حال ہی میں ریٹائرڈ ہونے والے آرمی چیف ، جنرل کیانی، کے سینے میں بہت سے راز دفن ہیں، کاش وہ ان کا اظہار کر سکتے۔ تاہم وہ ان کو کبھی بھی فاش نہیں کریںگے۔ دنیا، خاص طور پر ان کے ہم وطن، ان کی جھلک کو بھی نہیں پا سکیںگے۔اُنھوںنے کبھی پریس کو براہ ِ راست انٹرویو نہیںدیا ، نہ ہی اُنھوںنے'' آف دی ریکارڈ ‘‘کچھ ریکارڈ کرنے کی اجازت دی ہے۔ایک پیشہ ورسپاہی کی طرح، اُن کے خیالات کی ترجمانی صرف آئی ایس پی آر کے افسران کیا کرتے تھے۔ تاہم آئی ایس پی آر کے جنرل بھی ضرورت سے زیادہ کلام نہیںکرتے اور نہ ہی وہ براہ ِ راست سوالات کا جواب دینا پسند کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مجھے مشورہ دیا گیا کہ میں اپنے کسی سوال کوان میں کسی ایک سے پوچھتی رہوں۔۔۔ بلکہ بہتر ہے کہ کسی ریٹائرڈ فوجی افسرسے پوچھوں کیونکہ ان میں سے کچھ اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے شاید مال روڈ لاہور پر اسمبلی ہا ل کے سامنے نوآبادیاتی دور کی ایک عمارت دیکھی ہو؟میں کئی سالوں تک جلی حروف میںلکھا ہوا اس کا نام ''فری میسن لاج ‘‘ پڑھا کرتی تھی۔ اس کادروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا۔ برطانوی راج کے دوران ایک خفیہ سوسائٹی''فری میسن ‘‘ ہوتی تھی اور وہ خفیہ میٹنگز کیا کرتی تھی۔ کسی کو بھی ان کے ایجنڈے کی بھنک نہیں مل پاتی تھی۔ لاہور میں رہائش کے دوران، میں حیران ہوا کرتی تھی کہ وہاں کیا ہوتا ہوگا۔ پھر میں چشم ِ تخیل سے ان تمام خفیہ سرگرمیوں کو دیکھتی جن سے لاہور کے شہری ناواقف رہتے تھے۔میں اب بھی کبھی کبھار سوچتی ہوں کہ اُس شاندار عمارت کا کیا بنا ہوگا۔
پاک آرمی بھی اسی طرح خود کو نظروں سے اوجھل رکھتی ہے۔ کسی کو اس کی طرف ''تاک جھانک ‘‘ کرنے کی اجازت نہیںہے۔ جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہم جیسے عام افراد داخل نہیں ہو سکتے۔تاہم اس کا مطلب یہ نہیںکہ اس طرف جانے والی تمام راہیں مسدود ہیں۔ آپ فوج کے بار ے میں زیادہ سے زیادہ احوال شجاع نواز کی کتاب '' Crossed Swords‘‘پڑھ کر حاصل کر سکتے ہیں۔وہ خوش قسمت تھے کہ اُن کو فوج کے اعلیٰ افسران سے انٹرویو کرنے اور بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔
اس وقت ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ ہم جنرل کیانی ، جوگزشتہ ایک عشرے سے فوج کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے ہیں، کا جائزہ کیسے لیں؟اس وقت فی الحال یہی کچھ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی طرف سے سامنے آنے والے بیانات اور ان کی تقاریر کو مربوط کرتے ہوئے ان کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ نیویارک ٹائمز کے اسلام آباد کے نمائندے ڈیکلن والش ، جن کو گزشتہ سال پاکستان سے نکال دیا گیا، نے حال ہی میں کیانی صاحب کے بارے میں لند ن سے لکھا ہے۔۔۔''امریکہ کے مشکوک افسران کیانی صاحب اور اُن چھ لاکھ جوانوں پر مشتمل مضبوط فوج جس کی وہ کمان کرتے ہیں، پر الزام لگاتے تھے کہ وہ ان کے ساتھ دہرا کھیل کھیل رہے ہیں۔۔۔ان کے افغان طالبان کے ساتھ روابط ہیں اور اُنھوںنے اُسامہ بن لادن کو پناہ دی تھی۔ ‘‘مسٹر والش اپنے کالم کے شروع میں کہتے ہیں۔۔۔'شروع میں امریکی یہ الزامات نجی طورپر لگایا کرتے تھے لیکن 2011ء کو مائیک مولن، جو جنرل کیانی کے دوست بھی تھے، نے کھل کر کانگرس کو پاکستان کے دہرے کھیل سے آگاہ کیا۔ ‘‘اگلے پیرا گراف میں مسٹر والش توازن پیدا کرتے ہوئے کہتے ہیں۔۔۔'' جنرل کیانی کو بھی سی آئی اے سے شدید شکایت تھی ، خاص طور پر جب اُنھوںنے پاکستان کی جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بن لاد ن کو ہلاک کیا۔ یہ امریکی غرور و تکبر کا کھلا ثبوت تھا۔‘‘
جنرل کیانی اپنے پیش رو جنرل مشرف کے برعکس خاموش طبیعت کے مالک تھے۔ وہ بسیار گو ئی پسند نہ کرتے تھے، چنانچہ جی ایچ کیو کا دورہ کرنے والے امریکی افسران اکثر شاکی رہتے تھے کہ جنرل صاحب ان سے بے تکلف نہیںہوتے ۔ والش کا کہنا تھا کہ وہ اکثر مدہم آواز میں باتیں کرتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں۔۔۔ ''میٹنگز میں وہ ایک عقاب کی طرح بیٹھے ہوتے تھے اور کبھی کبھار سگریٹ پینے کے لیے اٹھ جاتے تھے۔‘‘شجاع نواز کا کہناہے کہ وہ پرویز مشرف سے یکسر مختلف تھے۔
جنرل کیانی کو سوات میں طالبان کے خلاف کامیاب آپریشن کرنے کے بعد ایک ہیرو کے طور پر دیکھا گیا۔ اُنھوںنے اگست 2012 ء کو ایک تقریر کرتے ہوئے کہا۔۔۔''ہمیں دہشت گردی کے خطرے کے خلاف مل کر کھڑے ہونا پڑے گا۔‘‘تاہم ان کے بیانات میں تضاد دیکھنے میں آیا جب اُنھوںنے چند دن بعد تقریر کرتے ہوئے پاکستان کو ''اسلام کا قلعہ ‘‘ قرار دے ڈالا۔ اسی طرح جنرل صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ امریکہ کی طر ف سے پاکستان کی مسلح افواج کو جو امداد ملتی ہے، وہ اس کا ایک بڑا حصہ عوام کی فلاح کے لیے مختص کردیں گے۔ تاہم ، ہم جانتے ہیں کہ ایسا کبھی نہ ہوسکا۔ جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلق ہے تو جب اسٹبلشمنٹ نے عوام سے مخاطب ہونا ہوتا تھا تو وزیر ِ دفاع کو ''جھاڑ پونچھ ‘‘ کر عوام کے سامنے کر دیا جاتا تھا کہ وہ ان کو باتوں وغیرہ میں لگائے رکھے۔چنانچہ احمد مختار نے کہا ۔۔۔ ''شمسی ائیر بیس سے کوئی امریکی طیارے پرواز نہیںکرتے۔ اگر وہاں سے کوئی طیارے اُڑتے ہیں تو وہ پاکستانی ہی ہوتے ہیں۔ یقینا اُنہیں یہی کچھ کہنے کو کہا گیا تھا۔ امریکی میڈیا نے مسٹر مختار کے بیان کو خوب اچھالا ۔ ایک ٹی وی پروگرام میں کہا گیا۔۔۔''پاکستانی عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کے لیے ایسے بیانات دلوائے جاتے ہیں۔‘‘
اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان امریکی ڈرون طیاروں کو گرانے کی پوزیشن میں نہیںتھا، لیکن جنرل کیانی صاحب یہ تو کر سکتے تھے کہ ان کے عوض امریکیوںسے توانائی کے بحران پر کچھ مدد لے لیتے۔ گزشتہ سال واپڈا کے چیئرمین نے خبردار کیا تھا کہ اگلے 4015 دن تک پاکستان میں پانی ، بجلی اور گیس کی کمی رہے گی۔ اس وقت بھی ملک میں گیس کی شدید قلت ہے۔ کیا ہم امریکہ سے اچھی سودے بازی نہیںکرسکتے تھے ؟کیا ہم امریکیوںکو اپنی بات سمجھانے میںناکام رہے تھے کہ ہماری ضروریات کیاہیں؟کیا ہمارے ملک میں بجلی کا بحران ''بدترین دہشت گردی ‘‘ نہیں ہے؟ اگر امریکہ دہشت گردوں کے خلاف ڈرون استعمال کررہا ہے تو کیا اس دہشت گردی کے خلاف کچھ نہیںکیا جاسکتا تھا؟ افسوس ، ہم نے وقت گنوا دیا۔ ہم جانتے ہیںکہ اس دوران خارجہ پالیسی کے اہم فیصلے بھی فوج کی ہائی کمان کی مرضی سے ہی طے پاتے تھے۔ تاہم ہمارے ادارے اس بارے میں پیش رفت نہ دکھا سکے اور پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو گیا ۔
بہرحال ابھی بہت سی سچائی سامنے آنا باقی ہے؛ تاہم کیا ہم مکمل سچائی جان پائیںگے؟