امن کے معنی ہیں :''دل ودماغ اور ماحول سے خوف کا زائل ہونا، نفس کا اطمینان ، ذہن کا سکون اور دل کا قرار‘‘، امن کے مقابل دہشت ہے، جس کے معنی ہیں:''خوف کا طاری ہونا‘‘، اسی کو آج کل Terrorکہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی آدم کے لئے نعمتِ وجود، نعمتِ حیات اور بطورِخاص مسلمانوں کے لئے نعمتِ ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت ''امن ‘‘ہے۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ نے جب قریشِ مکہ کو دعوتِ توحید دی، تو فرمایا:''انہیں چاہئے کہ اس گھر (بیت اللہ) کے رب کی عبادت کریں، جس نے انہیں بھوک میں کھانا کھلایااور (ہر قسم کے) خوف سے امن عطا کیا، (قریش:4)‘‘۔اس سے معلوم ہواکہ بقائِ حیات کے لئے خوراک انسان کی بنیادی ضرورت ہے، لیکن جب خوف طاری ہو، توانسان لذیذ ترین اور محبوب ترین خوراک کو بھی حلق سے اتارتے ہوئے کہتا ہے کہ زہر مار کررہا ہوں۔شدید پیاس کی حالت میں پانی حلق کا کانٹا بن جاتاہے، بڑی سے بڑی نعمت کی لذت بھی ہوا ہوجاتی ہے۔ انسان کو دولت کے انبار جمع کرنے کی بڑی چاہت ہوتی ہے، لیکن خوف کے عالم میں یہی دولت عذاب بن جاتی ہے اور اس کے چھن جانے کا روگ کبھی کبھی جان لیوا ہوجاتاہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اہلِ مکہ کے لئے امن اور وسعتِ رزق کی دعافرمائی تھی اور اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو بھی جائے امان قرار دیا۔ اﷲتعالیٰ نے سورۃ النحل:112 میں ایک آئیڈیل بستی کی مثال بیان فرمائی اور اس کی خصوصی صفت بھی امن واطمینان اور وسعت رزق بیان فرمائی اور پھر فرمایا کہ جب اس پُرامن بستی والوں نے انعاماتِ الٰہیہ کی ناشکری کی تو اس کے وبال کے طور پر اُن پر خوف اور بھوک کو مسلط فرمادیا۔
آج پاکستان اِسی بدامنی اور فساد کا شکار ہے ، آئے روز بے قصور انسانوں کی جان ومال اور آبرو کی حرمتیں سرِ عام پامال ہورہی ہیں ، کہیں مذہب ومسلک کے نام پر ، کہیں زبان اور قومیت کے نام پر اور کہیں علاقائیت کے نام پر۔ اور بعض لوگ اتنے جری ہوچکے ہیں کہ اس ظالمانہ قتل وغارت کی ذمے داری بھی قبول کرتے ہیں۔انہوں نے اپنے آپ کو کسی شریعت یا آئین وقانون کا پابند سمجھنے کے بجائے خود کو معیار ومدارِ شریعت بنالیا ہے، ان کے نزدیک حق وہی ہے، جسے وہ حق سمجھیں ۔ ناحق قتل اور ظلم وفساد پراُنہیں نہ کوئی رنج وملال ہے اور نہ ہی ندامت، بلکہ ماضی کی اُن اَقوام کی طرح ، جن کا نام ونشان ان کی سرکشی کے باعث صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا، اپنے ان کرتوتوں پراظہارِ تفاخُر کرتے ہیں ۔
ہمارے نزدیک اس بدامنی اور فساد کی تخم ریزی (Seeding)کا عمل تین دہائیوں سے زیادہ پر محیط ہے ، بدقسمتی سے ہمیں اس پورے دور میں ایسے حکمران ملے ، جن کی ترجیح اول اپنا اقتدار رہا اور قوم وملک کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ، وطن کی سرزمین کو دنیا بھر کے جاسوسی اداروں کی آماجگاہ بنادیا، ڈالروں کے عوض قومی اور ملکی خودمختاری بھی گروی رکھ دی گئی اور عوام کی جان ومال اور آبرو کا تحفظ صرف آئین وقانون کی کتابوں کی زیب وزینت بنا رہا۔ حکمران طبقہ ، خواہ ان کا تعلق حزب اقتدارسے ہو یا حزبِ اختلاف سے ، ایک دوسرے کے ساتھ منافقت اور پوری قوم کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں ۔ وہ خود خوف میں مبتلاہیں ، جرأت وہمت اور عزیمت واستقامت کا فقدان ہے، وہ امن کی خیرات اُن سے مانگ رہے ہیں، جو آتش بہ جاں ، آتش بداماں ،آتش بدہن اور آتش بدوش ہیں ، ان کے پاس آگ لگانے اور جلانے کا سامان تو ہے، آگ بجھانے کا نہیں ہے ۔ پوری انسانیت کی تاریخ گواہ ہے کہ امن کبھی خیرات وسوغات میں نہیں ملتا۔ تاجدارِ کائنات رحمۃ للعالمین سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ نے امن اُس وقت قائم کیا، جب آپ اپنے ان تمام دشمنوں سے انتقام لینے کی پوزیشن میں تھے ، جنہوں نے آپ ﷺ اور آپ کے جاںنثار صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پر ظلم کے پہاڑ توڑے ، ترکِ وطن پر مجبور کیااور پھر دارالہجرت مدینہ منورہ میں بھی آپ کو چین سے بیٹھنے نہ دیا ۔ تین مرتبہ بڑے بڑے لشکروں کے ساتھ یلغار کی اور آخری بار عالمِ عرب کی ساری اسلام دشمن قوتوں کو مجتمع کرکے مدینۂ منور ہ پر چڑھائی کی ، جسے غزوۂ خندق یا غزوۂ احزاب کہتے ہیں ۔اس معرکے کی شدت کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:''جب کفار تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے (یعنی ہر جانب سے )تم پر حملہ آور ہوئے اور جب (دشمن کی دہشت سے) تمہاری آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم اللہ (کی نصرت کے نزول )کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے ، یہی وہ مقام تھا، جہاں مومنوں کی آزمائش کی گئی تھی اور ان کو شدت سے جھنجھوڑ دیا گیاتھااور جب منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (شک) کی بیماری تھی ، یہ کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے (نصرت کا ) جو وعدہ کیا تھا ، وہ محض دھوکا تھا،(الاحزاب:10-12)‘‘۔اللہ کے بندوں نے جب اپنی تمام اَفرادی قوت اور مادی وسائل کو مجتمع کرکے اس کے دین کی حفاظت میں جھونک دیا اور ایثار وقربانی میں کوئی کسر نہ چھوڑی ، تواللہ تعالیٰ کا کرم متوجہ ہوا ، اسبابِ غیب سے اس کی تائید مسلمانوں کو حاصل ہوئی اور دشمن جو حتمی فتح کا منظر کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا، ناکام ونامراد ہوکر واپس پلٹ گیا، اللہ تعالیٰ نے اس منظر کو یوں بیان فرمایا: ''اے ایمان والو! تم اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو ، جب تم پر کفار کے لشکر حملہ آور ہوئے ، تو ہم نے ان پر ایک ایسی آندھی اور ایسے لشکر بھیجے ، جنہیں تم نے (اس سے پہلے )کبھی دیکھا نہ تھا اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے، (الاحزاب:9)‘‘۔کتبِ سیرت میں لکھا ہے کہ یہ محاصرہ ایک ماہ تک جاری رہا۔
پھر ایک دن اچانک شدید زناٹے دار ٹھنڈی ہوائیں چلیں، اس طرح کی طوفانی آندھی کو مدینہ منورہ میں ''بادِ صبا ‘‘ کہتے تھے ، جو شمال سے جنوب کی جانب چلتی تھی اور اس کے برعکس چلنے والی ہوا کو ''بادِ دَبُور ‘‘کہتے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بادِ صباسے میری مدد کی گئی اور قومِ عاد کو بادِ دبور سے ہلاک کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں مشرکینِ مکہ کے خیمے اکھڑ گئے ، اونٹ اور گھوڑے بِدَک کر بھاگ گئے ، دیگیں الٹ گئیں اور وہ ناکام ونامراد ہوکر واپس لوٹ گئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی تائید اور نصرت تھی ، لیکن یہ نصرتِ الٰہی انہیں نصیب ہوتی ہے ، جو سود وزیاں سے بے نیاز ہوکر اپنی ساری متاعِ جان ومال کو اللہ کے دین پر قربان کرنے کے لئے میدانِ عمل میں اتر آتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''کیاتم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ تم (یونہی آزمائش کے مرحلے سے گزرے بغیر) جنت میں داخل ہوجاؤگے؟، حالانکہ ابھی تک تم پر ایسی آزمائشیں نہیں آئیں جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھیں، ان پر آفتیں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ (اس قدر ) جھنجھوڑ دئیے گئے کہ (اس وقت کے) رسول اور ان کا ساتھ دینے والے اہلِ ایمان پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟، سنو! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے، (البقرہ:214)‘‘، یعنی تم نے اپنے حصے کا کام کردیا اور اپنا سب کچھ راہِ حق میں قربان کرنے کے لئے میدانِ عمل میں نکل آئے ہو اوراب تم نصرتِ الٰہی کے حق دار ہو۔ پس معلوم ہواکہ اہلِ ایمان کو اللہ کی نصرت اور اس کی جانب سے امن وسلامتی کی نعمت حاصل کرنے کے لئے ابتلا وآزمائش اور عزیمت واستقامت کے مرحلے سے گزرنا پڑتاہے اور اس کے لئے قوتِ ایمانی درکار ہوتی ہے، جبکہ ہمارے عہد کے حکمرانوں نے امن کا راستہ اس میں ڈھونڈا ہے کہ ہر ظالم وجابر کے سامنے ڈھیر ہوجاؤ، اُن کو جان کی امان مل جائے ، خواہ ملک کا امن وسلامتی غارت ہوجائے۔یہی وجہ ہے کہ'' امن ہم سے روٹھ گیاہے‘‘۔