نیلسن منڈیلا ایک ایسا سیاہ فام سورج کہ جس کی شعاعوں سے صدیاں منور رہا کرتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سورج غروب ہو جایا کرتے ہیں مگرمنڈیلا جیسی ہستیاں اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ تاریخ کے آسمان پہ صدیوں جگمگاتی رہتی ہیں۔
منڈیلا کی زندگی سے ہمارے نوجوانوں سے لے کر حکمرانوں تک‘ اور خواص سے لے کر عوام تک سبھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔اگر سیکھنا چاہیں تو... بقول اقبال ؎
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
سو نئی دنیائیں‘ چاہے منڈیلا کے افکار سے روشنی لے کر نمو پا رہی ہوں یا اسی پائے کے کسی اور لیڈر کے طفیل دنیا خیر حاصل کر رہی ہے مگر ایک بات طے ہے کہ ملتا اسی کو ہے جو کھوج کرتا ہے‘ تلاش میں رہتا ہے‘ ڈھونڈنے کی لگن رکھتا ہے‘ کچھ حاصل کرنے کی تمنا میں گم رہتا ہے‘ خواب بُنتا رہتا ہے اور خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے ہمہ وقت تگ ودو میں مصروف رہتا ہے ۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرکر بیٹھ جانے والوں کو صرف ذلتیں‘ رسوائیاں اور پریشانیاں ہی ملا کرتی ہیں‘ یا پھر ایسی ضعیفی جس کی سزا صرف اور صرف مرگِ مفاجات ہوا کرتی ہے ۔
نوبل انعام سمیت دو سو پچاس کے قریب عالمی اعزازات حاصل کرنے والے منڈیلا کو‘ یہ سب کچھ ورثے میں نہیں مل گیا تھا۔ زندگی کے ابتدائی ایام میں منڈیلا صرف دو پائونڈ ماہانہ کمایا کرتے تھے۔ اسی دو پائونڈ ماہانہ میں کھانا‘ پینا‘ رہنا‘ کپڑا لتا... سب کرنا ہوتا تھا۔ آج لاکھوں کروڑوں لوگوں کو منزل کی راہ دکھانے والے منڈیلا کے پاس ایک زمانے میں کافی عرصے تک اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے بس کا کرایہ نہیں ہوتا تھا۔ شاید قارئین کو حیرت ہو کہ چھ چھ میل پیدل چل کر اپنی منزل تک پہنچنا منڈیلا کے معمولات میں شامل تھا۔ امن و مساوات کے لیے ہتھیار کے بجائے افکار اور کردار سے جنگ لڑنے والے منڈیلاکئی کئی دن تک بمشکل چند لقموں کی خوراک جتنے پیسے بھی نہیں کما پاتے تھے۔ دنیا بھر میں اور خصوصاً اپنے خطّے میں غربت کے خلاف لڑنے والے منڈیلا کی اپنی غربت کا یہ عالم تھا کہ منڈیلا برسوں ایک ہی کوٹ پہنتے رہے اور اسے بھی اتنی بار رفو کرانا پڑا کہ بالآخر اس میں رفو کی گنجائش ہی باقی نہ رہی ۔ مگر اس سارے سفر کے دوران عظیم منڈیلا نے نہ حصولِ تعلیم سے منہ موڑا‘ نہ کتابوں پر مال ودولت یا عیش وعشرت کو ترجیح دی ۔
ہم ، ہمارے نوجوان ، ہمارے حکمران سیکھنا چاہیں تو منڈیلا سے کیا کچھ نہیں سیکھ سکتے۔ اتنی غربت ، عسرت اور طویل جدوجہد کے بعد 1994ء میں جب منڈیلا پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے تو یقینا منڈیلا اپنے ملک کے طاقت ور ترین انسان تھے۔مگر منڈیلا نے حصولِ اقتدار کے بعد نہ ملیں لگائیں، نہ ذاتی کاروبار بڑھائے ، نہ بھائی بہنوں ، بھتیجوں، بیٹیوں ، سمدھیوں، بھاوجوں، کزنوں یا دوستوں میں اداروں اور عہدوں کی بندر بانٹ کی۔ نہ بیرون ملک اربوں روپیہ منتقل کیا۔ بلاشبہ منڈیلا نے اپنے پسے ہوئے صدیوں سے پسے ہوئے کروڑوں عوام کو مساوی حقوق، آزادی اور خوشحالی دلانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔
حُبِ مال و جاہ میں پڑے ہوئے ، تمام عمر کیلکولیٹر ہاتھ میں تھام کر انڈسٹریز اکائونٹس اور بزنس کا حساب کرتے ہوئے ہمارے حکمران زندہ رہ کر بھی جی نہیں پاتے کہ تمام عمر مال ودولت اکٹھا کرنے میں ہی گزار دیتے ہیں اور مبالغہ نہیں حقیقتاً جو کچھ اکٹھا کیا ہوتا ہے اس کا پوائنٹ ون پرسنٹ بھی شاید استعمال میں نہیں لا پاتے ۔جب کہ منڈیلا جیسے عظیم لیڈرز طاقت اور اختیار کے حصول کے بعد اس طاقت اور اختیار کو صرف اور صرف عوام کی فلاح کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔ خود سادہ زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں اور مر کر بھی امر ہو جایا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اربوں لوگوں کے ہونٹوں پر منڈیلا کے لیے دعائیں ہی دعائیں ہیں‘ تحسین ہی تحسین‘ تشکر ہی تشکر...!!!
عظیم منڈیلا کی عظمت اور عظیم جدوجہد کو سلام...!!!