یقین جانیے، میں اس قدر خوف زدہ ہو چکا ہوں کہ سمجھ نہیں آتا کچھ لکھ بھی سکوں گا یا نہیں۔یہ دسمبرکاپہلا عشرہ ہے،جب اپریل شروع ہو گا اورگھروں میں پنکھے اور بعض میں ائرکنڈیشنر چلائے جائیں گے تو ان میں رہنے والے، بجلی کے بل کس مشکل سے اداکریںگے؟نومبر میں کوئی پنکھا نہیں چلا مگر لیسکو کی جانب سے تھمایا جانے والا بجلی کا بل آٹھ سے دس ہزار روپے ہے۔یہ سوچ کرخوف آتا ہے کہ اپریل کابل کتنا ہوگا اورصارفین کی کیا حالت ہو گی؟گویا، فکر فردا نہ کروں محوِغمِ دوش رہوں۔ وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف دوماہ ہوئے ایک ٹی وی انٹرویو میں فرما رہے تھے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم ہو جائے اور ہروقت بجلی میسر رہے توپھرعوام کو مہنگی بجلی خریدناہو گی۔ اگر یہی بات پیپلز پارٹی کی سابق معتوب حکومت کے کسی وزیر بے ترتیب نے کی ہوتی تو ہمارے میڈیا نے اس کی اس ''ہرزہ سرائی‘‘ پر آسمان سر پر اٹھا لیاہوتا۔راجہ پرویزاشرف کا قصور یہی تھا کہ انہوں نے ایک سال بعد لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی نوید سنائی تھی لیکن وہ ایسا نہ کر سکے جس پرآج تک ہرکوئی اٹھتے بیٹھتے ان پر تبرا بھیج رہا ہے اور شائد اسی لیے راجہ پرویز شرف کہے جا رہے ہیں کہ'' ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام۔۔۔وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا‘‘۔ چند دن قبل مجھے لیسکوکی جانب سے بھیجا گیا ماہ نومبرکا بجلی کا بل موصول ہوا،اس میں واجب الادا رقم8463 روپے پرنظر پڑی تومجھ سمیت سب گھر والوں کے ہوش وہواس اڑگئے ،گھر کی خواتین اور بچے بجلی کے بل کو یوں دیکھ رہے تھے جیسے گھر میں کسی نے ٹائم بم رکھ دیا ہو، ہر فرد اس کاغذی شیر کو خوف زدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا، اگرکوئی ہمت کر کے اس بل عرف کاغذی شیر کو ہاتھ میں لے کرغور سے دیکھنے کی ہمت کر لیتا تووہ ایک لمبی سانس لے کر اسے آگے کی طرف بڑھا دیتا۔ سب گھر والے ایک ایک کر کے اس بل کو دیکھنے کے بعد چپ سے ہو گئے، کسی کے منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی، کچھ کہنے کے بجائے سب خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، کسی کوسمجھ نہیں آ رہے تھی کہ تین کمروں کے گھر کا ایک مہینے کابل جس میں ائرکنڈیشنرتودورکی بات ہے پنکھا تک بھی استعمال نہیں ہوا تھا،اس قدر زیا دہ کیوں ہے؟
یہ کہانی مصطفی ٹائون لاہور سے سیف الدین صاحب کی جانب سے بھیجے گئے خط میں بیان کی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ماہ نومبر کا بجلی کا بل میرے سامنے ہے، اس میں لکھی گئی ریڈنگ کے مطا بق انہوں نے 447 یونٹ بجلی استعمال کی جس کی قیمت5989 روپے ہے، اس پر نہ جانے کون کون سے ٹیکس اور 1033 روپے کا جنرل سیلز ٹیکس نافذ کیا گیا ہے۔90 روپے محصول بجلی کے نام پربھی درج ہیں۔ ہم نے تو یہی سنا تھا کہ میاں نواز شریف نے کئی سال ہوئے ہر قسم کی محصول چونگی کو ختم کر دیا ہے، یہ نہ جانے کون سا محصول ہے جو بجلی کے صارفین سے ہر ماہ وصول کیا جا رہا ہے۔سیف الدین نے اپنے خط میں روزنامہ دنیا کی اس خبر کابھی حوالہ دیا ہے جس میں تین سو سے کم یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو لیسکو نے اپنی طرف سے بطور' تحفہ‘ زائد یونٹ ڈال دیے۔وہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھ بھی یہی کچھ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے بجلی کے بل کی ریڈنگ کی تاریخ لیسکو کے ریکارڈ کے مطا بق13 نومبر ہے اور انہیں یہ بل25 نومبر کی شام موصول ہوا۔انہوں نے بجلی کے میٹر کی ریڈنگ چیک کی تو وہ بہت ہی کم تھی لیکن خواجہ آصف صاحب کے فرمان اور لیسکو کے تعاون سے ان کا شمار بھی تین سو سے زائد یونٹ استعمال کرنے والے امراء کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ۔ خواجہ صاحب کا فرما نا ہے کہ دو سو یونٹ استعمال کرنے والے غریب اور تین سو اور اس سے اوپراستعمال کرنے والے امیر لوگ ہوتے ہیں۔
وطن عزیزمیں نومبر2012ء میں جب پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری صاحب کی حکومت تھی تو اس وقت میرے گھر کا بجلی کا بل4328 روپے موصول ہوا تھا اور آج ایک سال بعد جب ملک میں مسلم لیگ نوازاور جناب محمد نواز شریف کی حکومت ہے تو میرا نومبر کا بجلی کا بل8463 روپے ہے۔صرف ایک سال میں یہ دوگنا فرق کیوں؟
بہت ڈرتے ڈرتے لکھ رہا ہوں،کہیں مجھ پر بھی آئین کے آرٹیکل 6 کا نفاذ نہ کر دیا جائے،نومبر2007ء میں جب فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی تو میرا اسی گھر کا ماہ نومبر کا بجلی کا بل صرف177 روپے تھا۔سیف الدین صاحب کا کہنا ہے کہ لیسکو، وزارت پانی وبجلی یا ملک کی کسی بھی حساس یا غیر حساس ایجنسی کو تین مختلف ادوار کے بجلی کے بل کے بارے میں دیے گئے اعداد و شمار پراگر کوئی شک ہے یا وہ سمجھیں کہ میں زیب داستان کے لیے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہوں تو وہ اقبال ٹائون ڈویژن کے نیاز بیگ سب ڈویژن اور میرے بل کے ریفرنس نمبر 091234 سے چیک کر سکتا ہے۔ جب میڈیا میں نومبر میں عوام کو وصول ہونے والے بجلی کے ان طوفانی بلوں پر شور مچنا شروع ہوا تو چند دن ہوئے جناب خواجہ آصف کی جانب سے عوام کوصبراور شکرکرنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ تسلیاں دیتے ہوئے کہاگیاہے کہ اپریل2014 ء تک یہ ستم برداشت کر لو،اس کے بعد بجلی کے ہر بل پر عوام کو خصوصی رعایت دی جائے گی۔ یہ تو وہی واپڈا والی بات ہوئی ! اگر کسی صارف کو بجلی کا بل زیا دہ موصول ہوتا ہے تو متعلقہ ایس ڈی او اور ایکسیئن سمیت دیگر اہل کار یہی کہتے ہیں کہ آپ جا کر پہلے یہ بل جمع کروادیں، ایسا نہ ہو کہ عدم ادائیگی پر آپ کا میٹر ہی کٹ جائے،اگرموجو دہ بل میں ہماری طرف سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو اگلے بل میں ٹھیک کر دیں گے۔ مگراگلا بل اس سے بھی زیا دہ بھیج دیا جاتا ہے ۔
سیف الدین صاحب کا خط ابھی سامنے ہی تھا کہ روزنامہ دنیا کی خبر سے معلوم ہوا کہ یہ اکیلے سیف الدین صاحب کی دکھ بھری داستان نہیں ہے بلکہ پورا پاکستان ہی اس عذاب میں مبتلا ہے۔ہم اپنے قابل احترام حکمرانوں اور لیڈروں سے استدعا کرتے ہیں کہ غریب عوام جو پہلے ہی تنگدستی کے ہاتھوں مررہے ہیں،انہیں مزید نہ ماریںکیونکہ اس سے آ پ کوبھی سوائے تباہی و بربادی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