تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     06-12-2013

گارشیا کا بوڑھا کرنل اورمیرے بچوں کا خواب !

پچھلے کچھ عرصے سے میں نے یوسف بھائی سے زیادہ ملنا شروع کر دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ ہے۔
محمد یوسف کی اسلام آباد میں کتابوں کی سب سے پرانی دکان ہے۔ میں نے یوسف بھائی کو بتایا کہ میرے بچے چاہتے ہیں کہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد کتابوں کی دکان کھولوں۔کچھ اپنے تجربات میرے ساتھ شیئر کریں ۔ یوسف بھائی نے طویل آہ بھری اور بولے کیا یاد دلا دیا ۔ کہاں گئے کتابیں پڑھنے والے اور ان کے شیدائی۔ اب تو کوئی کتاب نہیں پڑھتا۔ میں نے دلچسپی ظاہر کی تو بتانے لگے کہ جنرل ضیا انہیں ایوان صدر بلایا کرتے تھے۔ وہ ڈبوں میں نئی کتابیں لے کر ایوان صدر کی سیڑھیاں چڑھ جاتے۔ جنرل ضیا کو جونہی پتہ چلتا کہ یوسف آگیا ہے تو وہ سب کام چھوڑ کر آجاتے۔ کتابیں شیلف میں لگا دی جاتیں۔ جنرل ضیا ان کتابوں کو دیکھتے، اوراق اُلٹتے پلٹتے اور پھر ان میں سے چند کتابیں چن لیتے۔ بولتے‘ جی یوسف میاں! کتنا بل بنا۔ جیب سے پیسے نکالتے‘ اگر بل پانچ ہزار چار سو روپے بنتا تو کہتے یوسف میاں! چار سو روپے تو رعایت کر دو ۔ یوں جنرل ضیا چار سو روپے کی رعایت کرا کے کتابیں رکھ لیتے۔ وہ رعایت کرانا نہ بھولتے۔ 
ایک دن وزیراعظم ہائوس سے فون آیا کہ بینظیر بھٹو ان کی دکان پر کتابیں خریدنے آنا چاہتی ہیں۔ ہر طرف سکیورٹی پھیل گئی۔ تھوڑی دیر بعد آئیں، کچھ کتابیں لیں۔ یوسف بھائی نے احتراماً کہا کہ بل رہنے دیں۔ بولیں میں کتابوں کی عاشق ہوں، میں ایک خریدار کے طور پر آئی ہوں، نہ کہ ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے۔ ایک دن انہیں ایک بندہ ملنے آیا اور اس نے ایک فہرست ان کے ہاتھ میں تھمائی اورکہا آصف زرداری نے جیل سے بھجوائی ہے۔ کتابوں کے نام پڑھ کر وہ مزید حیران ہوئے کہ کبھی نہ سوچا تھا کہ زرداری صاحب اور وہ بھی جیل میں بیٹھ کر ایسی کتابوں کی فرمائش کریں گے۔ یوسف بھائی کا کہنا تھا کہ اگر پاکستانی سیاستدانوں میں سے کسی نے برٹرینڈ رسل کو پورا پڑھا ہے تو وہ زرداری ہیں۔ اس طرح اسلامک انسائیکلو پیڈیا کی سات جلدیں خریدیں جن کی قیمت گیارہ لاکھ روپے تھی۔ 
یوسف بھائی کو غلام مصطفیٰ جتوئی یاد آئے جو انہیں اپنے اسلام آباد گھر میں بلا کر کتابیں خریدتے تھے۔ ایک اور سیاستدان امجد فاروق کھوسہ سب سے زیادہ کتاب پڑھتے ہیں اور حج پر بھی گئے تو وہاں سے فون کیا کہ میرے لیے فلاں نئی کتابیں رکھ لینا کہیں بک ہی نہ جائیں۔ فاروق لغاری ایک اور سیاستدان تھے جو یوسف بھائی کی دکان پر جا کر کتاب خریدتے تھے اور مستقل قاری تھے۔ ان کے پاس اپنی اعلیٰ لائبریری بھی تھی۔ 
بھارتی وزیراعظم واجپائی پاکستان آئے تو انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں کوئی کتابوں کی دکان ہے؟ وہ کتابیں خریدنا چاہتے ہیں۔ انہیں مسٹر بکس لے جایا گیا ۔ بھارتی وزیراعظم نرسیما رائو جب وزیر خارجہ تھے تو وہ بھی اس وقت دورے میں سے وقت نکال کر کتابیں خریدنے آئے۔ نرسیما رائو نے بہت ساری کتابیں خریدیں ۔ تاہم اس وقت دکان میں بجلی نہ تھی اور شدید گرمی تھی ۔ اس کے باوجود گھنٹہ لگا کر کتابیں پسند کیں اور یوسف بھائی کو جاتے جاتے کہا آپ نے میرا پسینہ نکال دیا ہے۔ میں نے کہا‘ یوسف بھائی آپ نے بھارتی وزیراعظم اور وزیرخارجہ سے پیسے لے لیے، جانے دیتے ؟ وہ ہنس پڑے اور بولے خیال نہیں آیا۔ 
میں نے پوچھا اور کون کون کتاب خریدنے آتا ہے تو یوسف بھائی بولے اعتزاز احسن‘ مولابخش چانڈیو کتاب پڑھتے ہیں، ڈاکٹر صفدر عباسی بھی اچھی کتابیں پڑھنے کے شوقین ہیں۔ میں نے پوچھا‘ یوسف بھائی! وزیراعظم نواز شریف پہلے بھی دو دفعہ وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ کبھی ان کا چکر لگا ہے کتاب وغیرہ خریدنے کے لیے؟ تو وہ بولے کہ میاں صاحب کو کتاب کا شوق نہیں ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے بھی کتاب نہیں خریدی۔ بولے انہوں نے موجودہ وزیروں کو کبھی اپنی دکان میں کوئی کتاب کھولے نہیں دیکھا؛ تاہم اچانک یاد آیا اور بولے ہاں خرم دستگیرخان واحد وزیر ہیں جو کتاب شوق سے پڑھتے ہیں وگرنہ ان کی پارٹی کے دیگر لیڈروں کو کتاب سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ 
میں نے اپنے دوست سہیل وڑائچ کے انداز میں پوچھا ''یوسف بھائی! کتابوں کی دکانوں پر چوریاں تو ہوتی ہوں گی؟یوسف بھائی! زمانہ طالب علمی میں، میں نے بھی کچھ کتابیں اس طرح چوری کی ہوئی ہیں‘‘۔ انہوں نے مجھے تفصیلات بتانا شروع کی تو میں ششدر رہ گیا۔ ایک اہم سیاستدان کا نام بتانے سے گریز کرتے ہوئے ان کے بارے میں انکشاف کیا کہ وہ پچھلے دس برس سے ان کی دکان سے ہر نئی اور اچھی کتاب چوری کر کے لے جاتے ہیں ۔ وہ گرمیوں اور سردیوں میں کوٹ پہن کر آتے ہیں اور چپکے سے کتاب اس کی جیب میں ڈال کر چلے جاتے ہیں۔ ان کی کیمرے پر ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔ میں نے کہا یوسف بھائی! وہ دس سال سے کتابیں چوری کرتے ہیں اور آپ خاموش رہتے ہیں ۔ مسکرا کر بولے ان کی بیوی دس برس قبل ان کے پاس آئی تھی اور کہا تھا کہ ان کے میاں کو کتابیں چوری کر کے پڑھنے کی عادت ہے۔ معاملہ پیسوں کا نہیں ہے، کچھ نفسیاتی معاملہ ہے۔ آپ نے انہیں کبھی کچھ نہیں کہنا ۔ شام کو آپ کو اس کتاب کے پیسے مل جایا کریں گے۔ یوسف بھائی بولے کہ جس دن وہ کتاب چوری کر کے لے جاتے ہیں، اسی شام ان کی بیوی ڈرائیور کے ہاتھ پیسے بھجوا دیتی ہیں۔ میں نے کہا کمال اس سیاستدان کا نہیں ہے جو دس برس سے کتاب چوری کر کے لے جاتا ہے بلکہ اس بیوی کا ہے جو دس برس سے انہیں پیسے بھجوا دیتی ہے۔ 
یوسف بھائی بولے پاکستانی کتاب کے شوقین نہیں رہے۔ بھارتی پاکستانیوں سے زیادہ کتابیں پڑھتے ہیں۔ اکثر بھارتی جب اسلام آباد آئیں گے تو وہ کتاب خریدنے ضرور آئیں گے۔ جب کہ پاکستانی والدین اپنے بچوں کے لیے اگر سٹیشنری اور سکول کی کتابیں لینے آئیں گے تو وہ اپنے بچوں کو کوئی کتاب خرید کر نہیں دیں گے۔ ان کے نزدیک یہ سب فضول خرچی ہوگئی ہے۔ مسئلہ مہنگائی کا نہیں رہا کیونکہ وہ والدین اور بچے دکان میں ہی پلان کر رہے ہوتے ہیں کہ یہاں سے نکل کر انہوں پیزا یا برگر کھانے جانا ہے۔ وہ دو ہزار روپے کا پیزا کھا لیں گے لیکن اپنے بچوں کو دو تین سو روپے کی کتاب خرید کر نہیں دیں گے۔ میں نے کہا یوسف بھائی آپ تو مجھے ڈرا رہے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ میں بوڑھا ہو کر کتابوں کی دکان نہ کھولوں اور اپنے بچوں کی فرمائش پوری نہ کروں۔ 
شام کے اندھیرے پھیلتے دیکھ کر میں یوسف بھائی کے دفتر سے نکل تو آیا ہوں لیکن مجھ سے چلا نہیں جارہا کیونکہ میرے بچے تو میرے لیے بڑھاپے کا پلان بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اپنے بچوں کے منصوبے کو ناکام ہوتے دیکھ کر مجھے اس ڈپریشن میں عظیم ادیب گیبریل گارشیا کا ناول No one writes to the Colonel یاد آیا۔ ایک ایسے غریب اور بوڑھے کرنل کی کہانی جو کولمبیا کی سو دن جنگ لڑا تھا‘ اس سے پندرہ برس قبل وعدہ کیا گیا تھا کہ اسے ایک دن پنشن ملے گی جس کا وہ ساری عمر انتظار کرتا ہے ۔ غربت اور بھوک سے لڑتا یہ بوڑھا کرنل اپنی بوڑھی بیوی کے ساتھ صبح شام انتظار کرتا ہے کہ کس دن مان لیا جائے گا کہ اس نے واقعی جنگ لڑی تھی لہٰذا وہ پنشن کا حقدار تھا لیکن وہ تار کبھی نہیں آتا ۔ اس دوران وہ سیاسی تشددمیں مرنے والے اپنے اکلوتے بیٹے کی کچھ چیزیں بیچ کر گزارا کر تا رہتا ہے۔
اسلام آباد کی سرد شام میں طویل واک کرتے ہوئے سوچ رہا ہوں کیا مجھے بھی گارشیا کے بوڑھے کرنل کی طرح انتظار کرنا چاہیے کہ شاید کسی دن لوگ کتابیں پڑھنا شروع کر دیں گے اور میں کتابوں کی دکان کھول سکوں گا تاکہ جہاں میرا بڑھاپا محفوظ ہو گا وہیں میرے بچے بھی‘ میرے بارے میں کی گئی اپنی پیش گوئی کے پورے ہونے پر خوش ہوجائیں گے کہ دیکھا وہ نہ کہتے تھے کہ ان کا باپ ریٹائر ہو کر کتابوں کی دکان ہی کھولے گا۔ لگتا ہے مجھے بھی ساری عمر گارشیا کے بوڑھے کرنل کی طرح انتظار کرنا پڑے گا ۔ یہ اور بات ہے میرے اس انتظار کا انجام بھی وہی ہوگا جو گارشیا کے کرنل کا ہوا تھا! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved