تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     09-12-2013

سرکار بمقابلہ پٹوار

''ایک روز ایک بے حد مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھہ زمین ہے جسے پٹواری نے اپنے کاغذات میں اس کے نام منتقل کرنا ہے لیکن وہ رشوت لیے بغیر یہ کام کرنے سے انکاری ہے۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں اس لیے تین چار برس سے وہ طرح طرح کے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہے لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ اس کی دردناک بپتا سن کر میں نے اسے اپنی کار میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے ساٹھ ستر میل دور اس کے گاؤں کے پٹواری کو جا پکڑا۔ ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں یوں اچانک دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی کہ یہ بڑھیا بڑی شرانگیز ہے اور زمین کے انتقال کے بارے میں جھوٹی شکایتیں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی عملی طور پر تصدیق کرنے کے لیے پٹواری اندر سے ایک جُزدان اٹھا کر لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا: 'حضور دیکھیے میں اس مقدس کتاب کو سر پر رکھ کر قسم کھاتا ہوں‘۔ گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا: 'جناب ذرا یہ بستہ کھول کر دیکھ لیں‘۔ ہم نے بستہ کھولا تو اس میں قرآن شریف کی جلد نہیں بلکہ پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔ میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی انتقالِ اراضی کا کام مکمل کر دیا۔ میں نے بڑھیا سے کہا: 'بی بی لو تمہارا کام ہو گیا، اب خوش رہو‘۔ بڑھیا کو میری بات کا یقین نہیں آیا۔ اپنی تشفی کے لیے اس نے نمبردار سے پوچھا: ''کیا سچ مچ میرا کام ہو گیا ہے؟‘‘ نمبردار نے تصدیق کی تو بڑھیا کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ اس کے دوپٹے
کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی۔ اس نے اسے کھول کر، سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لیے اور اپنی دانست میں دوسروں کی نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیے۔ اس ادائے معصومانہ اور محبوبانہ پر مجھے بھی بے اختیار رونا آ گیا۔ یہ دیکھ کر گاؤں کے کئی دوسرے بڑے بوڑھے بھی آبدیدہ ہو گئے‘‘۔ 
یہ واقعہ انیس سو پچاس کی دہائی میں اس وقت پیش آیا جب قدرت اللہ شہاب کو جھنگ میں کچھ عرصہ ڈپٹی کمشنری کا موقع ملا۔ پٹواری کی قوت و جبروت کی گواہی قدرت اللہ شہاب نے اپنی خودنوشت 'شہاب نامہ‘ میں ایک اور جگہ بھی دی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ایک بار فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان اپنی والدہ سے ملنے گاؤں گئے۔ وہاں پر اپنے مقتدرالعنان بیٹے سے ایک ماں نے جو شکایات کی ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ علاقہ پٹواری نے اپنی رشوت کے نرخ یہ کہہ کر بڑھا دیے ہیں کہ 'ماں جی اب آپ کا بیٹا بادشاہ بن گیا ہے‘۔ تاریخ یہ نہیں بتاتی کہ بطور ڈپٹی کمشنر قدرت اللہ شہاب اور بطور صدر جنرل ایوب خان نے ان پٹواریوں کے ساتھ کیا کیا جن کی شکایات ان تک پہنچی تھیں، لیکن قرائن کہتے ہیں کہ کچھ نہیں کر پائے ہوں گے کیونکہ ساٹھ سال پہلے اگر پٹواریوں کا کچھ ہو جاتا تو پھر میں پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم کو اس حالت میں نہ دیکھ پاتا کہ وہ اپنی زمین کے معاملات درست رکھنے کے لیے پٹواریوں سے نمٹ رہے تھے اور کمرے کے باہر بڑے بڑے جید سیاستدان انتظار میں تھے کہ کب یہ اجلاس ختم ہو اور ملکی معاملات پر غور کیا جا سکے۔ 
نظر بظاہر پٹواری انگریز کے بنائے ہوئے محکمہ مال کا وہ کارندہ ہے جو کسی ایک مخصوص علاقے میں زمین کی پیمائش و تبدیلی ملکیت کا نظام چلاتا ہے۔ اس کی شرائطِ ملازمت، تنخواہ اور تعلیم کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ اس ادنیٰ سے کارندے کو ہم نے خواہ مخواہ بدنام کر رکھا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انگریز کے کارخانہء ریاست کو چلانے میں اس کارندے کا کردار کلیدی تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریزی استعماری نظام کے اس بنیادی پتھر کو تاریخ کے اتار چڑھاؤ نے اتنے اختیارات بخش دیے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے پٹوار درحقیقت سرکار کی حواس خمسہ کا کردار ادا کرتی ہے۔ حکومتی جلسوں کا اہتمام ہو یا سرکشوں کی گوشمالی، جاسوسی کا جال پھیلانا ہو یا کسی زبان دراز کو کینڈے میں لانا، یہ سب کچھ کرنے کے لیے پٹواری کے بستے میں زمین کے انتظام کا ایسا ہتھیار موجود ہے جس کے بل پر سرکاری ہتھیلی پر سرسوں بھی جم جاتی ہے۔ پٹواری کی ہمہ گیریت کے بارے میں مجھے ایک سابق کمشنر نے بتایا کہ ہر نوجوان بیوروکریٹ یہ خواہش لے کر آتا ہے کہ وہ پٹوارکے نظام کو تبدیل کرکے رکھ دے گا، لیکن تجربہ اسے بتاتا ہے کہ پٹوار تو دراصل وہ چراغ ہے جسے ہلکا سا رگڑنے پر انتظامیہ کا وہ جن حاضر ہو جاتا ہے جس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ پہلے وہ اس کی جزوی افادیت کا قائل ہوتا ہے اور جب ضلعے کی اعلیٰ ترین کرسی پر بیٹھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے لیے قانون کی کتاب کا نہیں پٹواری کے رجسٹر کا پابند ہے۔ 
جو شخص پٹواری کے عہدہ جلیلہ پر ایک بار فائز ہو جائے، اس کے دن کیسے پھرتے ہیں اس کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو کسی پٹواری کے طرز زندگی کا مشاہدہ کرلیں۔ اگر آپ کو یہ موقع نہیں ملا تو پھر آپ کو یہ تو بتایا جا سکتا ہے کہ سرگودھا کے ایک مرحوم پٹواری طرب و نشاط کی محفل سجانے کے لیے اپنے دوستوں کا جلوس لے کر ہر شام لاہور میں وارد ہوتے تھے اور یہاں دادِ عشرت دے کر واپس سرگودھا تشریف لے جاتے تھے۔ صادق آباد ضلع رحیم یار خان کے ایک پٹواری کا دولت کدہ ملتان میں ہے جہاں بڑے بڑے لوگوں میزبان کی 'تواضع‘ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ صوبہ سندھ میں پٹواری کو ٹپے دار کہا جاتا ہے اور وہاں یہ لوگ کتنے مضبوط ہیں اس کا اندازہ آپ یوں کرلیں کہ ڈاکو بھی انہیں لوٹنے سے گریز کرتے ہیں۔ پٹواریوں کے بارے میں یہ سب کچھ جاننے کے بعد کیا یہ 
تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ کارِسرکار بغیر پٹوار چل سکتا ہے؟ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کا دعوٰی ہے کہ 'ہاں‘ پٹواری کے بغیر بھی حکومت چل سکتی ہے اور اس کا پہلا قدم ہے زمین کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن‘۔ ان کا خیال ہے کہ اگر زمین کی ملکیت کے کاغذ یعنی فردکا اجرا پٹواری کے ہاتھ سے لے کر کمپیوٹر کے حوالے کر دیا جائے تو صورت احوال بہتر ہو سکتی ہے۔ اپنے خیال کو حقیقت کی شکل میں دکھانے کے لیے انہوں نے صحافیوں کو لاہور کے ایک ایسے مرکز میں مدعو کیا جو اصل میں تو پٹوار خانہ تھا لیکن یہاں پٹواری نہیں تھے۔ سرکاری دعوے کے مطابق بغیر کسی مشکل کے آپ یہاںسے اپنی زمین کی فرد حاصل کر سکتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی اس معاملے میں ذاتی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ انہیں اس منصوبے کی باریکیوں کا بھی پوری طرح علم ہے اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آئندہ سال کے آخر تک پنجاب کے ہر پٹواری سے فرد جاری کرنے کا اختیار لے لیا جائے گا۔ بلاشبہ اس منصوبے کے مکمل ہو جانے کے بعد پٹوار کے نظام میں خرابیوں کا بڑی حد تک تدارک ہو جائے گا بلکہ یوں کہیے کہ ملک میں گورننس کا ایک نیا کلچر پیدا ہو جائے گا، لیکن وہ کہتے ہیں ناں‘ چائے اور ہونٹوں کے درمیان بہت سے مقامات ہیں جن میں کچھ نہایت سخت بھی ہوتے ہیں۔ انہی مقامات کے حوالے سے ہمارے معروف شاعر اور کالم نگار (صاحبِ 'کٹہرا‘) خالد مسعود خان نے وزیر اعلیٰ کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ جناب پٹوار ایک محکمہ ہی نہیں ایک رویہ بھی ہے، اگر کمپیوٹر پر بیٹھا ہوا شخص پٹواری بن گیا تو پھر کیا ہوگا؟ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں۔۔۔۔۔۔؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved