نیلسن منڈیلا کی وفات پر دنیا بھر کے حکمران ان کی شان میں قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ دائیں اور سابق بائیں بازو کے دانشور منڈیلا کے گن گا رہے ہیں۔ یہاں تک بھی کہ پاکستان میں حکومتی عہدوں اور پارٹیوں پر براجمان ضیاالحق کی آمریت کے حواری بھی نیلسن منڈیلا کی تعریفیں کر رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ کی سفید فام نسل پرستانہ آمریت کے خلاف عظیم جدوجہد کی۔ انہوں نے بے پناہ قربانیاں دیں اور مسلسل 27 سال قیدوبند کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔ ان کی اسی طویل جدوجہد اور قربانی کے باعث جنوبی افریقہ میں اور عالمی سطح پر ان کے لیے احترام پایا جاتا ہے۔ منڈیلا کو 1962ء میں مزدوروں کی ہڑتالیں مشتعل کرنے کے الزام میں اپنے ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے سب سے لمبی قید (18سال) رابن آئی لینڈ کی جیل میں کاٹی۔ ان دنوں نیلسن منڈیلا کو سفید فام حکومت اور عالمی سامراجی لیڈر ''دہشت گرد‘‘ کہتے تھے کیونکہ انہوں نے مسلح جدوجہد بھی کی تھی۔ آج نیلسن منڈیلا کے گن گانے اور اس کی وفات پر مگرمچھ کے آنسو بہانے والے سامراجی لیڈر ان دنوں منڈیلا کے خلاف شدید زہر اگل رہے تھے۔ رونلڈ ریگن اور مارگریٹ تھیچر کی منڈیلا سے نفرت اور حقارت کی کوئی انتہا نہ تھی۔ برطانیہ کی ٹوری پارٹی کے یوتھ ونگ ''ینگ ٹوریز‘‘ نے 1980ء کی دہائی میں ایک پوسٹر چھاپا تھا‘ جس پر لکھا تھا 'منڈیلا کو پھانسی دو‘۔ آج کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی ان دنوں اس تنظیم کے متحرک ممبر تھے۔ جب منڈیلا قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے تو سرمایہ دار ان سے نفرت کرتے تھے جبکہ محنت کشوں کے لیے وہ ہیرو بن رہے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ تحریک ہے جس کی قیادت افریقن نیشنل کانگریس (ANC) اور جنوبی افریقہ کی کمیونسٹ پارٹی (SACP) کر رہی تھیں۔ منڈیلا کا تعلق اے این سی سے تھا لیکن اس وقت منڈیلا کا سیاسی اور نظریاتی مؤقف کہیں زیادہ انقلابی تھا۔ جیل میں منڈیلا نے ''فریڈم چارٹر‘‘ اور نیشنلائزیشن کی پُرجوش حمایت کی تھی۔ 1959ء میں نیلسن منڈیلا نے بیان دیا: ''یہ درست ہے کہ 'چارٹر‘ میں بینکوں‘ سونے کی کانوں اور جاگیروں کو قومی تحویل میں لینے کا مطالبہ مالیاتی سرمائے اور سونے کی کانوںکی اجارہ داریوں پر ایک کاری ضرب ہے کیونکہ ان مالیاتی اجارہ داریوں اور جاگیرداروں نے صدیوں اس ملک کو لوٹا ہے اور یہاں کے عوام کو بدترین غلامی میںجکڑ دیا ہے‘ لیکن نیشنلائزیشن کے اقدامات اس لیے لازمی ہیں کہ ان کے بغیر 'چارٹر‘ کے مقاصد پورے نہیں ہوتے۔ جب تک ان اجارہ داریوں کو پاش پاش نہیں کیا جاتا‘ قومی دولت یہاں کے عوام کو منتقل نہیں ہو سکتی‘‘۔
بہرکیف انہوں نے نیشنلائزیشن کو سوشلزم کے ساتھ نہیں جوڑا تھا۔ المیہ یہ رہا ہے کہ جنوبی افریقہ کی کمیونسٹ پارٹی‘ جو پوری جدوجہد میں اے این سی کی حلیف رہی تھی‘ کی سیاسی قیادت نے بھی نظریاتی تنزلی کی وجہ سے سوشلسٹ تبدیلی کے اپنے پروگرام پر زور نہ دیا؛ تاہم صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی پر اس تحریک کی قیادتوں میں 1980ء تک اتفاق موجود رہا تھا۔ 2 فروری 1990ء کو منڈیلا کو رہا کر دیا گیا تھا۔ رہائی کے بعد بھی منڈیلا نے اس مؤقف کو قائم رکھا۔ اپنے پہلے بیان میں انہوں نے کہا: ''کانوں‘ بینکوں اور ساری اجارہ دارانہ صنعت کو نیشنلائز کرنا اے این سی کی پالیسی ہے۔ اس کو تبدیل یا اس میں ترمیم کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا ‘‘۔
لیکن 1994ء میں صدر منتخب ہو کر اقتدار میں آنے کے بعد اسی پالیسی میں تیزی سے تنزلی شروع ہو گئی۔ اس سرمایہ دارانہ ریاست میں سیاہ فام افراد کے حاکمیت میں آنے سے سفید فام نسل پرستی کی آمریت تو گر گئی لیکن طبقاتی استحصال اور جبر نہ صرف ختم نہ ہو سکا بلکہ اس میں اضافہ ہوا۔ چند سیاہ فام سیاست دان اقتدار اور سرمایہ دار طبقے میں تو شامل ہو گئے تھے لیکن سیاہ فام محنت کشوں کی زندگیوں میںکوئی تبدیلی نہیں آئی۔
یہ درست ہے کہ منڈیلا نے صدر بننے کے بعد صحت‘ تعلیم‘ رہائش اور دوسرے شعبوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنے کا اعلان کیا لیکن معاشی اور اقتصادی پالیسیاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ''مشاورت‘‘ اور ''مفادات‘‘ سے ہی ''بیرونی سرمایہ کاری کے حصول‘‘ کے لیے ہی بنائی گئیں‘ جن سے محنت کشوں کی زندگی مزید اذیت ناک ہو گئی۔
منڈیلا پر اقتدار میں آنے کے بعد سامراج اور کارپوریٹ مالیاتی سرمائے کا شدید دبائو تھا‘ جو ہر اس حکمران پر ہوتا ہے جو سرمایہ دارانہ ریاست کے ڈھانچوں میں رہ کر حکومت کرتا ہے۔ ان کو اپنے انقلابی پروگراموں سے انحراف کرنا پڑتا ہے۔ منڈیلا کو عالمی سرمایہ داروں کے اہم ترین اجلاس ''ورلڈ اکنامک فورم‘ ڈیووس سوئٹزرلینڈ‘‘ میں مدعو کیا گیا‘ جہاں ان کو نیشنلائزیشن کی پالیسی ترک کرکے ''منڈی‘‘ کی پالیسی کو گلے لگانے پر ''راضی‘‘ کر لیا گیا۔ اس واردات میں کلیدی کردار دنیا میں ہیروں کے کاروبار کی سب سے بڑی اجارہ داری De Beers کے چیئرمین ہیری اوپن ہائیمر نے ادا کیا تھا۔ اس واقعہ پر اے این سی کے اہم لیڈر رونی کاسرلز نے ایک بیان میں کہا تھا: ''یہ وہ 1991-1996ء کا وقت تھا کہ اے این سی کی روح کی جنگ لڑی گئی جو کارپوریٹ سرمائے کی طاقت اور اثرورسوخ کے آگے ہار دی گئی تھی۔ یہ ایک مہلک موڑ تھا۔ آج لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے عوام کے مفادات کو سرمائے کی ندی میں بہا دیا تھا‘‘۔
