تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     08-12-2013

سیاسی پیاروں کا معاملہ

پنجابی کا ایک محاورہ ہے ''چوری دے کپڑے تے ڈانگاں دے گز‘‘۔ یعنی چوری کے کپڑے ہوں تو پھر گز بھی بانس برابر ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں لینڈ مافیا نے کروڑوں نہیں‘ اربوں نہیں بلکہ کھربوں کی زمین پر اسی ریٹ سے قبضہ کر رکھا ہے۔ اس سارے قبضے کے پیچھے پٹواری بادشاہ ہے اور قبضہ کرنے والوں میں نوے فیصد سیاستدان ہیں۔ فوجیوں کو بھی سرکاری رقبے آرام سے مل جاتے ہیں۔ رہی سہی کسر سرکاری افسر نکال دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ریلوے‘ محکمہ مال اور دیگر سرکاری اداروں کی کھربوں روپے کی پراپرٹی پر بھائی لوگوں کا قبضہ ہے۔ چولستان اور تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی یعنی ٹی ڈی اے اس کا روشن نمونہ ہیں۔ ٹی ڈی اے کا لاکھوں ایکڑ رقبہ جنوبی پنجاب کے ضلع لیہ اور مظفر گڑھ میں ہے اور اسی صورتحال کا شکار ہے۔ سیاستدانوں اور پٹواریوں کے حسین امتزاج نے اس علاقے میں ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیے ہیں کہ حکومت کی سردمہری‘ لاعلمی اور چشم پوشی پر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ 
تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام تھل ڈویلپمنٹ ایکٹ کے تحت 1949ء میں عمل میں آیا۔ تھل کی لاکھوں ایکڑ بے آباد اور بنجر اراضی کو اس ترقیاتی ادارے کے زیر انتظام مہاجرین کو کلیم میں دے کر آباد کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ یہ ایک بڑا زبردست اور بہترین منصوبہ تھا لیکن اس کے ساتھ بھی وہی ہوا جو پاکستان میں ہوتا چلا آ رہا ہے۔ کلیم میں لوگوں کو زمین ملی مگر اسے آباد کرنے کے لیے نہ تو لوگوں کے پاس وسائل تھے اور نہ ہی لٹے پٹے آنے والوں کے پاس پیسے تھے۔ بہت کم لوگوں نے اس الاٹ شدہ رقبے پر قبضہ لیا اور کاشتکاری کی۔ بے شمار لوگ ایسے تھے جو یہاں آئے رقبہ دیکھا‘ گھبرائے اور الٹے پائوں واپس لوٹ گئے۔ کبھی نہ آنے کے لیے۔ دوسرے لوگ وہ تھے جنہوں نے دو چار ماہ آبادکاری کی کوشش کی اور بالآخر مایوس ہو کر لوٹ گئے۔ تب ان میں سے اکثر لوگوں نے اپنی کلیم میں ملی زمینوں کے کاغذات اور فائلیں کوڑیوں کے مول مقامی لوگوں کو دے دیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب آبادکاری بڑھی‘ زمینوں کی قیمت میں اضافہ ہوا اور قبضہ مافیا کو اس علاقے کا خیال آیا‘ الاٹمنٹ کا معاملہ تکنیکی ہو گیا۔ اب پٹواری بادشاہ میدان میں آ گیا۔ جونہی پٹواری نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لیا۔ قبضہ جو اب معززین کا پیشہ بن چکا تھا راتوں رات مقبولیت کی انتہا پر پہنچ گیا۔ اس کے بعد راوی مزے ہی مزے لکھتا ہے۔ 
مر کھپ گئی خواتین‘ ان کے ورثا اور ان کے ورثا کے ورثا کے نام پر جعلی الاٹمنٹ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جعلی رشتہ دار‘ وارث‘ خریدار۔ غرض ایک لمبی فہرست ہے جو ان زمینوں پر قبضے کے لیے شکلیں بدل کر میدان میں آ گئے۔ سب کے پیچھے پٹواری تھا۔ صرف ایک پٹواری کی مثال دوں تو اس کے لیے سلیم پٹواری بڑی نادر مثال ہے۔ پتی غلام علی کے موضع میں ہیرا پھیری کر کے کروڑوں روپے کمائے۔ بے شمار زمینیں اِدھر اُدھر کردیں۔ ہزاروں ایکڑ زمین کی جعلی الاٹمنٹ کردی اور اس سے فیضیاب ہونے والوں میں مقامی سیاستدانوں کے علاوہ جنوبی پنجاب کے دور نزدیک کے بہت سارے سیاستدان شامل تھے۔ ان سیاستدانوں میں پچھلی حکومت سے تعلق رکھنے والوں کی خاصی تعداد تھی لیکن موجودہ حکومت سے تعلق رکھنے والے سیاستدان بہرحال پہلے نمبر پر ہیں۔ 
سابق ناظم ضلع مظفر گڑھ قبلہ سلطان محمود ہنجرا مقامی سیاستدانوں کے اس گروہ کے سرخیل ہیں۔ سلطان ہنجرا جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی سربلند تھا اور اب مسلم لیگ ن کے دور میں بھی عزت مآب ہے۔ پہلے چودھری پرویزالٰہی کی آنکھ کا تارا تھا اب خادم اعلیٰ کی نظرکرم سے فیض یاب ہے۔ پہلے ق لیگ کی طرف سے ضلع ناظم تھا‘ اب مسلم لیگ ن کی طرف سے ایم این اے ہے۔ ہر دور میں تونسہ بیراج کے ساتھ واقع پانڈ ایریا اور گیم سنچری کا بلاشرکت غیرے چودھری تھا اور آج بھی اسی کا طوطی بولتا ہے۔ بھتیجا قاسم ہنجرا مسلم لیگ ن کا ایم پی اے ہے۔ سلطان ہنجرا نے چک نمبران 142,529,528اور دیگر چکوک میں تقریباً پانچ ہزار کنال اراضی الاٹ کروالی۔الاٹ کروانے والوںمیں سلطان ہنجرا کے ساتھ افضل ہنجرا اور اجمل ہنجرا شامل تھے۔انہوں نے زمینیں محمد حنیف ولد شاہ دین ارائیں ، عبدالرشید ولد ابراہیم راجپوت، محمد رفیق ولد خوشی محمد وغیرہ کے نام پر لی اور پھر اپنے نام ٹرانسفر کروالی۔ یہ صرف ابتدا ہے اس ہوشربا کہانی کی جو تھل کی زمینوں پر ہمارے ان رہنمائوں نے لکھی جن کے ہاتھ میں ہم نے ملک کی تقدیر دے رکھی ہے۔الاٹیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان الاٹیوں میں سابق ایم پی اے ڈاکٹر اختر ملک ، موجودہ ایم پی اے رانا اعجاز نون ، رائے منصب علی اور بہت سے دیگر کھڑپینچ شامل ہیں۔
رائے منصب علی کا قصہ بھی مزیدار ہے۔ رائے منصب علی ق لیگ کا چودھری اور پرویزالٰہی کا جگر تھا۔ اس کا بیٹا عارف منصب ٹائون کا ناظم تھا۔ شنید ہے کہ موصوف خود اگلے وقتوں کا پٹواری تھا۔ یہ لفظ پٹواری میں ازراہ تفنن نہیں لکھ رہا بلکہ حقیقتاً لکھ رہا ہوں۔لہٰذا پٹواریا نہ دائو پیچ سے بذات خود بخوبی آگاہ تھا۔ تھل میں مبلغ دس ہزار نو سو کنال اراضی الاٹ کروالی۔ ق لیگ کی طرف سے ایک بار ایم پی اے منتخب ہونے اور ایک بار ایم این اے کا الیکشن ہارنے والا رائے منصب علی آج کل مسلم لیگ ن کی طرف سے ایم پی اے ہے۔ موصوف نے پتلی بیگم کے نام سے الاٹ شدہ 5500 کنال اراضی اور مسماۃ زیب النساء دختر محمد رمضان کی چک نمبر 547میں 5400 کنال اراضی الاٹ کروالی۔ دونوں خواتین شاید کبھی کی مرکھپ چکی ہیں۔ ان کے جعلی وارثان کے نام سے انتقال کی تکمیل کروائی گئی اور اربوں روپے کی زمین چند لاکھ روپے میں الاٹ کروالی۔ اسی طرح مظفر گڑھ کے سیاسی خانوادے سے تعلق رکھنے والے ملک رفیق کھر نے 6023 کنال 10مرلے زمین الاٹ کروالی۔ ان ساری زمینوں کی تفصیل میرے پاس موجود ہے مگر اس تفصیل کومیں کئی دنوں میں سمجھا ہوں اور اس دوران میرا دماغ پلپلا ہوگیا۔ میں نہیں چاہتا کہ اس کالم کے ذریعے میں آپ لوگوں کا دماغ پلپلا کروں۔ لہٰذا صرف اور صرف رقبہ لکھ رہا ہوں۔ مدعیان اور مدعا علیہان کا‘ 
چکوک کے نمبروں کا اور عدالتی کیسوں کا نمبر نہیں دے رہا۔ حد تو یہ ہوئی کہ ان الاٹمنٹوں کے سلسلے میں حمید عطا نامی ایک شخص نے سپریم کورٹ کا جعلی آرڈر بنایا اور استعمال کیا۔
بوسن فیملی کے ایک سیاستدان نے اپنی عزیزہ عائشہ عمر دختر عمر حیات کے نام پر 4260کنال اراضی بحساب 5000روپے فی کنال خریدی۔ یہ زمین عطا محمد نے 1963ء میں جعلی کلیم کے ذریعے موضع پتی غلام علی مشرقی میں الاٹ کروائی جو بعدازاں محمد حنیف ، رسول بخش، محمد احمد اور فیض کریم وغیرہ کے نام منتقل ہوگئی۔ یہ سارا معاملہ برسوں سے چل رہا تھا اور شاید چلتا رہتا مگر یوں ہوا کہ یہاں ایک سول نیوکلیئر پاور پلانٹ کا منصوبہ بنا۔ زمین خرید لی تھی۔ کاغذات کی چیکنگ شروع ہوئی۔ زرخیز زمین کا ریٹ دس لاکھ ، درمیانی زمین کا سات لاکھ اور بنجر کا تین لاکھ فی ایکڑ طے ہوا۔ لوگوں نے جب سرکاری زمین ہی سرکار کو دوبارہ بیچنے کی کوشش کی تو معاملہ بگڑ گیا۔ اسسٹنٹ کمشنر کوٹ ادو نے درج بالا ساری الاٹمنٹیں کینسل کردیں۔ ہنجرا، کھر، رائے منصب اور بوسن ، سب فارغ ہوگئے۔ ہزاروں ایکڑ زمین سرکار کو بالکل مفت ملی گئی جس پر قابضین پچھلے کئی عشروں سے فصلیں کاشت کررہے تھے‘ مزے اڑا رہے تھے اور موج میلا کررہے تھے ۔
ہزاروں ایکڑ زمین واگزار ہوچکی ہے اور ابھی ہزاروں ایکڑ مزید کسی ایکشن کی منتظر ہے‘ لیکن گزشتہ روز اے سی کوٹ ادو کا تبادلہ ہوگیا ہے۔ اللہ جانے کیا معاملہ ہے کہ جب بھی کوئی سرکاری افسر ایسی غلطی کرتا ہے اس کا ٹرانسفر ہوجاتا ہے۔ خادم اعلیٰ یا وزیراعلیٰ کی کوئی قید نہیں۔ سب جگہ معاملہ یکساں ہے۔ اپنے ممبران اسمبلی کو خوش رکھنا بہرحال حکمرانوں کا پرانا وتیرہ ہے۔ یہاں تو بہت سارے پیاروں کا معاملہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved