چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب آج ریٹائرڈ ہوجائیں گے ۔ چیف صاحب نے اپنے عہدے کی پوری ٹرم میں اپنے آئینی اختیارات کا بھرپور استعمال کیا ۔ان کے کئے فیصلوں سے عوام الناس کو فوائد بھی ہوئے ۔عوامی مفاد میں کئے گئے بعض فیصلوں پر عمل درآمدنہ ہوسکا جیساکہ سپریم کورٹ کی طرف سے چینی سستی کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔ پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت کو اپنے صدر آصف علی زرداری کے دفاع کے لئے اپنے منتخب وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کی ''قربانی ‘‘دیناپڑی تھی۔ یوسف رضا گیلانی دوتہائی سے زیادہ اکثریت (264ووٹ) حاصل کرکے مختلف پارٹیوں کے مشترکہ وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔یوسف رضاگیلانی نے 25مارچ 2008ء کے دن وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے فوری بعد جو حکم جاری کیاوہ نظربند ججوں کی رہائی سے متعلق تھا۔عجیب اتفاق ہے کہ مسمی یوسف رضا گیلانی کو لگ بھگ چار سال بعد اسی عدالت سے توہین عدالت کے مقدمہ میں ایک منٹ سزا سنائی گئی جس کے نتیجہ میں مشترکہ وزیر اعظم ڈس کوالیفائڈ (نااہل) قرار پائے تھے۔
ہمارا ریکارڈ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کو آزاد عدلیہ اپوزیشن میں بہت بھلی لگتی ہے‘ لیکن آزاد عدلیہ کے چیمپئن جب خود حکومت میں جلوہ گر ہوتے ہیںتوصورت حال ''تقریباََ‘‘ ویسی ہی ہوجاتی ہے جیسی ان کے مخالفین کے دور میں عموماََرہتی تھی۔ چیمپئنز کے دور میں تو یہ بھی ہوا کہ ایک لشکر لاہور سے چلااورعدالت پر حملہ آور ہوا۔ یہ وہی حملہ تھا جس میں ''دیکھتی آنکھوں اورسنتے کانوں‘‘ والے مجاہد بھی شامل تھے۔ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے کہاکہ حکومت چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے دن گن رہی ہے۔لیکن چیف صاحب نے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند گھنٹے قبل بھی کہاکہ... ابھی میری ریٹائرمنٹ میں 60گھنٹے باقی ہیں ،میرے ساٹھ گھنٹے ساٹھ سالوں میں بدل سکتے ہیں... افتخار محمد چوہدری صاحب نے اپنی سروس کے آخری دن لاپتہ افراد کیس اورپٹرولیم مصنوعات کیس میں فیصلے سنائے۔لاپتہ افراد کیس میں انہوں نے وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ ،خفیہ اداروں کے سربراہان سمیت متعلقہ افراد سے کہاکہ لاپتہ افراد کو حراست میں رکھنا غیر قانونی فعل ہے ۔اس وقت چونکہ اس ضمن میں کسی قسم کا کوئی قانون موجود نہیں ہے‘ اس لیے شواہد اورثبوت کے بغیر کسی کوحراست میں رکھنا جرم ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریاست اوراس کے اداروں کو اگر ایسا کرنا ہوتو اس سے قبل قانون سازی کی جائے۔ بیان کیاگیاہے کہ چیف صاحب نے فیصلے میں لکھا ہے کہ جب تک قانون سازی نہیں کی جاتی اگر کوئی سکیورٹی ادارہ یا اس کے اہلکار کسی شخص کو شواہد اورثبوت کے بغیر حراست میں رکھتے ہیںتو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
پٹرولیم مصنوعات اورپاکستان کے پاور سیکٹر میں شامل اشیاء پٹرول، گیس اوربجلی کے نرخوں کے حوالے سے سپریم کورٹ نے حکومت سے کہاکہ عوام کی قوت خرید سے مطابقت پیدا کی جائے۔عدالت نے کہاکہ عالمی سطح پر جب تیل کی قیمتیں کم ہوتی ہیںتو پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بدستور قائم رہتی ہیںجو ظلم ہے۔ افتخار محمد چوہدری صاحب جاتے جاتے بھی ایسے فیصلے کررہے ہیں جن پر اگر حکومت عمل درآمد کرسکی تو عوام کا بھلا ہوسکے گا۔بادی النظر میں یہ حکومت پر احسان ہے کہ اسے اس کا اچھا ُبرا سمجھایاجائے۔کھانے پینے ،زندگی گذارنے کے لئے لازمی اشیاء غریب کی دسترس میں رہیں تو انقلاب معاشروں کی تہوں میں پڑے کہیں اونگھتے تو رہتے ہیں مگر حکمرانوں کے سامنے پھنیر سانپ(شیش ناگ) بن کر نہیں آتے۔
لیکن بھارت میں ریاستی انتخابات کے نتائج کانگریس آئی کے حکمرانوں کے سامنے اچھا داری ناگ بن کر آئے ہیں۔ ہم کسی زمانے میں بھی سینڈو سپاں والے کے ایسویسی ایٹ سینڈو یا شاگرد نہیںرہے‘ اس لیے آپ کو شیش ناگوں اوراچھا داری ناگوں کی بابت کچھ زیادہ نہیں بتا سکتے‘ لیکن زہریلی ناگنوں کے بارے میں ہم جیسا ماہر شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔سانپوں اوران کے حکمرانوں پر اثرات کے حوالے سے بات پھر ہوگی ۔فی الحال بھارت کی چار ریاستوں کے انتخابات اورنتائج پر بات کرلیتے ہیں۔ بھارت کی چار ریاستوں میں حکمران پارٹی کانگریس آئی کا ''کریا کرم‘‘ ہوگیا ہے۔ نئی دہلی، راجستھان،مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ میں بھارتیہ جنتا پارٹی بازی لے گئی ہے ۔بی جے پی مذکورہ ریاستوں میں یوں کامیاب ہوئی ہے جیسے دیپکا پیڈکون کا لنگی ڈانس بالی وڈ میں ہٹ جارہاہے۔ دہلی سے میرے دوست اوربھنگڑا کنگ دلیر سنگھ مہدی کو کانگریس آئی کی طرف سے الیکشن لڑنے کی پیشکش کی گئی تھی ۔دلیر مہدی کو جس روز یہ پیشکش ہوئی
اس نے ٹیلی فون پر مجھ سے مشورہ کیا۔اس کاسوال تھاکہ وہ کیاکرے؟میں نے اپنے دوست دلیر سنگھ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا... بھاجی! آپ اپنے ڈیپارٹمنٹ(میوزک ورلڈ) کے سی ایم اورپی ایم صاحب ہیں، یہ آپ کو صرف ایم پی اے بناناچاہ رہے ہیں ،کانگریس آئی کے ویسے بھی حالات پتلے ہیں،اگر آپ کی ''سیاسی بولو تارا،را‘‘فیل ہوگئی تو آپ جناب دی ''بلے بلے‘‘ ہوجائے گی۔ دلیر سنگھ مہدی کو نئی دہلی سے تلک نگروالی سیٹ سے الیکشن لڑنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ مذکورہ علاقہ میرا دیکھا بھالاہے۔ اس میں وقاص پوری، جھنک پوری اوراتم نگر کے علاقے شامل ہیں۔ دلیر دوست بھی ہے اورجگر بھی اس لیے اسے میری بات سمجھ میں آگئی۔ میری بات سن کر اس نے مجھے کہا... پتر کار صاحب ! مہاراج اپنا ایم پی اے بن کے فلاپ ہونے کا آئیڈیاکینسل بلکہ ختم ہی سمجھیںآپ کے مشورے کے مطابق اب صرف بلے بلے ،تنک تنک تے چک دے پھٹے ہی ہوگا۔
بھارت کے ریاستی الیکشن کے نتائج کو کرپشن اورمہنگائی کا عنوان دیا جارہا ہے۔میڈیا اورہمارے بھارتی دوست بتارہے ہیںکہ کانگریس آئی پر کرپشن کے سنگین الزامات تھے ۔مہنگائی نے زندگی کو نرگ(دوزخ) بنادیاتھا۔ اس پر ٹماٹر ، پیاز اورآلو غریب کے ہاتھوں سے نکل گئے تھے‘ اس لیے یہ تو ہونا ہی تھا۔آلو کو بھارتیوںکے دستر خوان میں وہی اہمیت حاصل ہے جو ہمارے ہاں چھوٹے گوشت کوحاصل رہتی ہے۔ہماری ہر ڈش گوشت کی محتاج رہتی ہے جیسے کریلے گوشت، بھنڈی گوشت، کدو گوشت، دھنیہ گوشت،آلو گوشت،عربی گوشت،پالک گوشت، مونگرے گوشت، ٹینڈے گوشت، گوبھی گوشت، کچنار گوشت وغیرہ وغیرہ۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت میںمسلمانوں کی آبادی 28کروڑ سے زیادہ ہے جس میںووٹروں کی تعداد 12 کروڑ سے زائد ہے۔ عام طور پر خیال کیاجاتاہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی بھارت میں بسنے والے مسلمانوں اورپاکستان کے حق میں منفی سوچ رکھتی ہے۔مسلمانو ں سے امتیازی سلوک اورتشدد کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ بھارت میں کشمیر اور دوسری ریاستوں میں مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کرنے کی بات جب کی جاتی ہے تواب وہاں سے بھی طعنے دئیے جاتے ہیں۔ بھارتیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پائے جانے والے فرقہ پرست، لسانی اور دہشت گردگروہوں میں کوئی بھی بھارتی نہیں ہے ،یہ سب کے سب آپس میں دست وگریبان ہیں اورایک دوسرے کا گلاکاٹ رہے ہیں۔
بھارت اورپاکستان ملتے جلتے ممالک ہیں۔ان میںبسنے والے لوگ نسلی ،فطری ،ثقافتی اورمعاشرتی طور پر ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں۔دونوں ممالک میں لاکھوں اورکروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کے آبائو اجداد نے ایک سے دوسرے ملک میںہجرت کی تھی۔ ان کی خوشیاں اورمسائل بھی ایک دوسرے سے مشابہت رکھتی ہیں۔ان کے ٹماٹر،پیاز اور آلو بھی سانجھے ہیں۔انہیں لڑتے جھگڑتے 66سال گزر گئے ہیں اب انہیںچاہیے کہ لڑنے جھگڑنے اوراسلحہ سازی کی دوڑ دوڑنے کے بجائے اپنے ٹماٹر،پیاز اورآلو کوعوام اورجنتا کی دسترس میں لائیں۔وگرنہ دونوں ملکوں کے عوام اورجنتا کے پاس یہ آپشن تو موجود ہے کہ وہ عام انتخابات میں حکومتوں کا ''بولوتارا،را را‘‘ کردیں۔