ٹنل وژن رکھنے والوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں سرنگ کے اندر سے وہی کچھ دکھائی دیتا ہے‘ جو دہانے کے اندر سے نظر آ سکتا ہے۔ دہانے سے باہر کی چیزیں‘ دائرہ نگاہ میں نہیں آتیں۔ اس طرح کے لوگ جب کوئی ایک پوزیشن لے کر دنیا کو وہیں سے دیکھنے لگتے ہیں‘ جہاں تک ان کی نظر جائے اور نظرسرنگ کے دہانے کے دائرے سے باہر جا نہیں سکتی۔ ان کے لئے دنیا صرف وہی ہوتی ہے‘ جو انہیں دکھائی دے رہی ہو۔ کچھ لوگوں نے صدر زرداری کے منصب سنبھالتے ہی باور کر لیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں برداشت نہیں کرے گی۔ ان کے خلاف سازش ہو گی اور انہیںاپنا دور صدارت پورا کرنے سے پہلے ہی نکال باہر کیا جائے گا۔ وہ یکے بعد دیگرے نئی نئی تھیوریاں پیش کر کے تان ایک بات پر توڑتے کہ زرداری کو ایوان صدر سے نکال باہر کیا جائے گا۔ یہ آرکسٹرا انہوں نے اتنے تسلسل کے ساتھ بجایا کہ اس کی دھن پڑھتے پڑھتے‘ لوگوں کی نگاہیں تھک گئیں۔ اس ٹولے میں دو افراد نمایاں تھے۔ ایک پرانے زمانے کے گراموفون ریکارڈ کے لیبل کی طرح‘ ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر ہذیان بکتا اور دوسرا اپنے چہرے کی سیاہی سے اخباری کالم بھرتا رہتا اور یہ دونوں بات اس پر ختم کرتے کہ ''صدر زرداری کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘ ابتدا میں انہوں نے یہ تھیوری دی کہ فوج انہیں نکال دے گی اور اپنے دلائل پر خود ہی فریفتہ ہو کر پیش گوئیاں کرنے لگے کہ زرداری حکومت دسمبر کے بعد نہیں رہے گی۔ ہمارے ایک عزیز نے تو اس تھیوری سے متاثر ہو کر پوری نظم لکھ ماری‘ جس کا عنوان تھا ''اسے کہنا دسمبر آ رہا ہے۔‘‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے‘ جب قلمی قو الوں کی پوری ٹیم‘ ایک ہی دھن پر تالیاں بجاتے ہوئے‘ ایک ہی بول دہرا رہی تھی ''دسمبر میں زرداری حکومت ختم ہو جائے گی۔‘‘ مگر وہ سال گزر گیا۔ زرداری صاحب وہیں رہے۔ جنوری فروری میں یہ لوگ خفت کا کیچڑ دھو کر‘ اپنا منہ صاف کرتے رہے اور پھر جب انہوں نے سمجھا کہ لوگ ان کی کرتوتیں بھول چکے ہوں گے‘ تو یہ ایک نیا فلسفہ لے کر دوبارہ رقمطراز اور گویا ہوئے۔ فلسفہ یہ تھا کہ جنرل کیانی کو ملک کی تباہی و بربادی کا نوٹس لیتے ہوئے‘ ملک و قوم کے لئے کچھ کرنا چاہیے اور اس کا صرف ایک طریقہ ہے کہ صدر زرداری کو نکال دیا جائے۔ جنرل کیانی سے دردمندانہ اپیلیں اتنی کثرت سے کی گئیں کہ یہ لوگ خود ہی باور کر بیٹھے‘ اب زرداری کی خیر نہیں۔ دوسری طرف اپنے ہی پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر قلمی قوال اور گراموفون ریکارڈ کے لیبل میں پناہ گزین شخص ‘ازخود اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ ان کی مخالفانہ مہم سے صدر زرداری پریشان ہوں گے اور اب اگر وہ‘ ان سے ملاقات کے لئے چلے گئے‘ تو یقینا درخواست کر کے انہیں منہ مانگے منصب پیش کر دیں گے۔ یہ دونوں دُمیں ہلاتے ہوئے کوئی غیر رسمی ذریعہ اختیار کر کے‘ ایوان صدر میں جا پہنچے۔ صدر زرداری کو اس کی خبر نہیں تھی۔ انہوں نے کوئی نہ کوئی دائو لگاکر صدر زرداری کو اپنی آمد کی اطلاع کر دی۔ یہ اس خیال میں تھے کہ صدر صاحب نام سنتے ہی انہیں فوراً طلب کر لیں گے۔ مگر زرداری صاحب کی طرف سے انہیں گھاس پیش کرنے کا اشارہ تک نہ ملا۔ گھنٹوں انتظار کے بعد‘ یہ دونوں پیر پٹختے ہوئے ایوان صدر سے باہر نکل آئے اور اس کے بعد زرداری صاحب کے خلاف ان کی مہم میں زیادہ تندی و تیزی آ گئی۔ باقی سارا عرصہ یہ چیختے چلاتے اور گلا بیٹھ جانے پر غراتے ہوئے‘ زرداری صاحب کا عرصہ اقتدار جوں توں کر کے گزارتے رہے۔ زرداری صاحب اپنے پانچ سال پورے کر کے شان و شوکت کے ساتھ ایوان صدر سے رخصت ہوئے۔ نئی منتخب پارلیمنٹ نے انہیں عزت و آبرو کے ساتھ الوداع کہا۔ یہی وہ بات تھی‘ جو میں مسلسل لکھا کرتا تھا اور یہ اس پر تلملایا کرتے تھے۔ خدا کا کرم تھا کہ میری باتیں درست ثابت ہوتی رہیں اور ان کا لکھا ہوا‘ کالک بن کر واپس ان کے چہروںکا رخ کرتا رہا۔
آج کافی دنوں کے بعد قلمی قوال کو میرا کالم ''بلاول --بیٹا یا نواسہ؟‘‘ پڑھ کر دل کے پھپھولے پھولنے کا موقع نظر آیا اور اس نے جی بھر کے اپنے ذہن کی سڑاند نکال کر میری طرف پھینکنے کی کوشش کی‘ جو واپس انہی کے رخ مبارک کی طرف پلٹ گئی۔ انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ میں زرداری صاحب کے دور اقتدار میں‘ تو ان کے قصیدے پڑھتا رہا اور اب ان پر تنقید کر رہا ہوں۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں۔ میرے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میں نے زرداری صاحب کے طرز حکومت کی تعریف میں کبھی ایک لفظ نہیں لکھا۔ میں نے ان کی اسی حیثیت کو برقرار رکھنے پر اصرار کیا‘جو لرزتے کانپتے ہوئے جمہوری نظام کے سرے کی گانٹھ بن کر اسے بچا رہی تھی۔ میرا اصرار‘ صرف جمہوریت کے تسلسل پر رہا۔ ان پانچ برس کے کالموں میں کوئی ایک لفظ ایسا نکالیں‘ میں نے جس میں یہ لکھا ہو کہ زرداری کی حکومت کارنامے انجام دے رہی ہے۔ حکومت پر جب بھی تنقید ناگزیر ہوئی‘ میں نے اس سے گریز نہیں کیا۔ ان کے پہلے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بارے میں تو یہاں تک لکھا کہ صدر صاحب ان کی کارکردگی پر لکھی گئی وہ رپورٹیں ضرور ملاحظہ فرما لیں‘ جو ان کے دفتر میں پڑی ہوئی ہیں اور اگر اور کچھ نہیں توان رپورٹوں کو واپس وزیراعظم کے ملاحظے کے لئے ہی بھیج دیں۔ وہ بھی میں ہی تھا‘ جس نے وزیراعظم کے بارے میں ایم بی بی ایس (میاں بیوی بچوں سمیت) کی اصطلاح استعمال کی۔ماضی میں صدر زرداری کا جو کردار رہا‘ اسے میں نے ان کے دور اقتدار میں ہی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے حق میں کلمہ خیراس وقت لکھا‘ جب وہ قید میں پڑے تھے اور ان کی رہائی کے آثار دور تک دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ جب وہ اقتدار میں آئے تو پانچ سال کے دوران میری اور ان کی صرف تین سرسری ملاقاتیں ہوئیں۔ اسلام آباد میں میرا جو پلاٹ روگ بن کر قلمی قوال کو لگا ہوا ہے‘ اس کی درخواست شوکت عزیز کے زمانے میں‘ میں نے ایک اشتہار پڑھ کر دی تھی۔ اس کے بعد کسی سے کچھ نہیں کہا۔ حکومت تبدیل ہونے کے بعد‘ میں نے اس وقت کی وزیراطلاعات شیری رحمن سے ذکر کیا۔ انہوں نے وہی درخواست تلاش کر کے‘ مجھے صحافیوں کے مخصوص کوٹے میں سے ایک پلاٹ دے دیا۔ جہاں صحافیوں کے لئے پلاٹ رکھے گئے ہیں‘ اس جگہ ابھی ترقیاتی کام بھی شروع نہیں ہو سکا۔
زرداری صاحب کی بطور صدر موجودگی میرے نزدیک جمہوری نظام کے لئے کِلّے (کھونٹے) کی حیثیت رکھتی تھی۔آمریت کے جو شیدائی‘ صدر زرداری کو بار بار ہدف بنا رہے تھے۔ درحقیقت اس کِلّے کو اکھاڑنے کے چکر میں تھے اور میں نے سارا زور کِلّے کو بچا کے رکھنے پرصرف کر رکھا تھا۔ خوش قسمتی سے اپوزیشن کے سب سے بڑے لیڈر اور مستقبل کے وزیراعظم‘ نوازشریف بھی اس وقت یہی چاہتے تھے اور انہوں نے کِلّہ اکھاڑنے کی ہر کوشش کو ناکام بنا کر‘ پرامن انتقال اقتدار کی روایت بحال کرنے میں شاندار کردار ادا کیا۔ مجھے فخر ہے کہ میرا شمار جمہوریت کو بچانے والوں میں ہوتا ہے۔ جمہوریت کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کرنے والوں میں نہیں۔ یہ بڑا باریک معاملہ تھا۔ زرداری حکومت اپنی کارکردگی میں ناقابل دفاع تھی۔ لیکن زرداری صاحب نے بطور صدر اپنی مدت اقتدار کی ساکھ بچانے پر خصوصی توجہ مرکوز رکھی۔ قلمی قوال اور اس کے ساتھی ‘ چیف جسٹس آف پاکستان سے امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ ان کے دل کی مرادیں وہ پوری کر دیں گے۔ مگر یہاں بھی وہ بے مراد رہے۔ قانونی ماہرین نے صدر کا استثنیٰ ختم کرنے کی کوشش کی۔ ناکام رہے۔ سوئس مقدمات میں انہیں پھنسانے کے جتن کئے گئے۔ اس میں بھی انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ جنرل کیانی کو شروع میں درخواستیں اور التجائیں کر کے اور بعد میں دھمکیاں دے کر جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لئے کہا۔ اس کوشش میں بھی ناکام ہوئے۔ کسی بھی فرد یا گروہ کو جو خود کو صحافی یا دانشور سمجھتا ہو‘ پانچ سال تک اپنے اندازوں میں مسلسل منہ کی کھانی پڑے‘ تواس کے گال بھی سوج جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ بھول کر‘ ایسے شخص کو گالیاں دینے کے لئے بڑے حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے‘ جس سے وہ قدم قدم پر مات کھاتے رہے ہوں۔ اب ایک بالکل نیا دور ہے۔ پیپلزپارٹی زبردست انتخابی شکست کے بعد بے حوصلہ ہو چکی ہے۔ زرداری صاحب نے اپنے دور میں پارٹی کی قیادت کے لئے جن لوگوں کو چنا‘ ان کی اکثریت منظور وٹوئوں پر مشتمل ہے۔ اب ایسے لوگوں کا دور نہیں رہا۔ زرداری صاحب نے پانچ سال تک جمہوریت کو بچا کر جو کارنامہ انجام دیا‘ اس کا عوام کو براہ راست کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جو فائدہ پہنچا وہ آئینی اور اخلاقی ہے اور ایسے کاموں کے نتائج برسوں نہیں‘ عشروں میں سامنے آتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے سامنے پوری زندگی پڑی ہے۔ انہیں پارٹی کو ازسرنو تعمیرکرنا ہے۔ ان کے نام پر ابھی کوئی داغ دھبہ نہیں۔ لیکن داغ دھبوں والوں نے ان کے گرد گھیرا تنگ کر دیاہے اورکرتے جا رہے ہیں۔ یہی حال رہا تو بلاول کا صاف ستھرا چہرہ کسی کو دکھائی نہیں دے گا‘ چاروں طرف داغ ہی داغ ہوں
( صفحہ5بقیہ نمبر1)
گے۔ سونیا گاندھی پر غیرملکی ہونے کا الزام لگا‘ تو انہوں نے اپنے آپ کو پیچھے کر کے‘ پارٹی قیادت کو آگے کر دیا اور کانگریس کھویا ہوااقتدار دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ زرداری صاحب کے پاس بھی موقع ہے کہ وہ بیٹے کو آگے کر کے‘ پارٹی منظم کرنے کی ذمہ داری اس کے سپرد کرکے‘ خود کو رہنمائی کے لئے محدود کر دیں۔اب ہمہ وقت جمہوریت کی نگہداری کا نازک دور گزر چکا ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی مدت اقتدار پوری کر کے‘ تاریخ کے کٹہرے میں کھڑی ہو چکی ہے۔ ا س پر کرپشن کے مقدمے اب تفتیشی ایجنسیوں اور عدالتوں کے سپرد ہو چکے ہیں۔ حقائق سامنے آنے لگے ہیں۔آج ان کا ذکر کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ دوران اقتدار اگر زیادہ تنقید کی جاتی‘ تو اس کا نقصان صدر کو پہنچنا تھا‘ جس سے جمہوریت خطرے میں آ سکتی تھی۔ وہ خطرہ اب بڑی حد تک ٹلتا جا رہا ہے۔ کرپشن میں پھنسے ہوئے سابق اہلکار اور وزراء ‘ قانون کی گرفت میں آ رہے ہیں۔ مگر اب اس کا نقصان جمہوریت کو نہیں ہو گا ۔بلکہ فائدہ ہی پہنچے گا۔مزے کی بات یہ ہے کہ ذہن کی ساری سڑاند نکالنے کے بعد‘ قلمی قوال کو آخر کار میری ہی بات ان الفاظ میں ماننا پڑی ''یہ بات تو ٹھیک ہے کہ وہ (بلاول) اپنے والد کو جب تک عاق نہیں کریں گے‘ ان کی سیاست اسی طرح لوٹوں اور لوٹ پوٹ کرنے والے بیانات میں ہی گھن چکر بنی رہے گی۔‘‘ میں نے اپنے کالم میں یہی بات لکھی تھی۔ مگر والد کو عاق کرنے کے لئے نہیں کہا تھا۔ پارٹی سیاست سے الگ ہونے کی تجویز دی تھی اور یہ بات اب پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی سمجھ میں آنے لگی ہے۔ تخریبی اور تعمیری تنقید میں یہی فرق ہوتا ہے۔ جہاں تک آصف زرداری کا تعلق ہے‘ تنقید کا سامنا کرنے کے لئے جتنی قوت برداشت ان میں ہے‘ مجھے کسی لیڈر میں نظر نہیں آئی۔ میرے اور ان کے ذاتی تعلق کی ابتدا‘ اس وقت ہوئی تھی‘ جب میں ان پر ہر پہلو سے تنقید کر چکا تھا۔ کم ازکم مجھے ہرگز یہ اندیشہ نہیں کہ وہ میری نئی تنقید سے بدمزہ ہوں گے۔ اب تو شریف برادران بھی تنقید سننے اور پڑھنے کی عادت ڈال چکے ہیں۔ جس نجم سیٹھی کو وہ پولیس کے ذریعے اٹھوا کر‘ حوالات میں رکھتے تھے۔ آج اسے ایک حکمنامے کے ذریعے‘ نیم سرکاری محکمے کے سربراہ کے دفتر میں بٹھاتے ہیں۔یہ جمہوریت کے لئے ایک اچھی علامت ہے۔ عدم برداشت کی جگہ‘ برداشت کا رویہ پیدا ہونے لگا ہے۔