تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     09-12-2013

سکیورٹی کے تقاضے

جب بھی ایئرپورٹس پر مجھے جوتے اور بیلٹ اتارنے پڑتے ہیں تاکہ سکیورٹی حکام میری سخت تلاشی لے سکیں تو میں زیرلب اُسامہ بن لادن کو کوستا ہوں، کیونکہ اسی کی وجہ سے ہم پاکستانیوںکو یہ دن دیکھنے پڑے۔ میں اپنی بددعا میں رچرڈ ریڈ‘ جو برطانوی شہری تھا اور مسلمان ہونے کے بعد جس نے بائیس دسمبر 2001ء کو پیرس سے میامی جانے والی پرواز کو جوتوں میں چھپائے گئے دھماکہ خیز مواد سے تباہ کرنے کی کوشش کی، کو بھی شامل کرنا نہیں بھولتا۔ لگے ہاتھوں میں اس قبیل کے تمام دہشت گرد گروہوں، جنھوں نے ہمارا فضائی سفر ایک کٹھن آزمائش میں بدل دیا ہے، کو نہایت خلوص نیت سے بددعا دیتا ہوںکہ خدا کرے وہ جہنم کے مہیب ترین عذاب کا مزہ چکھیں۔ 
ہماری آزمائش کا سفر صرف ایئرپورٹس پر ہی شروع نہیں ہوتا بلکہ جب مجھے پاکستانی سبز پاسپورٹ پر ویزہ لینا ہوتا ہے تو میں خود کو لوہے کے بدنما جنگلے میں مقید پاتا ہوں۔ چاہے ویت نام جانا ہو یا سپین، پاسپورٹ پر مطلوبہ مہر لگوانے کے لیے انتہائی تکلیف دہ بلکہ توہین آمیز عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ میں اس بات کا فہم رکھتا ہوں کہ دوسرے ممالک پاکستانیوں سے اتنے خبردار کیوں رہتے ہیں۔۔۔ پوری دنیا ہمیں جہادی گروہ سمجھتی ہے جو دنیا کو تشدد سے زیرنگیں کرنا چاہتا ہے۔۔۔لیکن یہ تمام کارروائی اعصاب شکن ثابت ہوتی ہے۔ یہ معاملہ ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں شکوک و شبہات کے نت نئے ناگ سر اٹھا رہے ہیں۔ سنوڈن کی طرف سے رازوں کے افشا سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نیشنل سکیورٹی کے نام پر ناقابل تصور حد تک وسیع پیمانے پر افراد کی ذاتی زندگیوں میں جھانک رہے ہیں۔ ان کے اہداف غیرملکی جاسوس نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں۔ 
خوف اور شکوک و شبہات کی اتنی گہری فضا دنیا میں امریکہ سے زیادہ اور کہیں نہیں ہے۔ چند سال پہلے جب میں اپنی کتاب کی تشہیر کے سلسلے میں بوسٹن ایئرپورٹ پر اترا تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ قدم زمین پر رکھتے ہی دھر لیا جائوں گا۔ مجھے ایک خالی کونے میں لے جایا گیا‘ جہاں یکے بعد دیگرے متعدد ہوم لینڈ سکیورٹی اور امیگریشن حکام نے مجھ سے ایک ہی سوال پوچھا۔۔۔ ''یہاں کیوں آئے ہو اور کتنا عرصہ ٹھہرو گے اور کن مقامات پر خطاب کرو گے؟‘‘ ان کے چہرے پر وہ خوش آمدید کی مسکراہٹ، جو دیگر مسافروں اور تمام مہمانوںکے لیے ہوتی ہے، مفقود تھی۔ یہ ابتلا صرف ایئرپورٹ پر ہی نہ تھی بلکہ میں جہاں بھی گیا، مجھ پر سکیورٹی حکام کی ''نگاہ کرم‘‘ جمی رہی۔ نیویارک سے واشنگٹن کے درمیان چلنے والی امترک ٹرین (Amtrak train) میں سیاہ یونیفارم میں ملبوس افراد مسلسل چکر لگاتے رہے۔ ان کے جرمن شیفرڈ ڈاگ اُن سے بھی زیادہ مستعد تھے۔ ہر آن خدشہ محسوس ہوتا تھا کہ ذرا سانس بھی برہم ہو گئی تو کتے کے کان کھڑے ہو جائیں گے۔ سکیورٹی حکام مسافروں کی فلم بناتے ہوئے بتا رہے تھے کہ حفاظت کے پیش نظر ہمارے درمیان ''سادہ کپڑوںوالے‘‘ بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ امریکہ میں خوف اور چوکنے پن کی فضا کو بی بی سی کے میٹ فریی (Matt Frei) نے اپنی کتاب '' Only in America‘‘ میں بہت عمدگی سے بیان کیا ہے۔ واشنگٹن میں بی بی سی کے نمائندے کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے اُس نے مشاہدہ کیا۔۔۔ '' ٹی ایس اے‘‘ (ٹرانسپورٹ سکیورٹی ایجنسی) ایسے افراد کو بھرتی کرتی ہے جو کم تنخواہ پر بھی کام کرنے کے لیے راضی ہو جاتے ہیں۔ اُنہیں یونیفارم پہنا کر بتایا جاتا ہے کہ وہ اس جنگ میں وطن کا ہراول دستہ ہیں اور اُنھوں نے ہر مسافر پر کڑی نگاہ رکھنی ہے۔ امریکہ حالت جنگ میں ہے۔ انکل سام خوفزدہ بلکہ سہما ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جب طاقتور ممالک ڈر جاتے ہیں تو اُن سے عجیب و غریب حرکتیں سرزد ہوتی ہیں۔ واشنگٹن کا ایئرپورٹ، Dulles، جہاں بین الاقوامی پروازیں اترتی ہیں، ایک طرح کے قلعے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ غیرملکیوں کو کئی گھنٹوں تک قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ اس وقت موبائل فون کا استعمال سختی سے منع ہے۔ شاید سکیورٹی حکام کو خدشہ ہو کہ ان مسافروں، جو تھکاوٹ اور نیند سے چُور ہوتے ہیں، میں سے کوئی ہوائی حملے کا سگنل دینے والا ہے۔ یہاں امریکہ کی روایتی مہمان نوازی اور دوستانہ رویے کی جھلک بھی نہیں ملتی‘‘۔ ایک کسٹم افسر، جس کی گردن اُس کے چہرے سے موٹی تھی اور اس کا چہرہ آگ بجھانے والے انجن سے زیادہ سرخ تھا، سے نمٹنے کے بعد فریی لکھتا ہے۔۔۔ ''ایئرپورٹس پر روا رکھی جانے والی احتیاط اپنی جگہ لیکن کیا داخلی طور پر امریکیوں کو کہیں زیادہ خطرات کا سامنا نہیں ہے؟ کیا ٹریفک حادثات میں کم لوگ مارے جاتے ہیں؟ کیا ہر تین چار ماہ بعد کسی تعلیمی ادارے یا کسی شاپنگ مال میں ہونے والی اندھادھند فائرنگ سے کم نقصان ہوتا ہے؟ امریکہ میں گن خریدنا اور اسے استعمال کرنا بہت آسان ہے۔۔۔‘‘
اگرچہ برطانیہ میں خوف کی فضا اتنی گہری نہیں لیکن پولیس اور سکیورٹی ادارے پوری کوشش میں ہوتے ہیں کہ کہیں وہ اپنے امریکی ''ہم منصبوں‘‘ سے مسابقت کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ عام چیزیں، جیسا کہ ہیٹ یا چھڑیاں فروخت کرنے والی دکانوںکے باہر بھی پولیس والے اس طرح ایستادہ ہوتے ہیں جیسے وہ شرلاک ہومز فلم کے کردار ہوں۔ اکثر اوقات وہ سائرن بجاتی ہوئی گاڑیوں میں برق رفتاری سے ادھر اُدھر جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے بیرونی خلا سے کوئی پُراسرار مخلوق حملہ کرنے والی ہے۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ جب بھی آپ کسی عام شخص کو کسی قسم کی وردی پہنا دیتے ہیں تو آپ اس کی چال ڈھال اور برتائو میں غروروتکبر کا عنصر داخل کر دیتے ہیں۔ وہ خود کو ایسی اتھارٹی کا حامل سمجھنے لگتا ہے جو مافوق الفطرت طاقت کے زمرے میں آتی ہے۔ وہ یکایک سمجھنے لگتا ہے کہ ریاست اپنی پوری طاقت سے اُس کے پیچھے کھڑی ہے؛ چنانچہ وہ کچھ بھی کرنے کے لیے آزاد ہے۔ چونکہ اُس نے اپنے اختیار کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہوتا ہے، اس لیے عام لوگ اس سے فاصلہ برقرار رکھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ 
اگرچہ دیگر ممالک اپنے سکیورٹی بجٹ کو بڑھاتے اور اپنے قوانین میں ترامیم، جن کی موجودگی میں وہ جمہوریت سے زیادہ آمرانہ ریاستیں دکھائی دیتی ہیں، کرتے ہوئے انتہاپسندی کا سدّباب کرنے کی کوشش میں ہیں، لیکن وہ واحد ملک جو کسی سے بھی زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنا، بے حس و حرکت پڑا ہے۔ بے پناہ بم دھماکے اور بہنے والا خون بھی اس میں ارتعاش پید ا نہیںکر سکا کہ عوام کی جان بچانے کے لیے کچھ تو کیا جانا چاہیے۔ یہ ملک کوئی اور نہیں، پاکستان ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے رویے سے ایسا لگتا ہے کہ ان کا تعلق کسی دوسری دنیا سے ہے۔ پولیس کی تربیت اور رسائی شہریوں کو تنگ کرنے تک ہی محدود ہے، وہ دہشت گردوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی۔ ان کے پاس ناکارہ سی بندوقیں ہوتی ہیں جن کے ساتھ جدید ترین اسلحے سے لیس دہشت گردوں کا مقابلہ ناممکن ہے۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا کے ایک سابق آئی جی اور کچھ سیاست دانوں کا سکینڈل سامنے آیا۔ وہ پولیس کے لیے ناکارہ ہتھیار خریدنے میں ملوث تھے۔ اس وقت پاکستان کی قیادت کنفیوژن کا شکار ہے کہ دہشت گردی کے خطرے سے کیسے نمٹا جائے۔ اس مسئلے پر دنیا کے کسی اور ملک میں دفاعی اور سول اداروںکے درمیان اتنی عدم مطابقت نہیں پائی جاتی جس کا مظاہرہ ہم اپنے ملک میں دیکھتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی قاتلوںکے ساتھ مذاکرات‘ اور وہ بھی یک طرفہ، کی بات نہیں کی جاتی۔ دنیا میں بہت سے ممالک نے بڑی کامیابی سے دہشت گردی کا تدارک کیا ہے۔ ہمیں ان کے تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے قاتلوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے انہیںکچل دینا چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved