امریکہ سے اب کوئی بھی دشمن برداشت نہیں ہو پارہا، خواہ اُس کا تعلق حیوانوں کی دُنیا ہی سے ہو۔ صرف گدھوں اور ہاتھیوں کو استثنٰی حاصل ہے۔ امریکہ میں سیاسی سطح پر گدھے اور ہاتھی کو چونکہ غیر معمولی مرتبہ حاصل ہے اِس لیے امریکی پالیسی میکرز جن ممالک کو نشانے پر لیتے ہیں اُن کے گدھوں کو الگ کرکے گلے سے لگاتے ہیں! اور پھر یہ گدھے اپنی قوم کے لیے ہاتھی ثابت ہوتے ہیں، پورس کے ہاتھی! وائٹ ہاؤس کے خوانِ نعمت سے چَرنے والے کئی سفید ہاتھی ہمارے نصیب میں بھی لکھے ہوئے ہیں اور آئے دِن پلٹ کر ہمیں روندتے ہیں!
بحر الکاہل میں امریکہ کے زیر انتظام جزیرے گوام میں سانپوں کی بہتات سے اوباما انتظامیہ اِس قدر پریشان ہے کہ سانپ مارنے کا باضابطہ پروگرام شروع کردیا ہے۔ گوام کے معاملے میں زیادہ پریشانی یوں بھی ہے کہ یہاں امریکی فوج کا ایک بڑا اڈا بھی ہے۔ گوام میں سانپوں کی بہتات سے تو اوباما انتظامیہ پریشان ہے اور اُن علاقوں کا اُسے ذرا بھی خیال نہیں جہاں امریکی پالیسیاں اژدہوں کی طرح سب کچھ نگلتی جارہی ہیں۔ مگر کیا روئیے کہ چراغ تلے اندھیرا ہی ہوتا ہے۔
گوام میں امریکی فوجی بھی تعینات ہیں۔ ظاہر ہے اِس علاقے میں ایک وقت میں ایک ہی نوع کے سانپ رہ سکتے ہیں، اِس لیے اوباما انتظامیہ نے بے زبان سانپ ختم کرنے کے لیے زہریلے مُردہ چوہے گتے کے پیراشوٹس کی مدد سے اُتارنا شروع کیے ہیں، پورا پروگرام 80 لاکھ ڈالر کا ہے۔ ایک مُردہ چوہے کو زہر میں ڈبونے پر چار ہزار ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں دو ہزار چوہے برسائے گئے۔ اس اقدام پر امریکی چیخ پڑے ہیں۔ اور کیوں نہ چیخیں؟ اُن کی محنت کی کمائی ایک فضول اور بے ڈھنگے پروگرام پر ضائع ہو رہی ہے۔ اِس پروگرام کا بے ڈھنگا پن ثابت کرنے کے لیے اِتنا ہی کافی ہے کہ اِسے امریکی پالیسی میکرز نے تیار کیا ہے!
گوام میں چوہے برسائے جانے کی خبر کا شائع اور نشر ہونا تھا کہ تنقید کے پتھر برسنے لگے۔ ایک طرف تو اوباما انتظامیہ کو لتاڑا جارہا ہے اور دوسری طرف ''صائب‘‘ مشوروں سے نوازا بھی جارہا ہے۔ ایک صاحب نے مشورہ دیا کہ اگر صدر بارک اوباما اور ''خانۂ سفید‘‘ میں اُن کے (کالے کرتوتوں کے) ساتھی مل کر گوام میں کود جاتے تو سانپ مارنا بہت آسان ہوجاتا کیونکہ یہ لوگ جہاں بھی جاتے ہیں وہاں کے زہریلے لوگ اِن کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور چند ایک کو تو یہ ساتھ بھی لے آتے ہیں!
چند ایک امریکیوں نے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ اُن کا مشورہ ہے کہ چار ہزار ڈالر کا ایک مَرا ہوا زہریلا چوہا گوام میں پھینکنے سے بہتر ہے کہ اُنہیں سانپ مارنے پر مامور کردیا جائے۔ وہ اِس سے کہیں کم خرچ پر گوام کے سانپوں کا نام و نشان مٹادیں گے۔ ہمیں تو یہ امریکی بڑھک باز معلوم ہوتے ہیں۔ اگر وہ زہریلی مخلوق کے ایسے ہی شکاری ہوتے تو واشنگٹن میں آج ہر طرف اژدہے نہ بھٹک رہے ہوتے!
بہت سے امریکیوں نے زہریلے مُردہ چوہے کھلاکر سانپ مارنے کی کوشش پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے ہمیں معلوم تھا ایک دن یہ حماقت بھی سرزد ہوگی۔ ہماری ہمدردیاں امریکی عوام کے ساتھ ہیں جن کا کام اب حکومت کی حماقتیں اور ناکامیاں گننا رہ گیا ہے!
چند ایک تبصروں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گوام میں جو زہریلے چوہے پھینکے جارہے ہیں اُن سے کہیں کم لاگت کے زہریلے چوہے امریکہ میں دستیاب ہیں۔ بے چارے امریکی! کیا اُنہیں معلوم نہیں کہ ایسے چوہوں کی سکیورٹی بہت سخت ہوا کرتی ہے؟
بہت سے امریکی یہ سوچ کر حیران ہیں کہ دو ہزار چوہوں سے ہوگا کیا؟ ایک لاکھ 63 ہزار کی آبادی والے گوام میں 20 لاکھ سے زائد بُھورے سانپ ہیں! امریکی فوجیوں کی تعیناتی کیا کم تھی جو اِن اِضافی و اصلی سانپوں نے بھی جزیرے میں سیاحت کی صنعت کو ڈس لیا! گوام میں پرندے بھی ناپید ہوچلے ہیں کیونکہ سانپ اُن کے انڈے اور بچے چٹ کر جاتے ہیں۔ جہاں امریکی ہوں وہاں پر نوعِ حیات خطرے میں پڑ جایا کرتی ہے!
گوام کے سانپ بجلی کی تنصیبات میں داخل ہوکر بریک ڈاؤن کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اُنہوں نے یہ خصلت یقینی طور پر امریکیوں کی صحبت میں سیکھی ہوگی۔ امریکی بھی اپنے مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر کمزور اقوام کے پورے گرڈ کو اِسی طور بریک ڈاؤن کے گڑھے میں دھکیل دیتے ہیں!
20 لاکھ سانپوں کے لیے صرف دو ہزار چوہے! کیا امریکی حکومت ڈھیروں کے حساب سے پائے جانے والے زندہ سانپوں کو چند مَرے ہوئے چوہوں کے لیے آپس میں لڑوانا چاہتی ہے؟ پھر تو اِسے خاصا سیاسی اور اسٹریٹیجک پروگرام کہیے! امریکہ جہاں کہیں بھی اپنے دُشمنوں کو ختم کرنا چاہتا ہے ایسی ہی حکمتِ عملی اختیار کرتا ہے۔ کچلی ہوئی اقوام میں ایسے لالچی سانپوں کی کمی نہیں جو امریکہ کے پھینکے ہوئے زہریلے مُردہ چوہوں کو بھی نعمتِ غیر مرقّبہ سمجھ کر نگلتے ہیں اور پھر قوم کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے فخر سے سینہ پُھلاکر ڈکار لیتے ہیں!
امریکی ٹیکس دہندگان کا اعتراض اِس بات پر بھی ہے کہ سانپ مُردہ چوہے نہیں کھایا کرتے۔ ممکن ہے اوباما انتظامیہ نے سوچا ہو یہ سانپ 1950ء کے عشرے سے ہمارے لوگوں کے درمیان ہیں تو شاید مُردار کھانا سیکھ لیا ہو! امریکی پالیسی میکرز بھی ''مَرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق اُنہی لوگوں پر حملوں کے منصوبے بناتے ہیں جو حالات کے قمار خانے میں زندگی کی بازی ہار چکے ہوتے ہیں!
ویسے امریکی عوام کو زیادہ حیرت ہونی نہیں چاہیے۔ امریکی حکومت اپنے پیدا کردہ زہر کا خاتمہ اِسی طور کیا کرتی ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن میں بھی اُسامہ بن لادن کو مارنے کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا گیا۔ امریکہ نے پہلے چند مقامی چوہوں سے مدد لی، پھر ہیلی کاپٹرز کے ذریعے چند تربیت یافتہ اسپیشل چوہے اُتارے۔ اور کام ہوگیا!
لوگ امریکہ کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے کہ وہ احسان فراموش ہے، کام نکل جانے پر پلٹ کر نہیں دیکھتا اور سابق ساتھیوں کے مفادات کا خیال نہیں رکھتا وغیرہ وغیرہ۔ ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ امریکہ اپنے پالے ہوئے سانپ بھی ختم کرتا ہے مگر ایسا وہ صرف اُس وقت کرتا ہے جب اُس کے اپنے مفادات کو خطرات لاحق ہوں! جن میں عقل ہے وہ اپنی بھلائی کی خاطر امریکی مفادات کے لیے تھوڑے بہت خطرات پیدا کرتے رہتے ہیں!
گوام میں سانپ ختم کرنے کے اور بھی کئی طریقے ہوسکتے تھے۔ اسنائپرز تعینات کرکے سانپوں کو نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔ مگر صاحب! امریکی اسنائپرز کے لیے سانپوں کو نشانہ بنانے میں کیا کشش ہوسکتی ہے؟ وہ تو بے بس، نہتے اِنسانوں (بالخصوص مسلمانوں) کو نشانہ بنانے کے عادی اور ماہر ہیں! جہاں جوابی وار کا اور انتقاماً ڈسے جانے کا ذرا بھی خطرہ ہو وہاں امریکی انسائپرز کا پایا جانا بعید از قیاس سمجھیے۔
دوسرا بہتر طریقہ یہ ہوسکتا تھا کہ سانپوں پر ڈرون حملے کئے جاتے۔ مگر اِس میں بھی ایک قباحت تھی۔ امریکہ بھر میں سانپوں کے حقوق کے علم بردار اُٹھ کھڑے ہوتے! گوام کوئی مسلم اکثریت والا علاقہ تو ہے نہیں کہ بے فکری سے ڈرون برسائے جائیں! اور پھر ڈرون سے میزائل برسا تو دیے جاتے مگر وہ میزائل سانپوں کو نشانہ کیسے بناتے؟ اِن میزائلوں کی پروگرامنگ کچھ ایسی ہے کہ صرف مسلمانوں کو پہچانتے اور اُنہی پر پَھٹتے ہیں!