یہ بات بھی زیادہ حیران کن نہیں کہ منڈیلا کی وفات پر دنیا پر قابض سرمایہ داری اور مالیاتی اجارہ داریوں کے سیاسی نمائندے اتنا بڑا سوگ منا رہے ہیں اور ان کو اتنا اعلیٰ مرتبہ دے رہے ہیں، اس کے برعکس وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز کی 58ویں سال کی عمر میں اسی سال ہونے والی وفات پر نہ صرف میڈیا کی کوریج بہت ہی محدود اور کمزور تھی بلکہ ان کی تعزیتی رپورٹنگ میں بھی شاویز کو ایک آمر ایک جابر اور ایک بدکردار انسان بنا کر پیش کیا گیا۔ اگر منڈیلا اور شاویز کی وفات پر سامراج کے سرخیل جریدے اکانومسٹ کی کوریج دیکھیں تو یہ محسوس ہوتا ہے جیسے منڈیلا ہیرو تھا اور شاویز ولن۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقتدار میں آکر منڈیلا نے طبقاتی مصالحت کی پالیسی اپنائی جو سول سوسائٹی کی بنیاد ہے جبکہ شاویز نے اقوام متحدہ سے لے کر ہر فورم اور ہر اقدام میں سامراج کو للکارا اور سرمایہ داری کے استحصال کو ختم کرنے لیے ایک عظیم جدوجہد کا اعلان کیا تھا۔ نیشنلائزیشن کے ذریعے اس نے نہ صرف وینزویلا کے عوام بلکہ کیوبا‘ نکاراگوا‘ بولیویا، ایکواڈور اور خطے کے دوسرے ممالک کے غریبوں کے لیے بے پناہ فلاحی منصوبے شروع کروائے۔ یہی وجہ ہے کہ کارپوریٹ میڈیا نے شاویز کی موت پر اس کو درندہ بنا کر پیش کیا۔
لیکن سیاہ فام حکومت کے قیام کے 20 سال بعد آج جنوبی افریقہ کے عوام کی حالت بد سے بدتر ہو گئی ہے۔ آج دنیا بھر میں امارت اور غربت کی سب سے بڑی تفریق جنوبی افریقہ میں ہے۔ بنیادی ضروریات سے محرومی وہاں کے عوام کا مقدر بنا دیا گیا ہے۔ گزشتہ سال مرکینا کی سونے کی کانوں کے مزدوروں کو گولیوں سے اسی طرح چھلنی کیا گیا جس طرح سفید فام نسل پرست آمریت کے دور میں ہوا کرتا تھا۔ اے این سی میں شدید تنائو موجود ہے۔ مزدوروں کی ہڑتالوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور نئی تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ یہ کیسی آزادی تھی جس کے لیے جنوبی افریقہ کے سیاہ فام عوام قربانیاں دیتے رہے۔ ایک نئی نسل ایک نئی جدوجہد میں پروان چڑھ رہی ہے۔ COSATU اور دوسری ٹریڈ یونین تنظیموں میں سوشلسٹ رحجانات ابھر رہے ہیں۔ اے این سی میں بھی یہ دھارا زور پکڑ رہا ہے۔ منڈیلا کے بعد ابھرتے عوام کو ٹھنڈا کرنے والا کوئی لیڈر جنوبی افریقہ کے حکمران طبقے کے پاس نہیں۔ لیکن ان نوجوانوں اور جنوبی افریقہ کے محنت کشوں کے لئے منڈیلا کی اصل میراث وہ ہے جب انہوں نے ایک سماجی تبدیلی اور نظام کو بدلنے کے لیے جدوجہد کی اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ وہ منڈیلا ان کی میراث نہیں جسے کارپوریٹ میڈیا اور حکمرانوں کے گماشتہ دانشور مصالحت کا سبق بنا کر پیش کر رہے ہیں۔