تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     13-12-2013

زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل

آشکار یہ ہے کہ سیاست کا رخ کیا تو انجام عبرت ناک ہوگا، ڈاکٹر عبد القدیر خان کی طرح ۔فرمایا: جو کام بندے سے پروردگار لینا چاہے ، وہ اس کے لیے سہل کر دیتاہے ، اس کی توفیق عطا کرتاہے ۔ میر ؔ صاحب پھر یا دآئے۔ 
زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل 
یوں سمجھ لے کوئی مینا خانہ بارِ دوش ہے 
افراد ہی نہیں، اقوام بھی جہل کا شکار ہوتی ہیں۔ وحشت،جوش و جنوں ، گھمنڈاور تعصبات کا ۔سب کے سب۔ ابھی ستّر اسّی برس پہلے دو عالمگیر جنگوںمیں دس کروڑ انسان قتل کر دیے گئے ۔ شہر بمباریوں سے تباہ ہوئے ، ایٹم بموں سے اڑا دیے گئے ۔ 
ہم تعصبات کا شکار ہیں ۔ فکری مغالطوں اور ہیجان کا ۔ الوداعی تقریب کے حقوق ایک خاص چینل کو عطا کرنے پر ہم پیشہ لوگوں کا احتجاج برحق۔ سوال یہ ہے کہ اجارہ داری قائم ہی کیوں ہوئی اور کیوں گوارا کر لی گئی ۔ صرف یہی ایک کارنامہ تو نہیں جو رسوخ اورجوڑ توڑ سے انجام دیا گیا۔ اجنبی، حتیٰ کہ حریف ممالک سے مراسم ، اپنی مرضی کی خارجہ پالیسی تشکیل دینے پہ اصرار اور بہت کچھ جو بیان کرنا ممکن نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اکثر کے اپنے مسائل ہیں ۔ ہر کوئی کہیں نہ کہیں سمجھوتہ کرتاہے ۔
چوٹ لگتی ہے تو پتھر بھی صدا دیتے ہیں ۔ شجاعت کا مظاہرہ بھی جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایسا کیا کہ سبحان اللہ۔ خود پسندی اور طاقت کا ناروا استعمال بھی اس قدر کہ خدا کی پناہ۔ ان پر آخری فیصلہ تاریخ صادر کرے گی ۔ مارچ 2007ء میں جنرل پرویز مشرف ان کی توہین کے مرتکب نہ ہوتے تو کیا وہ پرانی روش پہ برقرار نہ رہتے ؟ تصادم ہوا تو انا بروئے کار آئی ۔ عوامی تائید ملی تو قاضی القضاۃ نے ہر ایک طاقتور کو پامال کرنے کا تہیہ کر لیا ۔ جج کا نہیں ، یہ ایک لیڈر کا طرزِ عمل تھا ۔
آدمی اپنی پسند و ناپسندکا ، تعصب اور میلانِ طبع کا شکار ہو جاتاہے ۔ اللہ کو جان دینی ہے ۔ سچ پوچھیے تو جج سعید الزماں صدیقی جیسا ہوتاہے ۔ جسٹس وجیہہ الدین ایسا ۔ ملک کے اولین چیف جسٹس سر عبد الرشید بہترین مثال تھے ، جنہوں نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے ساتھ ملاقات سے گریز کیا کہ حکومت کا ایک مقدمہ زیرِ سماعت تھا ۔ 
جسٹس افتخار محمد چوہدری ایک ردّعمل تھے اور ردّعمل ایسا ہی ہوتا ہے۔ توازن اس میں کہاں سے آئے ۔ مغرب کی جدید نفسیات تو ابھی دو صدیوں کا قصہ ہے ۔ ابنِ جوزیؒ اور امام غزالیؒ نے حبّ جاہ، ہر دلعزیزی کی تمنّا کے نتائج کو صدیوں قبل الم نشرح کیا۔ ان کی فکر کا ماخذ قرآنِ کریم تھا، اسوہ ء رسولؐ اور اصحابؓ کا طرزِ عمل ۔ سید الطائفہ جنیدِ بغداد ؒ ، ان کی یاد سے دل ہی شاد نہیں ہوتا ، جبیں جھکنے لگتی ہے ۔ ارشاد کیا تھا: دنیا کودل کے دروازے پہ بٹھا رکھاہے۔ جس چیز کی ضرورت ہو، ہاتھ بڑھا کے لے لیتے ہیں ، دل میں داخل ہونے کی اسے اجازت نہیں ۔ دستور یہ تھا کہ اگر پندرہ سے زیادہ لوگ جمع ہوتے تو خاموش ہو رہتے ۔ فرماتے : اب تو محض لذتِ گفتار ہی ہوگی۔ 
حسین بن منصور حلّاج ، جو حقیقت کم اور افسانہ زیادہ ہے، ان کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ اپنے بارے میں خوش گمانی کا شکار ، مشاہدات بیان کرتا رہا۔ کہا تو فقط یہ کہا: حسین !یہ کاروبارِ دنیا ہے ۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ وہ باز نہ آیا اور ہیجان کا شکار بولتا رہا تو عارف نے ارشاد کیا: حسین، میں لکڑی کے ایک ٹکڑے کو دیکھتا ہوں ، جسے تم اپنے لہو سے سرخ کروگے۔ وہ بگڑ کر بولا: اور اس دن آپ اہلِ اصول کی قبا پہنے ہوں گے ۔ جنیدؒ جانتے تھے ۔ حسین بے خبر تھا۔ جب پھانسی کے تختے پر کیل گاڑے گئے ، جنیدؒ وہاں نہ تھے ۔ وہ اپنے رب کے پاس جا چکے تھے ۔ وہاں دجلہ کے کنارے گھومتے رہنے والے شبلیؒ تھے ۔ پھول پھینکنے کی حکایت بس حکایت ہے ۔ شبلیؒ نے یہ کہا تھا: کیا میں نے تمہیں جنوں اور انسانوں سے منع نہیں کیا تھا ؟ بعد والوں نے اشارات سے خیال و فکر کے الا ئو بھڑکائے۔ شبلیؒ، اس صاحبِ جودو سخا کی مراد یہ تھی : بیان کرنے کے لیے نہیں ، محسوسات غور و فکر کے لیے ہوتے ہیں ۔ اپنے گھر میں خانہ کعبہ کا نمونہ بنا کر اس کا طواف کرنے والا پہلے ہی جام پر بہک گیا تھا۔ شبلی ؒ نے اس کی رعایت کی اور کسی قدر شیخِ ہجویر سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ نے کہ عالی ظرف بہت تھے ۔ فرمایا: اس کے باب میں خاموشی بہتر ہے ۔ 
اہلِ علم اور اہلِ صفا کے ساتھ نوکری پیشہ ججوں کا ذکر تقابل نہیں ، ایک نکتہ آشکار کرنے کی کوشش میں کیا۔ حسنِ نیت اصل چیز ہے، حسنِ نیت۔ عظمت ایثار کا مطالبہ کرتی ہے۔ اپنی ذات کی نفی کا۔ چیف جسٹس کی دلاوری نے حکمرانوں کی ہیبت کو حقیر بنایا، افسر شاہی اور جاگیرداروں کو بھی مگر جسٹس چوہدری کیا کبھی خود سے اوپر اٹھ سکے؟ ہاں! ہاں!آخری فیصلہ تاریخ کرے گی کہ وقت بڑا بے رحم صراف ہے ۔ ایک ذرا سی رو رعایت بھی نہیں کرتا۔ جہاں تک منصبِ قضا کے تقاضوں کا تعلق ہے تو مقدس روایات اور اصولوں کی پاسداری کرنا ہوتی ہے ؎ 
آغشہ ایم ہر سرِ خارے بہ خونِ دل
آئینِ پاسبانیِٔ صحرا نو شتہ ایم 
(ہر کانٹے کو میں نے اپنے خونِ دل سے سیرا ب کیا۔ صحرا کی پاسداری کا دستور اپنے لہو سے لکھ دیا)۔ 
انہیں کیا خبر جو حیاتِ اجتماعی میں علم،صداقت اور دستور کی عظمت کے قائل ہی نہیں ۔ خیال کی شدّت اور جذبے کی سرمستی میں حکم لگاتے ہیں ۔ جو درد کے تجربے سے گزرے ہی نہیں ، بھوکوں پیاسوں کی جنہیں پروا ہی نہیں، جو انا کو گنّے کا رس پلانے کے خوگر ہیں ۔ جنہیں ادراک ہی نہیں کہ معاشرے فقط اس آزادی میں فروغ پاتے ہیں ، جو ڈسپلن کی پابند ہو ۔ لکھے ہوئے آئین کی۔ فارسی کے اس قادر الکلام ، نظیری نیشا پوری کو اقبالؔ نے ایسا خراجِ تحسین پیش کیا کہ باید و شاید!
بہ ملک جم نہ دہم مصرعہ نظیری را 
کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلۂ ما نیست
(نظیری کا یہ مصرعہ میں ایک سلطنت کے عوض بھی نہ دوں: وہ کہ جو زخم نہیں کھاتا ، میرے قبیلے کا ہرگز نہیں۔) 
صبر اور حکمت آئین کی بنیاد ہیں۔ اپنی ذات کے بارے میں صبر وشکیب اور فیصلے میں تدبیر کے ساتھ اصول کی پابندی۔ چیخ و پکار کرنے والوں کو کوئی کیا سمجھائے اور کس طرح سمجھا سکے۔ 
بہ زیرِ شاخِ گل افعی گزید بلبل را
نواگرانِ نہ خوردہ گزند را چہ خبر
(شاخِ گل کے نیچے سانپ نے بلبل کو ڈس لیا۔ جنہیں کبھی تکلیف نہیں پہنچی ، انہیں اس کی کیا خبر۔) 
کیسا عجیب شعر یاد آیا ہے کہ دل مچل کر تڑپا اور تڑپ کر مچلتا رہا۔ 
یہ ہیں نئے لوگوں کے گھر، ان کو ہے اس کی کیا خبر
غم بھی کسی کی ذات تھی، دل بھی کسی کا نام تھا
کیسا ہوش ربا منظر تھا ۔ کچھ لوگ چیخ چیخ کر سبکدوش چیف جسٹس کی مدح کرتے رہے ۔ کچھ چیخ چیخ کر دشنام طرازی ۔ بندہ ہے ، وہ دیوتا نہیں اور بندہ ہے ،وہ شیطان نہیں ۔ مسیحا وہ نہیں ہے۔ درویش وہ بالکل نہیں۔ کارنامے بھی بہت اور خطائیں بھی بہت۔ آشکار یہ ہے کہ سیاست کا رخ کیا تو انجام عبرت ناک ہوگا، ڈاکٹر عبد القدیر خان کی طرح ۔فرمایا: جو کام بندے سے پروردگار لینا چاہے ، وہ اس کے لیے سہل کر دیتاہے ، اس کی توفیق عطا کرتاہے ۔ میر ؔ صاحب پھر یا دآئے ؎
زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل 
یوں سمجھ لے کوئی مینا خانہ بارِ دوش ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved