تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     12-12-2013

کل کون خوش اور کون غمگین ہوا؟

اس کے دو مسئلے ہیں: پہلا یہ کہ وہ بہت بڑا شرپسند ہے اور دوسرا یہ کہ وہ کسی بھی شریف آدمی کو بہلا پھسلا کر شرپسندی پر آمادہ کر لیتا ہے۔ میرے ساتھ بھی اس روز ایسا ہی ہوا۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ وہ کسی بھی آدمی کو گھیر گھار کر مرضی کے موضوع پر لے آتا ہے اور پھر اس سے کرید کرید کر اپنے سوالات کے جواب لیتا ہے اور پھر ان جوابات کی بنیاد پر مزید سوالات کرتا ہے اور تب تک اسے چین نہیں آتا جب تک وہ اپنی مرضی مطابق جوابات نہیں لے لیتا۔ مجھے اس کی اس خوبی بلکہ خداداد صلاحیت کا اندازہ ہے لہٰذا میں اس کے سوالات سے بچنے کے لیے اول تو اسے دیکھتے ہی اِدھر اُدھر کھسک جاتا ہوں؛ تاہم اگر پھنس جائوں تو چھوٹتے ہی اِدھر اُدھر کی گفتگو شروع کر دیتا ہوں اور گفتگو ختم کرتے ہی کسی نہایت ضروری کام کا بہانہ کرتا ہوں اور غائب ہو جاتا ہوں۔ لیکن اگر یہ سب کچھ نہ کر پائوں تو پھر معاملہ مقدر پر چھوڑ دیتا ہوں۔ 
اس ر وز بھی ایسا ہی ہوا اور میں جائے فرار نہ پا کر ایک زور دار قصہ شروع کرنے ہی لگا تھا کہ وہ کہنے لگا۔ اجی! لعنت بھیجیں اس واقعے پر۔ آپ پہلے میری بات کا جواب دیں۔ بہرحال میں نے بھی جب راہ فرار مسدود پائی تو یہ سوچ لیا کہ اب اِدھر اُدھر کی مارنے کے بجائے اس شرپسند شخص سے اسی کی زبان میں گفتگو کی جائے۔ مجھے پتہ تھا کہ یہ آمادہ بہ فساد شخص کسی شریفانہ اور معقول جواب سے مطمئن نہ ہوگا لہٰذا میں نے بھی فیصلہ کر لیا کہ اسے ویسے ہی جواب دیے جائیں جیسے یہ چاہتا ہے۔ سو پیاز اور سو جوتے کھانے سے کہیں بہتر ہے کہ ہمت کر کے ایک ہی کام کر لیا جائے۔ 
چھوٹتے ہی پوچھنے لگا کہ میاں نوازشریف بڑے بذلہ سنج قسم کے آدمی ہیں۔ لطیفے سننا اور سنانا پسند کرتے ہیں بلکہ صرف پسند ہی نہیں کرتے‘ دیوانگی کی حد تک پسند کرتے ہیں۔ خوش باش آدمی ہیں۔ خوش خوراک ہیں۔ کھانا کھا کر صرف ہاضمے کی درستی کے لیے 
دو کلو امرود کھا لیتے ہیں۔ غم فکر اور اس قسم کی دیگر غیر نصابی سرگرمیوں سے مکمل پرہیز کرتے ہیں۔ سوچ بچار کرنے کو صحت اور مزاج کے لیے مضر تصور کرتے ہیں۔ لطیفے سنانے والوں کو نہ صرف یہ کہ پسند کرتے ہیں بلکہ انہیں نوازتے بھی رہتے ہیں۔ حس مزاح کروڑوں سے بہتر ہے لیکن نصیب دشمناں آج کل کسی فکر میں غلطاں ہیں۔ زیادہ ہنستے نہیں‘ سوچوں میں گم رہتے ہیں۔ کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ تمہارا کیا خیال ہے؟ میں اب کیا عرض کرتا۔ اگر میں اسے ملک کی معاشی صورتحال سمجھانے کی کوشش کرتا تو اس نے ماننا نہیں تھا۔ اگر میں یہ کہتا کہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہے تو اس نے میری اس بات کو بھی فوراً رد کر دینا تھا۔ اگر میں اسے یہ کہتا کہ دہشت گردی کنٹرول نہیں ہو رہی‘ امریکہ ڈرون حملے بند نہیں ہو رہے‘ عمران کا دھرنا ختم نہیں ہو رہا اور امریکہ مسلسل ڈانٹ پھٹکار کر رہا ہے تو اس نے جواباً کہنا تھا کہ میاں صاحب ان باتوں کے لیے پہلے سے ہی تیار تھے اور رہ گئی امریکہ کی ڈانٹ ڈپٹ تو یہ پاکستانی حکمرانوں کے لیے نہ تو کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی وہ اس کا کبھی برا مناتے ہیں۔ عمران کا دھرنا تو دس بارہ دن پرانی بات ہے میاں صاحب تو جب سے وزیراعظم بنے ہیں مسکرانے سے پرہیز کر رہے ہیں۔ 
اگر میں اسے یہ کہتا کہ میاں صاحب آلو‘ پیاز اور ٹماٹر جیسی سستی سبزیوں کے ہوشربا ریٹ سن کر پریشان ہیں تو وہ میرا باقاعدہ مذاق اڑاتا اور کہتا کہ یہ سب مسائل‘ مصائب اور سختیاں ہمارے اور آپ لوگوں کے واسطے ہیں۔ میاں صاحب کو بلکہ ان سے پہلے بھی کسی حکمران کو ایسی فضول بات پر نہ تو کوئی پریشانی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ ایسی معمولی باتوں کو دل پر لیتے ہیں۔ مہنگائی غریب آدمی کا مسئلہ ہے اور میاں صاحب پُشتوں سے نہ سہی مگر رئیس تو ہیں ہی۔ بھلا وہ ان باتوں سے اپنی خوبصورت ہنسی کیوں خراب کریں گے۔ لہٰذا میں نے اپنے تمام ممکنہ جوابات اور ان جوابات کے نتیجے میں اس شرپسند شخص کے جواب الجواب سے بچنے کے لیے اسے بڑا سیدھا جواب دیا کہ جب میاں صاحب اپنے اردگرد ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جن کو وہ ٹکٹ دینا اور وزارت عطا کرنا تو کجا دیکھنے پر بھی تیار نہیں تھے تو بھلا وہ کیسے ہنس سکتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کی شکلیں دیکھ کر دل میں ''کچیچیاں‘‘ لیتے ہیں۔ ایسے عالم میں چہرے پر مسکراہٹ کیسے آئے؟ ریاض پیرزادہ‘ سکندر بوسن‘ امیر مقام‘ اختر رسول‘ زاہد حامد‘ ماروی میمن‘ گورنر سندھ عشرت العباد‘ خیبرپختونخوا کے گورنر شوکت اللہ خان‘ گلگت بلتستان میں پیر کرم علی شاہ اور گنتی سے باہر ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کا خیال ذہن میں لاتے ہیں تو ان کی ہنسی اور مسکراہٹ فنا ہو جاتی ہے۔ اقتدار کی مجبوریاں بڑی ظالم ہوتی ہیں۔ 
اب اس نے دوسرا سوال داغ دیا۔ یہ اس بات کی دلیل تھی کہ وہ میرے جواب سے مطمئن ہے۔ پوچھنے لگا میاں صاحب نے اب تک کوئی وزیر خارجہ‘ پکا وزیر دفاع اور فل ٹائم وزیر قانون کیوں نہیں بنایا؟ میں نے کہا میاں صاحب نے ٹکٹیں جاری کرتے وقت یہ دیکھا کہ کون سا شخص الیکشن جیت سکتا ہے۔ یہ نہیں دیکھا تھا کہ بعد میں وزیر کسے بنانا ہے۔ میاں صاحب کے پاس الیکشن میں Electables تھے لیکن کام کے بندے کم ہی تھے۔ جنہیں وزیر بنانا تھا بنا دیا۔ باقی وزن بھی ان پر لاد دیا جو پہلے سے وزنی وزارتوں تلے دبے ہوئے تھے۔ اپنے پرویز رشید وزارت اطلاعات کا کانٹوں بھرا ہار گلے میں ڈالے پھر رہے تھے‘ اب وزارت قانون کا بوجھ بھی اٹھانے پر مامور کر دیے گئے ہیں حالانکہ جناب پرویز رشید کا قانون سے اتنا بھی واسطہ نہیں جتنا کسی قانون شکن کا بھی ہو سکتا ہے۔ خواجہ آصف کو وزیر دفاع بنا کر دراصل میاں صاحب نے جنرلوں کو ذہنی اذیت پہنچانے کا مستقل بندوبست کیا ہے۔ وزارت خارجہ اپنے پاس رکھ کر دراصل یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ جو تھوک کے حساب سے بیرونی دورے کر رہے ہیں وہ بطور وزیراعظم نہیں بلکہ بطور وزیر خارجہ کر رہے ہیں۔ بھلا اتنے مسائل اور مصائب میں پھنسے ہوئے ملک کے وزیراعظم کو ا تنی فرصت ہی کب ہے کہ وہ ہر روز اس طرح ''لُور لُور‘‘ کرتا پھرے۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگا یہ ''لُور لُور‘‘ کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا مجھے اس کا ترجمہ نہیں آتا۔ میں نے یہ لفظ اپنے والد صاحب سے سنا تھا۔ جب میں سارا دن سائیکل پر آوارہ گردی کر کے‘ سارے شہر کی خاک چھان کر اور اس میں سے پائو بھر سر میں ڈلوا کر رات واپس آتا تھا تو ابا جان پوچھتے ''سارا دن کہاں ''لُور لُور‘‘ کرتے رہے ہو‘‘۔ بس آپ اس وضاحت سے خود سمجھ جائیں کہ اس لفظ کے کیا معنی ہیں۔ 
پھر کہنے لگا چیف جسٹس گزشتہ روز ریٹائر ہوگئے۔ آپ کیا دیکھتے ہیں؟ اب کون کون خوش ہے اور کون کون اداس ہے۔ کس کو آسانیاں ہوں گی اور کس کو مشکل پیش آئے گی۔ میں نے کہا سب سے زیادہ آسانی تو خود چیف جسٹس صاحب کو ہوگی۔ انہیں اس بات کا دلی اطمینان ہوگا کہ انہوں نے اپنی ممکنہ صلاحیتوں سے مقدور بھر کام لیا اور جو بس میں تھا اس سے کام لے کر بہتری کی کوشش کی۔ وہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ انہیں اب آسانی ہوگی۔ روز روز کے فیصلوں پر حکومتی چالبازیوں‘ تکنیکی انکاروں‘ احکامات کی خلاف ورزیوں اور کہہ مکرینوں سے نجات مل جائے گی۔ انہوں نے اپنی اننگز خوب کھیلی ہے۔ حکومت البتہ خوش ہے کہ پہلے زرداری سے‘ پھر کیانی سے اور اب افتخار چودھری سے جان چھوٹ رہی ہے لیکن ان کی ساری خوشی عنقریب ہوا ہو جائے گی۔ عدلیہ کو جناب افتخار چودھری نے جو راستہ دکھایا ہے اور منصفوں کو جس عزت سے سرفراز کیا ہے اب کسی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہوگا کہ وہ اس عمل کو واپس پیچھے لا سکے۔ یہ تبدیلی سائنسی زبان میں کیمیائی تبدیلی کہلاتی ہے۔ ناقابل واپسی۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ جناب افتخار چودھری کی ریٹائرمنٹ سے کئی سرکاری محکموں کے پروٹوکول والوں کو کافی آسانی ہو جائے گی۔ انہیں جناب چیف جسٹس کے نام کی وجہ سے ایسے ایسے لوگوں کو وی وی آئی پی پروٹوکول دینا پڑتا تھا جو ان کا کسی طور بھی استحقاق نہ تھا۔ سب سے بڑھ کر پی آئی اے والوں کو؛ تاہم میرا خیال ہے کہ سب سے زیادہ تنگی اور پریشانی ڈاکٹر ارسلان کو ہوگی۔ 
وہ پوچھنے لگا یہ پی آئی اے والا کیا معاملہ ہے؟ میں نے کہا اب اس معاملے پر ''مٹی پائو‘‘ پہلے کسی نے پورا چھاپنا نہیں تھا اور اب میں نے نہیں بتانا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved