تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     07-12-2013

12دسمبر کا انتظار

پاکستان کی تاریخ میں اقتدار پر ساٹھ دہائیوں سے قابض طبقات نے کسی فرد کی ریٹائرمنٹ کا اس شدت سے انتظار نہیں کیا ہو گا‘ جس قدر پل پل گنتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کا کیا جا رہا ہے۔ ہر گزرتا پل ایک قیامت ہے، سکھ کا سانس نہیں ملتا، نہ جانے صبح عدالت کے دروازے کھلتے ہی کون سی بددیانتی، بے اصولی اور لاقانونیت پر بحث کا آغاز ہو جائے اور بڑی بڑی تنی ہوئی گردن والوں کو عدالت کے روبرو کھڑا ہونا پڑے۔ سیاست دان، بیوروکریٹ اور جرنیل، کون ہے جو نجی محفل میں صرف ایک بات کا گلہ کرتا نظر نہیں آتا کہ ہمارے کام میں مداخلت ہو رہی ہے۔ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے اور یہ حدود آئین اور قانون مرتب کرتے ہیں۔ سبھی اس حد کو صرف عدلیہ پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ منطق ہے جس کی گونج ایک بددیانت اور قانون سے ماورا معاشرے میں ہمیشہ سنائی دیتی ہے۔ لیکن اس بے ہنگم شور میں عدالت کی کرسی پر بیٹھے کسی نہ کسی مردِ حُر کی گرجدار آواز ہر دور اور ہر معاشرے میں ضرور سنائی دیتی رہی ہے۔ امریکہ کی سپریم کورٹ کی عمارت پر سنگ مرمر کی دیوار میں کھدی اور سونے کے پانی سے لکھی چیف جسٹس جان مارشل کے 1803ء کے ایک فیصلے کی یہ تحریر موجود ہے: "It is emphatically the province and duty of the judicial department to say what the law is" یعنی ''یہ بنیادی طور پر عدلیہ کا ہی دائرہ کار اور فرض ہے کہ وہ بتائے کہ دراصل قانون کیا ہے‘‘۔ یہ الفاظ عدلیہ کی تاریخ کے سب سے مشہور مقدمے Marbury VS. Madison سے لیے گئے ہیں۔ جان مارشل امریکہ کی تاریخ کا سب سے طویل عرصہ تک رہنے والا چیف جسٹس تھا۔ وہ 1801ء سے 1835ء تک چونتیس سال امریکی سپریم کورٹ کا چیف جسٹس رہا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے ایک ایسے امریکی معاشرے کی نوک پلک سنواری جو بظاہر یورپ کے بھگوڑوں، پیشہ ور مجرموں، انسانی غلامی کے تاجروں اور مقامی آبادی کے بے رحمانہ قتل میں ملوث افراد سے مل کر بنا تھا۔ امریکہ کو آزاد ہوئے ابھی چند ہی برس ہوئے تھے اور جمہوریت کے نشے میں چُور کانگریس کے ارکان خود کو امریکہ کے سیاہ و سفید کا مالک سمجھتے تھے۔ امریکہ نے ابھی دو صدارتی ادوار دیکھے تھے۔ امریکہ کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن نے 17 فروری 1801ء کو امریکہ کا صدارتی الیکشن جیتا۔ اسے 4 مارچ کو حلف اٹھانا تھا۔ ان چند دنوں کے وقفے میں سبکدوش ہونے والے صدر جان ایڈمز نے کانگریس سے عدلیہ کے بارے میں ایک قانون پاس کرایا جس کے تحت سپریم کوٹ کے ججوں کی تعداد چھ سے کم کر کے پانچ کر دی گئی، سرکٹ عدالتیں تین سے چھ کر دی گئیں اور صدر کو ججوں کو نامزد کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ چارج چھوڑنے سے ایک دن پہلے یعنی 3 مارچ کو جان ایڈیمز نے 16 فیڈرل سرکٹ جج اور 42 فیڈرل جسٹس آف پیس مقرر کر دیے۔ انہیں امریکی تاریخ میں رات کے اندھیرے کے جج Midnight judges کہا جاتا ہے۔ تھامس جیفرسن کی حکومت نے آتے ہی کانگریس سے جان ایڈیمز کا 1801ء کا عدلیہ کا قانون ختم کروایا، اپنا نیا 1802ء کا قانون پاس کروایا اور ساتھ ہی عدلیہ پر کام کرنے کے لحاظ سے ایسی پابندیاں لگائیں کہ نئے منظور کردہ قانون کے بارے میں جلد فیصلہ نہ آ سکے۔ کانگریس کو سپریم، عوام کا نمائندہ اور عقلِ کل سمجھنے والے یہ تصور کر بیٹھے تھے کہ اب وہ جب چاہیں، جیسے چاہیں قانون کو اپنی مرضی کے مطابق موڑ لیں گے۔ ایسے میں چیف جسٹس جان مارشل کے مذکورہ مقدمے میں فیصلے نے قانون کی بالادستی کو ایک نیا راستہ دکھایا۔ انہوں نے پہلی دفعہ قانون کی تاریخ میں لفظ Void استعمال کیا۔ یعنی ایسا قانون جوآئین کی روح سے متصادم اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہ ہو‘ دراصل وجود ہی نہیں رکھتا۔ یہی وہ تصور ہے جو انصاف کی اصل روح ہے۔
انصاف کے نفاذ کا عمل ایک محترم اور مقدس عمل ہے۔ اس کی کوئی حدودوقیود متعین نہیں کی جا سکتیں اس لیے کہ بددیانتی اور لاقانونیت ایسی بلائیں ہیں جو زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہوتی ہیں اور عدالتوں کا دائرہ کار ان تمام شعبوں پر محیط نہ ہو تو انصاف کی فراہمی رک جاتی ہے۔ عموماً یہ تصور کیا جاتا ہے کہ عدالتیں انصاف فراہم کرتی ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ اگر کہیں انصاف کا قتل ہو جائے یا بددیانتی ہو جائے یا لاقانونیت سے لوگوں کے حقوق سلب ہو جائیں تو عدالتیں اس ظلم کو اپنے فیصلوں سے درست کرتی ہیں۔ تھانے میں انصاف کی فراہمی پولیس کا کام ہے۔ غلط مقدمہ درج نہ ہو، کوئی پیسے لے کر غلط تفتیش نہ کرے اور عدالت میں سچ بولنے والے پولیس افسران مقدمے کا دفاع کریں۔ اسی طرح مختلف محکموں میں پٹواری ہو، انکم ٹیکس انسپکٹر ہو یا ہسپتال میں ڈاکٹر، اگر یہ لوگوں کو قانون کے مطابق سہولیات فراہم نہیں کرتے، ان کے جائز کام بھی پیسے لے کر 
کرتے ہیں، ان کی حق تلفی کرتے ہیں، ان کو جائیداد، سرمائے اور صحت سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ انصاف نہیں کر رہے ہوتے۔ اسی طرح پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیاں اگر متفق ہو کر ایسے قانون منظور کرنے لگیں جس سے انسانوں کے ساتھ ظلم، ناانصافی، بددیانتی اور حقوق کی پامالی کا خطرہ ہو تو ایسے میں وہ پوری پارلیمنٹ بحیثیت مجموعی انصاف کا قتل کر رہی ہوتی ہے۔ یہ قتل ایسے ممالک میں اور زیادہ خوفناک ہو جاتا ہے جہاں لوگ دھونس‘ دھاندلی اور ناجائز ذرائع استعمال کر کے جمہوریت کی بساط کے اہم مہرے بن جاتے ہوں۔ جہاں کسی بھی گائوں یا قصبے میں لوگوں کی رائے چند غنڈوں، چوہدریوں، خانوں، ملکوں اور وڈیروں کے خوفناک تسلط کے سائے میں لی جاتی ہو۔ ایسے لوگ جب ملک کے قانون ساز اداروں میں جا کر بیٹھتے ہیں تو وہ صرف اور صرف اپنے داتی مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرتے ہیں۔ ایسے تمام اداروں کو جو ان کے زیر اثر ہوتے ہیں محکوم اور مجبور بنانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ پاکستان کی بیوروکریسی، پولیس، ترقیاتی ادارے اور ریونیو وصول کرنے والے ادارے اس غیر قانونی قبضے کی مثالیں بن چکے ہیں۔ ان تمام اداروں میں اگر کوئی عام آدمی کو انصاف دینا بھی چاہے تو اسے ان تمام گروہوں کے اجتماعی غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو چھ دہائیوں سے اقتدار کی مسندوں پر قابض ہیں۔ یہاں انصاف کیسے قتل ہوتا ہے؟ مثالیں واضح ہیں۔ کسی بددیانت پولیس افسر کو اعلیٰ عہدے پر لگانا ہمارا اختیار ہے، کسی ٹیکس چور مافیا کے گروہ کو کھلی چھٹی دینا ہمارا اختیار ہے، کسی ایماندار، منصف مزاج افسر کی زندگی اجیرن کرنا ہمارا اختیار ہے۔۔۔۔۔ ہاں یہ اختیار ہے۔۔۔۔۔ لیکن جب یہ اختیار انصاف کا قتل کرنے لگے تو پھر عدلیہ کا دائرہ اختیار شروع ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں چیف جسٹس جان مارشل نے کہا تھا کہ'' لوگوں کی منتخب کانگریس بھی کبھی کبھی ایسے قوانین کی تخلیق کرتی ہے جو انصاف اور عوام کی امنگوں کے برعکس ہوتے ہیں اور ان کو غیر قانونی قرار دینا عدالت کی بنیادی ذمہ داری ہے‘‘۔ یہاں اس نے لفظ ''عوام کی امنگوں‘‘ استعمال کیا ہے۔ جسٹس افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کرنے والوں کو یہ اندازہ نہیں کہ عدالت کا سو موٹو نوٹس اور عدالت کے کمرے میں ہر اس شخص کی حاضری جو اپنے آپ کو فرعون سمجھتا ہو، یہ سب عام آدمی کی امنگوں کا عکس ہے۔ امریکی تاریخ جان مارشل کے نظریے سے اس وقت تک نہ نکل سکی جب تک اس معاشرے میں قانون کی بالادستی قائم نہ ہو گئی۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی روایت بھی عدلیہ کا اس وقت تک حصہ رہے گی جب تک اس معاشرے میں قانون کی بالادستی قائم نہیں ہوتی، ورنہ عدلیہ تو رہے گی عوام کی امنگوں، آرزوئوں اور تمنائوں کی ترجمان نہیں رہے گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved