تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     06-12-2013

وزیراعظم کا دورۂ کابل

وزیراعظم نوازشریف کا دورۂ کابل کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ پہلی مرتبہ کابل گئے۔ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت میں اہم تبدیلیاں آئی ہیں۔ 2014ء افغانستان میں تبدیلی کا سال ہوگا۔ موجودہ حکومت کا اس بات پر مکمل یقین ہے کہ اقتصادی صورت حال ٹھیک کرنے کے لیے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر امن ضروری ہے۔ کشمیر اور افغانستان کے حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی پر فوجی سوچ غالب رہی ہے۔ ہندوستان اور افغانستان کے بارے میں وزیراعظم واضح سوچ رکھتے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی کی جائے تاکہ تمام ممکنہ وسائل اقتصادی ترقی پر مرکوز کیے جائیں۔ 
پاکستان اور افغانستان کا رشتہ بہت ہی خاص نوعیت کا ہے۔ چترال سے چمن تک سترہ سو کلو میٹر بارڈر ہے۔ افغانستان کی بیشتر درآمدات اب بھی کراچی کے ذریعے آتی ہیں گو کہ ہندوستان چاہ بہار کی بندرگاہ بنا کر متبادل راستہ دکھا رہا ہے۔ دریائے کابل میں طغیانی آئے تو اثر پاکستان تک آتا ہے پاک افغان سرحد کچھ جگہ ایسے مقامات سے گزرتی ہے کہ آدھا گائوں پاکستان میں آتا ہے اور آدھا افغانستان میں۔ یہ ہمسایہ ملک اپنی بیشتر غذائی ضروریات پاکستان سے درآمد کرتا ہے۔ باہمی تجارت ڈھائی ارب روپے ہے اور آسانی سے دوگنی ہو سکتی ہے۔ لاکھوں افغانی اب اردو بولتے ہیں۔ پاکستانی اب افغانی نان شوق سے کھاتے ہیں اور افغانستان کرکٹ کے میدان میں آ گیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مسئلے بھی ہیں اور رنجشیں بھی۔ افغانستان کو عرصے سے شکایت ہے کہ پاکستان کی ایجنسیاں اندرونی معاملات میں مداخلت کرتی ہیں اور یہ کہ پاکستان صرف پشتونوں کے حقوق کا علم بردار ہے۔ اس تاثر کو امریکہ اور ہندوستان نے مزید اجاگر کیا۔ بین الاقوامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو شمالی اتحاد کی پوزیشن مضبوط ہے۔ امریکہ‘ ہندوستان‘ ایران اور روس کے ساتھ شمالی اتحاد والوں کے دیرینہ مراسم ہیں۔ 
یہ حقیقت ہے کہ عالمی تعلقات میں نہ دوست دائمی ہوتے ہیں اور نہ دشمن۔ افغانستان پر نظر رکھنے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان گزشتہ ایک دو سال سے شمالی اتحاد والوں سے تعلقات بہتر کرنے کی ازبس کوشش کررہا ہے۔ اس دوستی کے سفر کے بارے میں بھی صدر کرزئی کے دل میں بے جا شکوک تھے۔ حالانکہ پاکستان صرف اور صرف اس تاثر کو دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ افغانستان میں کسی مخصوص دھڑے کے مفادات کا نگہبان ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں اور یہ بات انہوں نے کابل میں کہی۔ 
دوسری طرف ہندوستان افغان طالبان کے علاوہ پاکستانی طالبان سے بھی رابطے میں ہے۔ اسلام آباد میں یہ خبر عام ہے جب لطیف اللہ محسود کو افغانستان میں گرفتار کیا گیا تو موصوف جلال آباد میں ایک اہم ہندوستانی شخصیت سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے اور افغان ایجنسیاں انہیں سکیورٹی فراہم کر رہی تھیں۔ اگر امریکی لطیف اللہ کو گرفتار نہ کرتے تو شاید ہمیں اُس کے افغانستان جانے کا علم بھی نہ ہوتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکنوں کو لطیف اللہ کو پکڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ تھی کہ حکیم اللہ محسود تک پہنچنا ازبس ضروری تھا کیونکہ اس نے دو سال پہلے خوست میں امریکی خفیہ ایجنٹوں کے قتل میں مدد کی تھی۔ لطیف اللہ کو گرفتار کرنے کی دوسری وجہ اسلام آباد کو خوش کرنا بھی ہو سکتی ہے۔ موجودہ حالات کی نزاکت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان کو زیادہ ناراض نہ کیا جائے۔ لطیف اللہ اپنے امیر کی روزمرہ کی نقل و حرکت سے خوب واقف تھا۔ 
اسلام آباد اور کابل کے شکوے شکایتیں دوطرفہ ہیں۔ کابل کو شکایت ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کی سرگرمیاں کیوں نہیں روکتا۔ اسلام آباد کو شکایت ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا نیا امیر کُنٹر میں بیٹھا ہے۔ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے بے حد ضرورت ہے کہ یہ شکوے شکایتیں عملی طور پر دور کی جائیں اور اس بات کے لیے خلوص نیت اور باہمی تعاون ضروری ہے۔ 
پاکستان کی کچھ دینی جماعتوں کا خیال ہے کہ 2015ء کے بعد کابل میں طالبان کی حکومت ہوگی۔ معروضی طور پر دیکھا جائے تو یہ امکان قرین قیاس نہیں افغانستان کے حالات اب پہلے والے نہیں ہیں۔ سوویت یونین کو وہاں سے بھاگنے کی بہت جلدی تھی۔ امریکہ کو ایسی کوئی جلدی نہیں اور اس بات کا بھی امکان کم ہے کہ نئی تشکیل شدہ افغانی فوج طالبان کے سامنے صابن کی جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گی۔ امریکہ نے اس فوج کی ٹریننگ اور اسلحہ کے لیے ساٹھ ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے ہیں اور اب اسلام آباد کو بھی اس بات کا ادراک ہو چلا ہے کہ شاید کابل پر طالبان کی حکومت پاکستانی طالبان کے حوصلے مزید بلند کردے۔ 
کابل میں ایک اور دلچسپ ڈویلپمنٹ ہوئی ہے صدر کرزئی نے ڈھائی ہزار لوگوں پر مشتمل لویہ جرگہ بلایا کہ امریکی اڈوں کے بارے میں فیصلہ کیا جاسکے۔ اس جرگہ کی اکثریت نے 2014ء کے بعد افغانستان میں امریکی اڈوں کی حمایت کی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پاکستان امریکی اڈوں کا مخالف تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ جب تک افغانستان میں غیر ملکی افواج ہیں وہاں مزاحمت جاری رہے گی اور امن نہیں آئے گا۔ اب کابل میں اپنے دورے کے دوران وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ امریکی اڈوں کے بارے میں افغان بھائی جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں قابل قبول ہوگا۔ پاکستانی پوزیشن میں یہ واضح تبدیلی ہے۔ صدر کرزئی اڈوں کے بارے چند شرائط رکھتے ہیں۔ اس لیے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ صدر کرزئی کی شرائط اور تذبذب کی دو واضح وجوہات نظر آتی ہیں۔ ایک تو افغانستان میں اپریل میں انتخابات ہو رہے ہیں اور دوسرے صدر کرزئی طالبان کو بھی خوش کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کی مثال اُس شوہر کی طرح ہے جس کی دو بیویاں ہوں اور دونوں بہت ڈاہڈی قسم کی ہوں۔ اگر 2014ء کے بعد امریکی محدود تعداد میں افغانستان میں موجود رہتے ہیں تو افغانستان میں خانہ جنگی کا امکان خاصا کم ہو جائے گا اور پاکستانی پوزیشن میں تبدیلی کی بڑی وجہ یہی ہے۔ 
وزیراعظم نوازشریف افغانستان کے ساتھ تعلقات درست کرنے میں مخلص نظر آئے اور موجودہ حالات میں فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی ان کے نقطۂ نظر کو وقعت دے گی۔ لیکن صدر کرزئی جو بہت متلون مزاج شخصیت کے حامل ہیں اس دفعہ بہت ہی شیریں لہجہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ اپریل کے انتخابات میں ان کے بھائی قیوم کرزئی بھی امیدوار ہیں اور افغانی ووٹر خاصی تعداد میں اب بھی پاکستان میں ہیں اور پھر طالبان سے رابطے دوبارہ استوار کرنے کے لیے ملا عبدالغنی برادر کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان نے اس معاملہ میں مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے لیکن کیا افغانستان بھی پاکستان کو ملا فضل اللہ تک رسائی دے گا یہ بات ان کہی رہ گئی۔ 
دونوں ملک ایک دوسرے کے لیے بے حد اہم ہیں پاکستان کے لیے ازبس ضروری ہے کہ مغربی بارڈر پر آمدورفت اس کے مکمل کنٹرول میں ہو۔ افغانستان نے ہندوستان کے ساتھ برّی راستے سے تجارت کرنی ہے تو اس کے لیے پاکستانی سرزمین ناگزیر ہے۔ شدت پسندی پر غلبہ پانے کے لیے دونوں ممالک کا تعاون درکار ہے۔ پاکستان اقتصادی اور تعلیمی شعبوں میں افغانستان کی مدد کر سکتا ہے۔ افغانستان کے ذریعہ پاکستان میں گیس اور بجلی دونوں درآمد ہو سکتی ہیں اور یہ مکمل امن کی صورت میں ہی ممکن ہو سکے گا۔ 
دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وقتی مفادات حاصل کرنے کی بجائے دیرپا دوستی کی بنیاد رکھیں۔ یاد رہے کہ علامہ اقبالؒ کے مرقد کے لیے سنگ مرمر کابل سے آیا تھا۔ محبت کے اس رشتے سے شک کو باہر نکال پھینکنے کی ضرورت ہے۔ اس سے دونوں عوام کو بے حد فائدہ حاصل ہوگا۔ خطے میں امن فروغ پائے گا مگر اس امر کے حصول کے لیے بہت محنت درکار ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved