تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     11-12-2013

از خود نوٹس، وکلاء اور عوام

اسلام آباد کی عدالتوں سے لے کر اس ملک کے چھوٹے سے چھوٹے شہر کی عدالتوں تک چاروں طرف وکلاء کے رنگ برنگے بورڈ اور چھوٹے بڑے چیمبر نظر آئیں گے۔ عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی سے قبل ان کی کثیر تعداد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور اس کے زیر سایہ مجسٹریٹوں کی عدالتوں کے اردگرد بھی ڈیرے ڈالے ہوتی تھی۔ ایک آزاد اور متحرک پیشہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ سیاسی اکھاڑوں کے نمایاں شہسوار ہوتے ہیں۔ عام سیاسی کارکن سے لے کر بڑے بڑے سیاسی رہنمائوں کے ہجوم میں بھی ان کی قابلِ ذکر تعداد نظر آتی ہے۔ بہت کم ایسے وکیل ہیں جو اپنے شعبے میں اس قدر منہمک ہوں کہ انہیں ملکی سیاست کے اتار چڑھائو سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔ انہی وکلاء کے ہجوم میں سے ہی بڑی عدالتوں کی کرسیوں پر متمکن ہونے والوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے‘ بلکہ ایک عام ملازم جو سول جج کی حیثیت سے اپنی نوکری کا آغاز کرتا ہے، اپنی زندگی کے پچیس تیس سال مقدمے سننے اور فیصلے لکھنے میں صرف کرتا ہے، بہت کم عدالتِ عالیہ یا عدالتِ عظمیٰ کی نشستوں پر سرفراز ہونے کے خواب دیکھتا ہے۔ یہ وکیل عدل و انصاف، قوانین کی پاسداری، عدلیہ کی بالادستی اور آئین و قانون کی حکمرانی کے سب سے بڑے علمبردار ہوتے ہیں، ان کے نعروں میں فوری اور سستا انصاف مدت ہائے دراز سے چلا آ رہا ہے۔
لیکن ان وکیلوں کے گرد جوتیاں چٹخاتے سائلین کی بھی ایک دنیا ہے۔ یہ دنیا بہت المناک ہے۔ یہ دنیا ایسے بے یارومددگار لوگوں سے آباد ہے جن کو تھانے، پٹوار خانے، ٹیکس کے دفتر یا کسی اور عوامی محکمے سے انصاف نہیں ملا ہوتا۔ کسی پر جھوٹا مقدمہ بنایا گیا ہوتا ہے تو کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کروایا گیا ہوتا ہے۔ کوئی اپنے مقتول بیٹے کے بااثر قاتلوں کی وجہ سے پریشان ہوتا ہے تو کسی کو اصولوں پر قائم رہنے کی وجہ سے کسی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ نے نوکری سے برطرف کیا ہوتا ہے۔ کسی کی بیٹی گائوں کے بدمعاشوں کے قبضے میں ہوتی ہے تو کسی کی ساری عمر کی جمع پونجی کوئی نوسرباز بینکار یا کوآپریٹو ادارہ برباد کر چکا ہوتا ہے۔ ان کے لیے قانون کی زبان بھی اجنبی ہوتی ہے اور عدالتوں میں وکیلوں کے دائو پیچ بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتے۔ ان سائلین میں اکثریت کے چہرے حسرت و یاس کی تصویر ہوتے ہیں اور وہ ڈھور ڈنگر یا گھر‘ زمین وغیرہ بیچ کر اپنی کل کائنات مٹھی میں تھامے وکیل کے دروازے پر آ کر دستک دیتے ہیں۔ اس کے بعد ''فوری اور سستے انصاف‘‘ کے یہ علمبردار ان سائلین کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں وہ اس ملک کے نظامِ عدل کی خوفناک تصویر ہے جس نے اس ملک میں''سوئو موٹو‘‘ کو عوام کی امنگوں کا ترجمان بنا دیا ہے۔ اس ملک کے کسی وزیر اعظم، گورنر یا وزیر اعلیٰ کو آج تک اتنی درخواستیں وصول نہیں ہوئیں جتنی اکیلے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے قائم کردہ انسانی حقوق کے سیل کو ملی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب عام محفلوں اور ٹیلی ویژن کے مذاکروں میں بیٹھ کر یہ وکیل ''سوئو موٹو‘‘ یا از خود نوٹس کو انصاف کا قتل قرار دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر ماتحت عدلیہ کا نظام درست ہو جائے تو انصاف فوری اور سستا مل جائے گا اور بنیادی طور پر افتخار محمد چوہدری کے کرنے کا کام یہی ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ کبھی کسی نے ماتحت عدلیہ کے بوسیدہ کمروں اور پُرہجوم ماحول میں فوری اور سستے انصاف کے علمبردار ان وکلا کو نہیں دیکھا۔ 
جسٹس فلک شیر جب لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے‘ گوجرانوالہ میں متعین ایک سیشن جج نے فوری اور سستے انصاف کو یقینی بنانے کے لیے صرف ایک قدم اٹھایا تھا کہ اس نے وکلاء کو خواہ مخواہ تاریخیں دینے سے انکار کر دیا تھا۔ خواہ مخواہ تاریخیں جسے یہ لوگ (Adjournments) کہتے ہیں۔ تاریخیں لینے کے مقاصد ان وکیلوں پر تو خوب واضح ہوتے ہیں لیکن ان کی وجوہ بیان کرتے ہوئے یہ جس طرح سادہ لوح سائل سے کھیلتے ہیں اس پر ان کی روح کی مُردنی اور دل کی سختی پر آنسو نکل آتے ہیں۔ گوجرانوالہ کے وکلاء نے سیشن جج کے اس ''وکیل دشمن‘‘ رویّے کے خلاف ہڑتال کی اور عدالتوں کا بائیکاٹ کر دیا۔ مذاکرات کا سب سے اہم نکتہ یہی تھا کہ یہ سیشن جج ہمیں ریلیف (Relief) نہیں دیتا۔ سائلوں کو بے وقوف بنا کر مقدمے کو طول دینا اور اس طرح اپنی مستقل روزی کے بندوبست کرنے کو کس خوبصورتی سے ''ریلیف‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ایسے بہت سے احتجاج اس ملک کے طول و عرض میں پھیلی عدالتوں میں موجود وکیلوں کے رویے کی صورت تاریخ کا حصہ ہیں۔ ڈسٹرکٹ اور سب ڈویژنل مجسٹریٹ کی حیثیت سے میں نے نو سال عدالت کی کرسی پر گزارے۔ صرف اپنے تجربات کی بنیاد پر اگر میں ان وجوہ کو لکھنا شروع کروں جو یہ وکیل تاریخ مانگنے یا کیس کو طول دینے کے لیے بیان کرتے تھے تو الف لیلیٰ کی طرح ایک ہزار ایک رات تک کہانی سنائی جا سکتی ہے۔ ہر کیس کے ساتھ ایک علیحدہ کہانی ہوتی ہے اور ہر پیشی پر ایک مختلف عذر۔ گواہ نہیں آیا، مقدمہ پیش ہے لیکن وکیل دوسری عدالت میں، ملزم حاضر ہے تو تفتیشی غائب، تفتیشی حاضر ہے تو ملزم ندارد۔ اس سارے معاملے میں حیران کن بات یہ ہے کہ اپنے مؤکل کو بچانے کے لیے پولیس کو عدالت میں گمراہ کرنے کے گر بھی یہی وکیل ہی بتاتے ہیں۔ میڈیکل سرٹیفیکیٹ اور پوسٹ مارٹم میں مناسب تبدیلی کے مشورے بھی انہیں وکلاء کی فراست کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ جو آج ''سوئوموٹو‘‘ کو عدالتی نظام کی سستی روی کا باعث قرار دیتے ہیں‘ کیا گزشتہ پچاس سالوں میں عدالتی نظام میں ایک کیس کی اوسط عمر بتا سکتے ہیں؟ پورا ملک اس بات پر گواہ ہے کہ لوگوں کی عمریں وکیلوں کے چیمبروں اور عدالتوں کے دروازوں پر گزر جاتیں اور پھر بھی ان کے کیسوں کے فیصلے نہیں ہو پاتے۔ مقدمے نسل در نسل چلتے اور آج بھی چل رہے ہیں۔ ایسے میں'' از خود نوٹس‘‘ ایک مظلوم کی آواز کے براہِ راست اعلیٰ عدلیہ تک پہنچنے کا ذریعہ بنا تو لوگوں کی امیدیں اس کے سا تھ بندھ گئیں۔ 
یہ تو عام آدمی کے دکھ درد کی کہانی ہے۔ ایک دوسرا پہلو ہے جو اس سے بھی زیادہ تحیرّ کا باعث ہے، وہ ہے اس ملک پر قابض سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور دیگر بڑوں کی کرپشن‘ جسے عرفِ عام میں'' وائٹ کالر کرائم‘‘ کہا جاتا ہے۔ رشوت اور کرپشن کے گرم گرم نوٹوں سے تجوریاں بھری ہوں تو ملک کے بہترین وکیل کی خدمات آپ کو میسر آسکتی ہیں۔ وہ بڑا وکیل کیس کو عام عدالت سے شروع کرواتا ہے۔ اس کے تجربے اور رعب کے سامنے ایک عام اینٹی کرپشن جج کی کیا بساط؟ تاریخوں پر تاریخیں، بہانوں پر بہانے، میڈیکل سرٹیفیکیٹ، قانونی موشگافیاں، گواہوں کی عدمِ دستیابی۔ کئی سال بیت جاتے ہیں۔ کرپشن کی دولت سے کاروبار میں وسعت آ جاتی ہے۔ ملزم کم بااثر سے زیادہ بااثر ہو جاتا ہے۔ کبھی الیکشن جیتتا ہے اور کبھی اپوزیشن کا سرخیل ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ تک پہنچتے پہنچتے اس مقدمے کی حالت ایک نچوڑے ہوئے لیموں کی سی ہو جاتی ہے جس میں سے کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ ایسے میں ''از خود نوٹس‘‘ سے اگر کرپشن کی گاڑی کو چلتے ہی روک دیا جائے تو دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کیا کرپشن روکنا عدالت کا کام ہے؟ یہ تو انتظامیہ کا کام ہے۔ عدالت اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کر رہی ہے۔ وہ وکیل جس نے دس پندرہ سال ایک مقدمے کو لے کر چھوٹی عدالت سے بڑی عدالت تک جانا ہوتا ہے‘ اسے جب دو تین ماہ میں مقدمے کا فیصلہ ہوتے نظر آتا ہے تو اس کا دل ڈوب جاتا ہے اور ساتھ ہی اس کے موکل کی بھی آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ لیکن ان ایک لاکھ سے زائد وکلاء کو اندازہ نہیں کہ اس قوم نے جو محبتوں کے پھول ان وکیلوں کے قافلوں پر نچھاور کیے تھے‘ اس کی وجہ صرف اور صرف افتخار محمد چوہدری کے ان سوئو موٹو مقدمات کی باز گشت تھی جس کا آغاز وہ اپنے بلوچستان ہائی کورٹ کے زمانے سے ہی کر چکے تھے۔ لوگوں کی امیدوں کا ایک ہجوم تھا جو ان کے اردگرد تھا۔ اگر افتخار محمد چوہدری وکلاء کے درمیان موجود نہ ہوتے تو اعتزاز احسن ہوں یا علی احمد کرد، حامد خان ہوں یا منیر اے ملک لوگ ان کے قافلوں سے وہی برتائو کرتے جو یہ سلوک سائلوں سے مدتوں کرتے چلے آئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved