے اس لئے ان کی کرسی کو حیرت سے تکتے تھے اور سوچتے تھے کہ کلرکی سے اپنے کیرئر کا آغاز کر نے والا سکھ ممبئی جا کر مرزا غالب‘ دیو داس‘ مدھو متی اور انو رادھا جیسی معیاری فلموں کا مکالمہ نویس کیونکر بن گیا؟ ہم نے ''داغ‘‘ میں ان کے مکالمے سنے تھے۔ ''زندگی کے دودھ میں پانی ملا ملا کر پی رہا ہوں حالت بہت پتلی ہے‘‘۔ ان کی کہانیوں کے مجموعے ''گرم کوٹ‘‘ اور ''لاجونتی‘‘ پڑھے تھے‘ ان کا ناول ''اِک چادر میلی سی‘‘ دیکھا تھا اور ان کو دیکھنے کا اشتیاق تھا مگر وہ ہم سے ہزاروں میل دُور بھارت کے فلمی صدر مقام میں مصروف کار تھے ۔
آبائی گھرموضع ڈلیکے‘ ڈسکہ‘ سیالکوٹ میں تھا۔ 1917ء میں لاہور میں پیدا ہوئے اور1984 ء میں ممبئی میں انتقال کر گئے۔ نواز1995 ء میں چل بسے ۔ میں نقل وطن کرکے امریکہ آ گیا۔ گزشتہ دنوں پتہ چلا کہ نامور کہانی کار کے چھوٹے بھائی واشنگٹن کے علاقے میں میرے ہمسائے ہیں‘ چنانچہ ایک شام ہربنس سنگھ بیدی سے وقت لے کر ان کے مکان پر جا پہنچا۔ گھر میں مسز بیدی اور ان کے بھائی پال موجود تھے جو بیدی صاحب کو جیجا جی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ تا دیر راجندر سنگھ بیدی کی باتیں ہوتی رہیں۔ گفتگو کے دوران انکشاف ہوا کہ ''بڑے بھائی صاحب‘‘ کی تعلیم ادھوری رہ گئی تھی مگر ان کی تخلیقی صلاحیتیں شروع سے ہی مائلِ پرواز تھیں ۔
بیدی خاندان میں تین بھائی اور ایک بہن تھیں اور اس کے سربراہ میاں میر لاہور کے ڈاک خانے کے پوسٹ ماسٹر تھے۔ ہربنس پیسہ اخبار سٹریٹ‘ کوچہ چڑی ماراں اور محلہ ستھاں کا تذکرہ بڑی چاہت سے کرتے ہیں جہاں انہوں نے کرائے کے مکانوں میں ہوش سنبھالی تھی۔1942ء میں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی زبان و ادب میں ما سٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ پروفیسر سراج کا ذکر بھی بڑے احترام سے کرتے ہیں جو کالج کے پرنسپل تھے ۔ہجرت کے بعد ہربنس نے اعلیٰ ملازمتوں کا امتحان پاس کیا اور Defence Lands & Cantonment Service میں کام کرتے رہے۔ 1994ء میں امریکہ آئے‘ ایک صاحبزادی نے ہارورڈ میں تعلیم پائی۔ہربنس چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتے رہے اور 2009ء میں آرلنگٹن ورجینیا میں ریٹائر ہوئے ۔
وہ کہتے ہیں کہ بٹوارے سے پہلے شمالی ہند میں ہندی کا نام و نشان نہیں تھا۔ اردو اور فارسی نصاب میں شامل تھیں۔ 1935ء میں باپ کی وفات کے بعد راجندر نے اپنی ذمہ داریاں محسوس کیں اور کسبِ معاش کے لئے انہی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے جو انہیں ودیعت کی گئی تھیں ۔ادبی دنیا میں‘ جس کے ایڈیٹر مولانا صلاح الدین احمد تھے‘ ان کی پہلی کہانی شائع ہوئی۔ ''مہارانی کا تحفہ‘‘ کو سال کی بہترین کہانی قرار دیا گیا ۔ اب وہ ایک مسلّمہ افسانہ نویس تھے ۔ ہربنس آل انڈیا ریڈیو میں بھائی کی ملازمت کا ذکر دلچسپ انداز میں کرتے ہیں ۔بیدی پرو گرام ایگزیکٹو کی اسامی کے امیدوار تھے جس کے لئے بی اے کی ڈگری لازم تھی۔ ڈائریکٹر جنرل احمد شاہ (پطرس) بخاری نے انہیں زیادہ تنخواہ کے ساتھ کم تر سطح کے پروگرام پروڈیوسر کی جگہ دے دی اور یوں وہ اس مقولے کی منہ بولتی تصویر بن گئے کہ ہندوستان اور پاکستان میں اہلِ قلم اپنے قلم کے بل پر زندگی نہیں گزار سکتے ۔
ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ جو فرد جوانی میں کمیونسٹ نہیں اس کے سینے میں دل نہیں ہے اور جو کوئی بڑھاپے میں کمیونسٹ ہے اس کے سر میں دماغ نہیں ہے ۔لاہور میں راجندر سنگھ بیدی کا زمانہ‘ جوانی کا زمانہ تھا ۔وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی سر گرمیوں میں حصہ لیتے تھے جس کے سیکرٹری احمد ندیم قاسمی تھے ۔فیض احمد فیض سے ان کا یارانہ تھا ۔ یوں بھی ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے دوسری جنگ عظیم میں انگریزی سامراج اور بٹوارے کی صورت میں پاکستان کے وجود کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا۔ انجمن‘ بر صغیر کی کمیونسٹ تحریک سے متاثر تھی ۔
ہربنس سنگھ بیدی ''بھائی صاحب‘‘ کی تخلیقی سرگرمیوں کے بیان میں کہتے ہیں کہ ریڈیو کی ملازمت تک ان کی آمدنی غیر یقینی تھی۔ ناشر سے پیسے مانگتے تھے تو وہ جواب دیتے تھے ہم آپ کی ''مشہوری‘‘ میں اضافہ کر رہے ہیں معاوضہ کیسا؟ 1941ء میں مرکزی حکومت کی نوکری ملی تو گھر میں لہر بہر ہوگئی ۔وہ ریڈیو کے لاہورسٹیشن سے وابستہ تھے ۔ بر صغیر کی تقسیم تک وہ کئی اور کہانیاں لکھ چکے تھے اور ہندوستان میں ان کا طوطی بولتا تھا۔ سعادت حسن منٹو‘ اوپندر ناتھ اشک اور ا حمد ندیم قاسمی ان کے دوست بھی تھے اور لکھنے میں حریف بھی‘ وہ سب ریڈیو کے دہلی سٹیشن سے منسلک تھے ۔ یہ ریڈیو ڈرامے کا دور تھا۔ منٹو‘ اشک اور قاسمی کی طرح بیدی نے بھی ریڈیو ڈرامے لکھے جو 'سات کھیل‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ بیدی نے ایک ناولٹ لکھا۔ ''اک چادر میلی سی‘‘۔ انگریزی‘ کشمیری اور بنگالی میں اس کے ترجمے ہوئے۔ پاکستان میں پہلی خاتون ہدایت کارسنگیتا نے اس پر ایک فیچر فلم بنائی ''مُٹھی بھر چاول‘‘۔ 1986ء میں ہدایت کار سُکھ ونت دادا نے بھارت میں بھی اس کہانی پر ایک فلم بنائی۔ یہ اعزاز بیدی کے حصے میں آیا کہ ان کا ناول دو متحارب ملکوں میں فلم سازی کا موضوع بنا۔ یہ بٹوارے سے پہلے کا پنجاب ہے جس میں سکھ بکثرت ہیں ۔ کہانی جہیز کی لعنت اور کم سنی کی شادی کا احاطہ کرتی ہے۔ ہربنس بتاتے ہیں کہ بھائی صاحب میں انسان دوستی کی فراوانی تھی ۔
افسانہ ''لاجونتی‘‘ ان مسائل پر روشنی ڈالتا ہے جو بٹوارے کے بطن سے پیدا ہوئے ۔بیدی نے اس موضوع پر قلم اٹھایا تھا جو قتل و غارت سے بھی زیادہ دردناک تھا ۔یہ دونوں جانب ان عورتوں کا مسئلہ تھا جنہیں اغوا کر لیا گیا یا زبردستی روک لیا گیا۔ لاجونتی‘ سندرلال کی سندر بیوی تھی جو واپس آکر دیوی تو بن گئی مگر بیوی نہ رہی۔ ''لاجونتی نے اپنا سر سندر لال کی چھاتی پر سرکاتے ہوئے کہا ۔نہیں اورپھر بولی۔وہ مارتا نہیں تھا پر مجھے اس سے زیادہ ڈر آتا تھا۔تم مجھے مارتے بھی تھے پر میں تم سے ڈرتی نہیں تھی۔اب تو نہ ما رو گے؟‘‘ سندر لال کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور اس نے بڑی ندامت اور بڑے تأسف سے کہا ۔نہیں دیوی‘ ''اب نہیں‘نہیں ماروں گا‘‘... ''دیوی؟‘‘ لاجونتی نے سوچا اور وہ بھی آنسو بہانے لگی۔
تقسیم کے بعد بیدی نے سرکاری نوکری چھوڑ دی اور ممبئی جا کر فلموں کی مکالمہ نگاری شروع کردی۔ اس طرح انہیں ''بڑی بہن‘‘ کے مکالموں کا کریڈٹ ملا۔ اگر چہ فلمی مکالمہ نویس کی حیثیت سے ان کی شہرت ''داغ‘‘ سے شروع ہوئی۔ 1954ء میں انہوں نے بلراج سا ہنی‘ گیتا بالی اور امر کمار جیسی ترقی پسند شخصیتوں کے ساتھ مل کرCine Cooperative کے نام سے ایک فلم کمپنی قائم کی‘ جس نے 'گرم کوٹ‘ بنائی اور بیدی کو فلم کا سارا مسودہ لکھنے کا موقع ملا۔پھر انہوں نے دستک‘ پھاگن‘ نواب صاحب اور آنکھوں دیکھی‘ میں ہدایت کاری کے جوہر بھی دکھائے ۔کہانیوں کے مجموعوں میں دانہ و دام‘ گرہن‘ کوکھ جلی‘ اپنے دکھ مجھے دے دو اور مکتی بودھ شامل ہیں ۔رحلت سے پہلے وہ خاصے خوشحال تھے مگر ہربنس سنگھ بیدی کو شک ہے کہ انہوں نے ممبئی میں اپنا گھر بھی بنایا تھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved