چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری اپنے عہدے کی مدت پوری کر کے آج ریٹائر ہو گئے۔ پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں‘عدالتی عظمت و وقار کا ماحول دوبارہ کب بحال ہو گا؟ اس کی پیش بینی کرنا مشکل ہے۔ ہر اعلیٰ منصب کا ایک معیار‘ روایت اور رکھ رکھائو ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے عدالت عظمیٰ کو بلند ترین مقام حاصل ہے اور اس کے جج صاحبان کوسماج میں اتنا قابل احترام رتبہ دیا جاتا ہے ‘ جسے تقدیس کا درجہ حاصل ہو۔ دنیا بھر میں اعلیٰ ترین عدالتوں کے جج اپنی کرسی پر بیٹھتے ہی منصب کی بلندی کے احترام میں‘ایک عام شہری کو حاصل کئی آزادیوں سے دستکش ہو جاتے ہیں۔ان کا میل جول محدود ہو جاتا ہے‘ وہ کھلی دعوتوں‘ جلسے جلوسوں اور ہنگامہ آرائی سے دور ہو جاتے ہیں۔ عزیزوں رشتہ داروں سے میل جول میں احتیاط کرنے لگتے ہیں۔ حتیٰ کہ شادی بیاہ کی تقریبات میں شرکت کے لئے بھی‘ ان کا انتخاب محدود ہو جاتا ہے۔ یہ محاورہ کہ ''کچھ لینے کے لئے کچھ دینا بھی پڑتا ہے‘‘ عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان پر دوسروں کی نسبت زیادہ صادق آتا ہے۔ انہیں دینا زیادہ پڑتا ہے اور اس کے عوض ملتا کم ہے۔ کیونکہ جو کچھ انہیں ملتا ہے‘ وہ تقدس اور احترام ہوتا ہے۔ لیکن جو قربانیاں انہیں دینا پڑتی ہیں‘ ان کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ وہ اپنی شہری آزادیوں کا جتنا بڑا حصہ قربان کرتے ہیں‘ ان کا کوئی نعم البدل نہیں۔ انہیں اپنی ذات پر جو ڈسپلن نافذ کرنا پڑتا ہے‘ اس کی وجہ سے وہ ان گنت فطری مسرتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ جج کی کرسی پر بیٹھ کر‘ عام انسانی درجے سے بلند ہونے کے لئے‘ ہر طرح کی فطری کمزوریوں پر قابو پا کے اس درجے پر پہنچ جاتے ہیں‘ جہاں انسان کوخدائی صفات عطا ہو جاتی ہیں۔ اگر کوئی جج بن کر ان صفات سے محروم رہ جائے تو یہ اس کی تنگ دامانی ہوتی ہے۔ ورنہ عوام اپنی قوم میں سے‘ جس شخص کو عدالت عظمیٰ میںجج کے منصب پر فائز کرتے ہیں‘ اسے صفات خداوندی کا حقدار بنا دیا جاتا ہے۔ حقیقی انصاف فراہم کرنا انسان کے بس کی بات نہیں‘ جب تک کہ خدا اس پر پوری طرح سے مہربان ہو کر اپنی ایک صفت‘ یعنی انصاف کرنے کی صلاحیت اسے عطا نہ فرما دے۔
جج کے اختیارات لامحدود ہوتے ہیں۔ وہ چاہے تو بادشاہ کو اپنی عدالت میں حاضر کر سکتا ہے۔ مگر اختیارات کے اس اعلیٰ ترین مقام پر پہنچنے والے کواپنی ذات کا ارتفاع بھی کرنا پڑتا ہے۔ اسے فرد کو ہی نہیں‘ ملک اور معاشرے کو بھی انصاف دینا پڑتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کی عمارت پر لگے ہوئے ترازو میں انصاف کا مطلب بھی موجود ہوتا ہے۔ وہ ہے توازن۔ جس طرح ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہونے پر توازن پیدا ہوتا ہے‘ اسی طرح منصف بھی‘ اپنے سامنے پیش ہونے والے فریقوں کے حقوق میں توازن کرتے ہوئے‘ اپنے فیصلے سناتا ہے۔ مگر جب ہم پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ دیکھتے ہیں‘ تویہ دیکھ کر سخت مایوسی ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں انصاف کا حصول روزبروز مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔ پاکستان میں انصاف کا خون سب سے پہلے عدالت عظمیٰ ہی کی طرف سے کیا گیا۔ جب پاکستان کی منتخب اسمبلیوں اور حکومتوں کو اقتدار پر قابض غاصبوں اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والوںکے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ منتخب اسمبلیاں توڑنے اور منتخب حکومتوں کو برطرف کرنے کا اختیار اداروں سے چھین کر ‘ افراد کے ہاتھوں میں دینے کا
کام عدلیہ کے ہاتھوں انجام پایا اور پھر انہی غیرآئینی حکمرانوں نے‘ عام آدمی کے حقوق چھینے۔ کرپشن کی سرپرستی بھی کی اور ناانصافیوں کا بازار بھی گرم کر دیا۔ یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ حتیٰ کہ ہماری سپریم کورٹ میں آج بھی ایسے جج بیٹھے ہیں‘ جنہوں نے پرویزمشرف کے اقتدار پر غاصبانہ قبضے کو نہ صرف جائز قرار دے دیا بلکہ 3سال کے لئے اسے آئین کے بغیر حکمرانی کااختیار بھی دے دیا۔ ایسا کرنے والوں میں آج ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ایک غیرآئینی حکمران کے ہاتھوں‘ چیف جسٹس بن کر شہریوں اور ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے کئے۔ ایک فیصلہ پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کے خلاف تھا۔ اس نوعیت کے فیصلے محض دلائل وقوانین کی بنا پر ہی نہیں کئے جاتے‘ اپنے ملک اور قوم کے مفاد کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ سٹیل ملز کی نجکاری کے خلاف فیصلہ دے کر‘ ملک کو جو نقصان پہنچایا گیا‘ اس کا حساب لگانا بھی مشکل ہے۔ یہ ایک بڑا سودا تھا۔ بیرونی سرمایہ کار کمپنی‘ اس میں سینکڑوں ملین ڈالر لگانے والی تھی اور مستقبل میں وہ پاکستان کے دیگر کئی شعبوں میں سرمایہ کاری کا منصوبہ لے کر آئی تھی۔ جب حکومت کے ساتھ کیا گیا سودا‘ عدالتی حکم کے تحت پایہ تکمیل کو نہ پہنچایا جا سکا‘ تو بیرونی کمپنی پاکستان کو چھوڑ کر بھارت میں سرمایہ کاری کرنے چلی گئی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ بیرونی سرمایہ کاروں نے پاکستان کو ناقابل اعتبار ملک قرار دے دیا اور اگر آپ غور کریں‘ تو اس واقعہ کے بعد پاکستان میں بڑی بیرونی سرمایہ کاری بند ہو گئی۔ چھوٹے چھوٹے قلیل مدتی منصوبے ضرور بنائے گئے۔ لیکن ہر کسی کو ڈر پڑ گیا کہ عدالت اسے کسی بھی وقت کاروبار سے محروم کر سکتی ہے۔ریکو ڈیک کے فیصلے نے تو بیرونی سرمایہ کاری کے خاتمے پر مہرتصدیق ثبت کر دی۔ بیرونی کمپنیوں کے ساتھ کاروباری معاہدوں میں بہت سی چیزیں دیکھنا پڑتی ہیں۔ بعض اوقات مالی خسارہ اٹھا کے‘ ملک کے مفاد میں کوئی سٹریٹجک سہولت یا رعایت حاصل کی جاتی ہے۔ امریکہ اور یورپی ملکوں میں درآمدی ٹیکسوں سے ہونے والی سرکاری آمدنی کو ملک و قوم کی امانت مانا جاتا ہے۔ مگر حکومتیں متعدد مصلحتوں کی وجہ سے بعض ملکوں کو ٹیکس میں مراعات بھی دے دیتی ہیں۔ جو یقینی طور پر ایک بے اصولی اور بعض حالات میں خیانت ہوتی ہے۔ مگر کبھی کسی عدالت نے یہ کہہ کر حکومت کو رعایت واپس لینے کا حکم نہیں دیا کہ ٹیکس کا نفاذ ساری درآمدات پر یکساں ہونا چاہیے۔مگر ہماری عدالت عظمیٰ نے ہر بیرونی سودے میں عدالتی مداخلت کا خوف پیدا کر دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف نعیم بخاری ایڈووکیٹ نے ایک ریفرنس داخل کیا تھا۔ جس میں ان پر متعدد الزامات لگائے گئے تھے۔ اس ریفرنس کا کیا بنا؟ اس کا آج تک کسی کو پتہ نہیں۔ خود جج صاحب کے صاحبزادے کا مسئلہ بھی قابل توجہ ہے۔ ارسلان افتخار پر الزامات لگائے گئے کہ انہوں نے اپنے والد محترم کے منصب سے فائدہ اٹھاتے
ہوئے مفادات حاصل کئے اور کروڑوں کمائے۔ اس پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پھر اسے دو افراد کا باہمی معاملہ قرار دیتے ہوئے‘ معاملہ ختم بھی کر دیا گیا۔ کسی کو یہ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ الزام تو چیف جسٹس آف پاکستان کی پوزیشن سے فائدہ اٹھانے کا تھا۔ پھر معاملہ دوطرفہ کیسے ہو گیا؟ ملک کے ایک معزز ترین ادارے کے نام پر مفادات حاصل کرنا‘ انفرادی فعل نہیں رہ جاتا۔ ہر رشوت خور سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی مثال دے کر‘ اپنے لئے وہی رعایت طلب کرے گا‘ جو ارسلان افتخار کو دی گئی۔لاپتہ افراد کے کیس میں ہر سماعت پر زبردست دعوے کئے گئے۔ میڈیا پر سرخیاں لگیں‘ ٹاک شو ہوئے اور یہ سلسلہ ایک مستقل ڈرامے کی حیثیت اختیار کر گیا۔ آج آخری دن جج صاحب نے اس مقدمے کے سلسلے میں بھی سماعت کی۔ لاپتہ افراد وہیں پر ہیں‘ جہاں وہ تھے۔ یہ بدنصیب لوگ محض سرخیوں اورٹاک شوز کی زینت بن کر‘ کسی کی عزت و شہرت میں اضافہ کرتے رہے۔ مگر انہیں کچھ حاصل نہ ہوا۔ چیف جسٹس صاحب کی کارروائیوں کے معیار بھی ایک نہیں تھے۔ وفاقی حکومت ہر معاملے میں ازخودنوٹسز کا سامنا کرتی رہی۔ لیکن پنجاب کی حکومت کو بیشتر حالات میں استثنیٰ ہی ملتا رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت مسلسل عدالتی دبائو کے سبب اس کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر پائی‘ جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ ایک فوجی ڈکٹیٹر نے وزیراعظم کو پھانسی چڑھایا۔ دوسرے نے وزیراعظم کو برطرف کیا اور ہمارے چیف جسٹس صاحب نے وزارت عظمیٰ کا قتل کر دیا۔ حال میں ایک عدالت نے سرکاری محکمے کے سربراہ کی اچانک برطرفی کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اسے عہدے پر بحال کر دیا۔ لیکن وزیراعظم کو توہین عدالت کے جرم میں سزا دے کر نااہل بنا دیا گیا۔ حالانکہ ان کا جرم قابل معافی تھا اور عدالتیں عموماً درگزر کرتے ہوئے ملزم کو معاف کر دیتی ہیں۔قومی اسمبلی نے جس وزیراعظم کو اتفاق رائے سے منتخب کیا تھا‘ اسے یہ معافی نہیں دی گئی۔بابر اعوان کے پریکٹس کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ بطور چیف جسٹس اپنی بحالی کے لئے انہوں نے ایک سیاسی جماعت کے احتجاجی مظاہروں کا سہارا لیا‘ جو کسی بھی طرح جج کے منصب پر فائز شخصیت کو زیب نہیں دیتا۔ میں جو کچھ ان کے دور ملازمت میں لکھتا رہا ہوں‘ وہی کچھ آج بھی لکھ رہا ہوں۔اصل میں میرا ارادہ یہ تھا کہ ان کی ریٹائرمنٹ پر ایک توصیفی کالم لکھوں گا۔ لیکن جب میں نے جمہوریت‘ بیوروکریسی اور معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لیا‘ توارادہ بدل دیا۔ جس طرح اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کے اچھے اقدامات ‘ ان کی زیادتیوں کی تلافی نہیں کرتے۔ اسی طرح کسی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ منصب پر‘ غلط طریقوں سے فائز ہونے یا فائز رہنے والی شخصیت کے اچھے اقدامات بھی غلطیوں کی تلافی نہیں کر سکتے۔ آئین کو توڑنے والے غاصب کے مددگار بھی غداری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ غداری کر لینے بعد‘ بنائے گئے قوانین کا اطلاق ماضی کے افعال پر نہیں ہوتا۔ جیسے آج کے کئے ہوئے قتل کا جرم بعد میں بنائے گئے‘ کسی قانون کے تحت ختم نہیں ہوتا‘ اسی طرح آئین کے قتل کا جرم بھی اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا‘ تو اس کی سزا بھی بھگت رہے ہیں اور بھگتتے ہی رہیں گے۔
آخر میں ایک جملہ کہ ٹنڈولکر کو بھی آخری ٹیسٹ میں سنچری بنائے بغیر ریٹائر ہونا پڑا۔