تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     10-12-2013

پٹواری کے بستے سے کمپیوٹرائزڈ پٹوارخانے تک

میری ابھی مَسیں نہیں بھیگی تھیں جب پہلی دفعہ تھانے اور پٹوار کے ظالمانہ اور فرسودہ نظام کے خاتمے کا مطالبہ اور وعدہ کانوں میں پڑا۔ آج جبکہ سارا سرسفید ہوچکا ہے اسی نعرے کی تکمیل کی بازگشت کانوں میں پڑرہی ہے مگر اس کے ساتھ ابھی تک وعدہ فروا کا دم چھلہ لگا ہوا ہے۔ اس ملک سے ممکن ہے ہماری زندگی میں پٹواری ختم ہوجائیں مگر مجھ جیسے رجائی شخص کو بھی '' پٹواری کلچر‘‘ ختم ہونے کے بارے میں معمولی سی خوش فہمی بھی نہیں ہے۔ خوشخبری ہے کہ پنجاب کا سارا نظام اراضی پٹواری کے ہاتھ سے نکل کر کمپیوٹر کے ہاتھ میں چلاجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ پٹواری کے خاتمے کے ساتھ راجہ ٹوڈرمل کا وضع کردہ '' بندوبست اراضی ‘‘ یعنی لینڈ سیٹلمنٹ کا برصغیر پاک و ہند میں ساڑھے چار سو سال سے جاری نظام تو ختم ہوجائے گا مگر کیا پٹوار کلچر بھی ختم ہوجائے گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ راجہ ٹوڈرمل کا نظام تو ساڑھے چار سو سال نکال گیا ہے کیا یہ نیا نظام جس کے ابھی آپریشنل ہونے میں کئی مرحلے اور شکوک و شبہات حائل ہیں اگر نافذ ہوبھی گیا تو کیا ساڑھے چار سال بھی چل پائے گا؟ پٹواری کسی سرکاری اہلکار کا نہیں ایک ذہنیت کا نام ہے۔
راجہ ٹوڈرمل کی جائے اور تاریخ پیدائش میں کافی کنفیوژن ہے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹوڈرمل لاہور میں پیدا ہوا مگر انگریزوں نے غلط فہمی اورزبان میں ترجمے وغیرہ کے گھپلے میں اسے بہار پور(اودھ) بنادیا۔ تاریخ پیدائش کے بارے میں تاریخ خود خاموش ہے ،تاہم تاریخِ وفات کے بارے میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ٹوڈرمل 8نومبر 1589ء میں اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔ اکبر کے نورتنوں میں سے ایک ٹوڈرمل نے عمر کا بیشتر حصہ لاہور یا اس کے نواح چونیاں میں گزارا۔اس کی حویلی کے کھنڈرات ابھی چونیاں کے پاس موجود ہیں۔ ٹوڈرمل اکبر کا وزیر خزانہ تھا جیسے اسحاق ڈار میاں نوازشریف کا وزیر خزانہ ہے۔ میں اس مماثلت پر ٹوڈرمل سے ازحد شرمندہ ہوں۔ مرے ہوئے کی بے عزتی کرنے پر اللہ رحمان و رحیم مجھے معاف کرے۔ ٹوڈرمل نے اکبر کی عظیم سلطنت کا نظام معیشت اپنی ذاتی صلاحیتوں سے چلایا نہ کہ آئی ایم ایف کے تعاون سے۔
ٹوڈرمل برصغیر کا بلکہ بیشتر کے نزدیک دنیا کا پہلا ماہر شماریات یعنی "Statistcian"تھا جس نے شیر شاہ سوری کے 1542ء کے لگ بھگ بنائے ہوئے اراضی کی پیمائش اور دستاویزی ریکارڈ میں مزید بہتری کرکے 1560ء کے لگ بھگ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے لیے برصغیر پاک و ہند میں ٹیکس کا ،مالیہ کا ، جنس پر لگان کا ، آمدنی پر محصول کا ایک اخلاقی نظام وضع کیا۔ دس سالہ یعنی 1570ء سے 1580ء کی کل زرعی آمدنی کا اوسط نکال کر محصولات ، لگان اور ٹیکس کا فارمولا وضع کیا۔ پورے ہندوستان کی زمین کا جائزہ لیا،تخمینہ لگایا اور پیمائش کی۔ موضع ، خسرہ، کھاتہ ، کھیوٹ اور کھتونی کا حساب کتاب رائج کیا۔ محصولات کی وصولی کے لیے علیحدہ عملہ مقرر کیا اور ہر اہلکار کے لیے علیحدہ علاقہ مخصوص کیا۔محصولات کی وصولی کا سارا نظام قاعدے قانون کے تحت لایا۔زمین کی زرخیزی اور اس حساب سے ہر علاقے کے لیے مختلف ٹیکس کی شرح مقرر کی۔تخمینہ لگانے کا وقت فصل کی کٹائی سے قبل کا مقرر کیا۔ ٹیکس ، لگان ، محصول کی وصولی کی رپورٹ روزانہ کی بنیاد پر صوبائی سیکرٹریٹ بھجوائی جاتی۔جمع شدہ ٹیکس کی رقم ہر ماہ کے اختتام پر خزانے میں جمع کروائی جاتی۔ خزانہ دار وصول شدہ رقم کی رسید کاشتکاروں کو جاری کرتا۔ کلکٹر کو تنخواہ سہ ماہی ملتی۔ ہر کلکٹر کے بارے میں دیوان سالانہ رپورٹ دیتا جس میں اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا تھا۔ ٹوڈرمل کا اصل کارنامہ پورے ہندوستان کی زمین کو ریکارڈ پر لاناہے۔ ٹوڈرمل کا یہی ریکارڈ پٹواری کے پاس آگیا۔مغلوں کے زوال کے بعد مرہٹوں اور انگریزوں نے بھی کم و بیش اکبر کے زمانے کا رائج کردہ ٹوڈرمل کا یہی وضع کردہ نظام نافذ کیا۔ یہ عظیم الشان اور ممکنہ حد تک غلطیوں سے مبّرا نظام جب پٹواری بادشاہ کے ہاتھ لگا تو اس نے
بڑے بڑوں کی چیخیں نکلوادیں۔
میں ایک بار ایک بڑے نامور اور باکمال صحافی کے پاس بیٹھا تھا۔میرے محترم صحافی گفتگو کرنے کے فن سے مالامال تھے اور موڈ میں ہوتے تو سماں باندھ دیتے۔ اس روز موڈ میں تھے۔ ایک ایم پی اے کا ذکر چل نکلا۔کہنے لگے : موصوف سیاست میں آنے سے پہلے پٹواری تھا اور کوئی ایسا ویسا پٹواری۔ ملتان سے ایم پی اے بننے والے رائے منصب علی سے بھی کہیں زیادہ پھنے خان، تگڑم اور پیدا گیر پٹواری ۔فیاض بشیر جیسا کاریگر ڈپٹی کمشنر بھی دیکھے تو شاگردی کی عرضی پیش کردے۔ایک بار مجھے (یہ '' مجھے ‘‘ سے مراد میں نہیں میرے محترم صحافی ہیں) کہنے لگا سرجی ! آپ مجھے لاہور میں کوئی پلاٹ دکھادیں میں آپ کے نام انتقال کردوںگا۔ پھر کہنے لگا آپ کو یہ پلاٹ میں آپ کی آبائی جائیداد بناکردوں گا۔دو سو سال پرانی رجسٹری کردوںگا۔ آپ کے پڑدادا کے نام کی۔ اگر کہیں تو اس کے بھی ابا جان کی۔ پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے ؟ کہنے لگا کئی سال پہلے کلکتہ کے سرکاری پریس کی ردی فروخت ہوئی تھی۔ میرے آدمی نے وہ ساری ردی نیلامی میں خرید لی تھی ۔ اس ردی میں برٹش انڈیا کے دور کے ملکہ وکٹوریہ کے ، ولیم چہارم کے ، جارج پنجم کے اور جارج
ششم کے زمانے کے سرکاری کاغذ تھے ۔عدالتی اشٹام تھے ۔رجسٹری اور بیع نامے کے کاغذ تھے ۔اصلی پیلے رنگ کے اور پرانے، جن میں اندر بادشاہ کی تصویریں اور حکومت ہند کے مونو گرام تھے ۔ سورج کی طرف کاغذ کریں تو سب نظر آتے تھے۔ میرے پاس ان اصلی اور پرانے کاغذات کا ،اشٹاموں کا ، بیان حلفیوں کا اور تملیک ناموں کا صندوق بھرا پڑا ہے جو خالی ہیں۔ جو چاہوں لکھدوں اور جیسا چاہوں ریکارڈ بنا دوں۔ بس سرجی ! آپ اشارہ کریں۔ کوئی پلاٹ دکھائیں جو آپ کو پسند ہو۔ پھر میرا کام ، فنکاری اور ہاتھ کی صفائی دیکھیں۔ کسی کا باپ بھی جعل سازی ثابت نہیں کرسکتا۔ ٹوڈرمل کا نظام ایسے پٹواریوں کے ہاتھ میں آگیا تھا۔ لیکن پٹواری بھی کیا کرتا؟ سرکاری افسروں کے دورے کا خرچہ ، وزیروں کے جلسوں کااہتمام اور اپنے علاقے کے ممبران اسمبلی کو منتھلی کی ادائیگی۔ پٹواری نے یہ سارا خرچہ فرد لینے والوں اور انتقال کروانے والوں پر ڈال دیا۔ پٹواری کی ساری طاقت اس کے بستے میں تھی۔ وہ اپنے بستے کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گیا۔
کل لاہور کینٹ میں پہلے کمپیوٹرائزڈ '' پٹوارخانے ‘‘ کا افتتاح تھا۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف کا یہ پراجیکٹ نہ صرف یہ کہ بڑا انقلابی نظر آتا ہے بلکہ واقعتاً انقلابی ہے بھی۔ سنٹر میں داخلے سے لے کر فرد ملکیت جاری ہونے اور انتقال مکمل ہونے تک تمام مراحل کمپیوٹرائزڈ ہیں۔ داخلے کے ملنے والا ٹوکن اور حاصل ہونے والی فرد ملکیت ، سب پر وقت کا اندراج ہے۔ تقریباً ہر مرحلہ شفاف ہے اور آسان بھی۔ ہر موضع اپنے مکینوں اور اراضی کے مالکان کے مکمل کوائف کے ساتھ کمپیوٹر میں موجود ہے۔ آپ اسے اپنے کمپیوٹر پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بارش کا پہلا قطرہ ہے ۔ پنجاب بھر کی ایک سو تینتالیس تحصیلوں میں سے اٹھانوے تحصیلوں کا سارا لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوچکا ہے اور بقیہ پینتالیس تحصیلوں کا ریکارڈ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ امید ہے اگلے سال کے آخر تک پنجاب کی اراضی کا مکمل ریکارڈ پٹواری کے بستے سے نکل کر کمپیوٹرائزڈ پٹوارخانے میں منتقل ہوجائے گا۔اگر معاملات اسی طرح چلیں جیسا کہ گمان کرکے یہ سارا منصوبہ ڈیزائن کیا گیا ہے تو عوام کو اپنی اراضی کے کاغذات کا حصول آسان بھی ہوجائے گا اور سستا بھی۔ لیکن ! یہ تبھی ممکن ہے جب یہ سارا نظام اسی طرح چلایا جائے جیسا کہ پروگرامنگ کرتے وقت گمان کیاگیا ہے۔ کمپیوٹر خود کچھ نہیں کرتا، وہ ہدایات اور احکامات کا غلام ہے۔ اپنے آپریٹر کا محتاج۔ اسے چلانے کے لیے جو عملہ ہے وہ ممکنہ حد تک صاف اور شفاف طریقے سے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی کیاگیا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان مرد و خواتین۔ ماسٹر ڈگری ہولڈرز۔ لیکن میاں صاحبان نے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پڑھے لکھے نوجوان براہ راست انسپکٹر بھرتی کئے تھے۔ پولیس کا نظام کیا بدلنا تھا اور کیا بہتری آنی تھی؟ پڑھے لکھے نوجوان پولیس ڈیپارٹمنٹ میں آئے تو نہ صرف کان نمک میں نمک بن گئے بلکہ پرانے روایتی تھانیداروں کو کئی نئی جہتیں متعارف کروا دیں۔ تھانہ کلچر اور تھانیداری ،یہ ایک رویے کا نام ہے ۔ اسی طرح پٹواری کسی فرد یا سرکاری اہلکار کا نام یا عہدہ نہیں ۔ ایک سوچ کا ، ایک مکتب فکر اور ایک رویے کا نام ہے۔پٹواری ہونا ایک کیفیت ہے اور یہ کمپیوٹر پر بیٹھے ہوئے پڑھے لکھے نوجوان پر بھی طاری ہوسکتی ہے۔ ایسی صورت میں کمپیوٹر پٹواری کا بستہ ، آپریٹر پٹواری اور کمپیوٹرائزڈ اراضی سنٹر پٹوارخانے میں تبدیل ہوجائے گا۔ اگر پٹواری ذہنیت اس سنٹر میں داخل نہ ہوئی تو راوی چین اور مورخ شہبازشریف کے کریڈٹ میں یہ کارنامہ لکھ دے گا۔ بصورت دیگر اس سارے نظام میں ورلڈ بینک کا قرضہ باقی بچے گا جو ہم اپنی جیب سے ادا کریں گے اور پٹواری کا بستہ ترقی پاکر کمپیوٹر بن جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved