شاعر کسی تعارف کے محتاج نہیں‘ جگہ کم ہے اس لیے ان کے خوبصورت اشعار سے لُطف اندوز ہوں:
نیا نیا مجھے آیا ہے پائوں پر چلنا
ٹھہر ٹھہر کے مجھے اپنے راستے سے گُزار
اس بار کوئی اور تماشہ ہے گلی میں
ہر آنکھ جو کھڑی کے اشارے سے جُڑی ہے
ہر دن کسی سورج کے تعاقب میں ہے گوہر
ہر رات کسی اور ستارے سے جُڑی ہے
تصویر سے کوئی بھی سلامت نہیں نکلا
وہ سنگ یہاں آئینہ خانے پہ لگا ہے
کون کہتا ہے ہم نہیں رہیں گے
خاک ہو کر بھی ہم یہیں رہیں گے
ہم جو تبدیل ہو نہیں سکتے
جہاں رکھے گئے وہیں رہیں گے
معاملاتِ محبت کی بات اور ہے دوست
وگرنہ جُھک کے کہاں آسماں زمیں سے ملا
لہو ٹپکنے لگا ہے ہمارے ہاتھوں سے
سنبھالتے ہوئے اک پُھول شادمانی کا
گُم تھی کہیں زمین کہیں آسمان گیا
اس کشمکش میں میں تو یُونہی رائگاں گیا
کن منزلوں کے خواب دکھائے گئے ہیں
آگے زمین ختم تھی رستہ جہاں گیا
کیا ملا اُس کا تعاقب کر کے
گرد آنکھوں میں پڑی ہے ساری
اس لیے دیر تک جلا نہیں ہے
یہ دیا اِس منڈیر کا نہیں ہے
دشت کی سمت نکل آیا ہے میرا دریا
بس اسی پر ہیں خفا سارے سمندر مجھ سے
میں ترے سمندر تک آپ چل کے آیا ہوں
جیسے ایک دریا نے جستجو مکمل کی
پر نکلنے کی دیر ہے گوہر
لے اُڑیں گے یہ خاکداں ہم لوگ
میں کہیں اور نکل جائوں گا وحشت کرنے
میرا مولا تری جاگیر سلامت رکھّے
سلسلہ درد کا بس دل پہ نہیں ہے موقوف
رنج کے اور بھی اسباب نکل آتے ہیں
جانے کس جُرات و پندار سے آراستہ ہے
سر قلم ہوکے بھی دستار سے آراستہ ہے
چند لوگوں کی محبت بھی غنیمت ہے میاں
شہر کا شہر ہمارا تو نہیں ہو سکتا
عجیب رنگ و نور سے بھری ہوئی ہے کائنات
وہاں ترے نجوم سے‘ یہاں مرے چراغ سے
میں اب جنونِ عشق کے فریب میں نہ آئوں گا
کہ ابکے میرا دل بھی ہے دماغ سے جُڑا ہوا
تجھ سے ہر روز ملاقات ضروری تو نہیں
بعض اوقات تو میں خود میں نہیں بھی ہوتا
پُھول پھل سکتا تھا دیوار سے نکلا ہوا پیڑ
سلسلہ اس کا اگر زیرِ زمیں بھی ہوتا
تماشہ دیکھنے والوں سے شرمسار ہوں میں
بنا رہا تھا تماشہ‘ بنا نہیں مجھ سے
مٹی سے میں تو پُھوٹ پڑا پیڑ کی طرح
جو ہو گیا ہے رزقِ زمیں اور کوئی تھا
یہیں سے آپ ہیں تو پھر یہیں پہ دن گزاریے
فلک کی بات چھوڑیے‘ زمیں پہ دن گزاریے
میں کیا بتائوں کہ کیسا فراغ تھا میرا
کہیں پہ دل تو کہیں پر دماغ تھا میرا
ڈرے ہوئے ہیں ہوائوں سے کُوچہ و بازار
وگرنہ شہر کہاں بے چراغ تھا میرا
سلسلہ عشق کا بھی ٹوٹ گیا آخرِ کار
میری عجلت سے زیادہ‘ تری تاخیر سے کم
یہ جو ہر روز میں جی اُٹھتا ہوں مر کر گوہر
زہر ہی اُس نے دیا موت کی تاثیر سے کم
یہ لاجواب مجموعہ کلام مثال پبلشرز فیصل آباد نے چھاپا اور اس کی قیمت 200روپے رکھی ہے۔
آج کا مطلع
محبت کا تماشا وصل کی تاثیر جیسا ہے
کہ مل بیٹھے نہیں اور ذائقہ انجیر جیسا ہے