تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     13-12-2013

جنہیں مائوں کا رونا نظر نہیں آتا

گزشتہ کچھ دنوں میں پنجاب کے دو شہروں میں پندرہ بچے مارے گئے ہیں جو چنگ چی رکشہ ڈرائیورز کی غلطی سے مرے ہیں۔ دو تین برس قبل آزادکشمیر میں سکول جاتے بچے ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے دریا میں گر کر جاں بحق ہو گئے تھے تو سوچا تھا کہ شاید اس معاشرے کا ضمیر جاگے گا لیکن کچھ نہ ہوا۔ ایک کشمیری ماں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی جب اسے پتہ چلا کہ مرنے والے بچوں میں اس کے تین بیٹے بھی شامل تھے۔ وہ بھی دریا میں کود گئی۔ 
اب ان بچوں کی مائوں کو ٹی وی پر روتے دیکھا ہے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کا قاتل کون ہے! کیا وہ سب ضلعی افسران ہیں جنہوں نے چنگ چی رکشا ڈرائیوں کو بغیر ڈرائیونگ ٹیسٹ لیے کلیئر کر دیا تھا؟ ایک ہی رکشے میں سوار ایک ہی خاندان کے بارہ بچے نہر میں جاگرے اور کوئی زندہ نہ بچا۔ اب ایک اور شہر میں تین بچے رکشا میں سوار تھے کہ ٹرک سے ٹکر ہو گئی اور سب جاں بحق ہو گئے۔ روزانہ سڑکوں پر قتل ہورہے ہیں۔ کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کوئی محکمہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ آخر ٹریفک کے نظام کو کس نے درست کرنا ہے؟ کیا ڈی سی او صرف ضلع کا نواب بننے کے لیے وہاں تعینات ہوتا ہے؟ کہ اس کی کچھ ذمہ داری بھی ہے کہ دیکھے ضلع میں ناتجربہ کاروں کو کون لائسنس دے رہا ہے اور کس طرح کی گاڑیاں سڑکوں پر چل رہی ہیں؟ اگر گاڑیاں رفتار کی حد پار کر رہی ہیں تو انہیں روکنا کس کا کام ہے؟ سڑکوں پر بچے بغیر ہیلمٹ کے سفر کرتے ہوئے گرتے ہیں اور موقع پر دم توڑ دیتے ہیں تو کون ذمہ دار ہے؟ معاشرے میں ان چیزوں کے 
بارے میں شعور پیدا کرنا کس کا کام ہے؟ کس کو اس کام کے پیسے ملتے ہیں؟ اگر ہر ضلع میں ٹریفک بے قابو ہوگئی ہے اور بچے مر رہے ہیں تو پھر ایس پی ٹریفک وہاں کیا کر رہا ہے؟ ٹریفک کے ایس پی اور سپاہیوں کا کام شہر کی ٹریفک کو ہی درست کرنا ہے جو وہ نہیں کر پا رہے۔ چاہیے تو یہ کہ وہ دیہاتی علاقوں کا بھی رخ کریں تاکہ وہاں جو ٹریفک حادثات سے اموات ہونا شروع ہوگئی ہیں‘ ان کا تدارک ہوسکے‘ مگر وہ شہروں میں بھی ناکام ہیں تو پھر عملہ تنخواہ کس بات کی لے رہا ہے؟ آخر کیوں ہر ضلع میں لازم نہیں کر دیتے کہ جب تک کوئی چنگ چی رکشا کا ڈرائیور پروفیشنل انداز میں ڈرائیونگ نہیں سیکھے گا‘ سڑک پر نہیں آ سکے گا‘ کوئی ویگن والا سڑک پر نہیں آسکے گا جب تک وہ سیفٹی کے معیار پر پورا نہیں اترتا اور وہ انسانوں کی جانوں کا احترام کرنا نہیں سیکھتا۔ 
یہ جواز کوئی نہیں مانے گا کہ یہاں لوگ قانون کی پابندی نہیں کرتے‘ لہٰذا کچھ نہیں ہو سکتا۔ اسلام آباد میں اب سب لوگ سیٹ بیلٹ باندھتے ہیں۔ سب موٹر سائیکل سوار پنڈی سے اسلام آباد داخل ہوتے ہی ہیلمٹ سر پر رکھ لیتے ہیں۔ موٹر وے پر کوئی نہیں سوچتا کہ اس نے قانون کی خلاف ورزی کرنی ہے۔ پھر یہ سب کچھ نچلے لیول پر کیوں نہیں ہوسکتا؟ کہا جاتا ہے کہ وسائل نہیں ہیں۔ اگر وسائل نہیں ہیں تو پھر پولیس اور ٹریفک کے عملے کو تنخواہیں کیوں دی جارہی ہیں؟ یہ پیسے بچا لیں۔ کون سا شہر ہے جہاں کبھی وہاں کے ایس پی ٹریفک نے دورہ کیا ہو کہ خود دیکھے ٹریفک کی کیا حالت ہے۔ میڈیا بھی سوشل سروس کے اشتہار مفت چلانے کو تیار نہیں۔ کون سا دن جاتا ہے جب حادثوں میں تیس چالیس لوگ نہیں مارے جاتے۔ عوام کو بھی داد دیں کہ سیاستدانوں کے لیے سڑکوں پر نکلیں گے لیکن اس مقصد کے لیے کوئی جلوس نہیں نکلے گا کہ ناتجرکار ڈرائیور معصوم بچوں کو مار رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ نوحہ کس کے نام لکھا جائے۔ ان سیاستدانوں کے نام جن کے اپنے بچوں کے یہ مسائل ہی نہیں؟ لاہور شہر کے پرانے کمشنر کا بیٹا اپنے کلاس فیلو کو قتل کر دے تو وہ زمین آسمان ایک کر کے مقتول کے والدین سے صلح کرلیتا ہے لیکن دوسرو ںکے بچوں کو سڑکوں پر مرتے دیکھ کر اسے کوئی صدمہ نہیں ہوتا۔ 
ابھی قومی اسمبلی سے لوٹا ہوں اور شدید ڈپریشن میں ہوں کہ وفاقی وزیر سائرہ افضل تارڑ نے اسمبلی میں خوفناک انکشافات کیے ہیں کہ پاکستان میں پرائیویٹ میڈیکل تعلیم کے نام پر کیا گھنائونا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ کبھی پاکستان کی میڈیکل تعلیم کا دنیا بھر میں سکہ مانا جاتا تھا اور آج حالت یہ ہوچکی ہے کہ باتھ روم اور کچن تک میں لیبارٹریز کھل گئی ہیں۔ جو کہانی سائرہ افضل تارڑ نے سنائی ہے وہ دل ہلا دینے والی ہے کہ کیسے کچھ پرائیویٹ کالجز کا معیار گر گیا ہے اور اب مالکان والدین کو لُوٹ رہے ہیں اور میرے اپنے بھائی کی طرح سب والدین لٹنے کو تیار ہیں ۔ دس سے لے کر بیس لاکھ روپے تک عطیہ دیں اور بچہ داخل کر الیں ۔ اس وقت چودہ پرائیویٹ کالجز ایسے ہیں جو رجسٹرڈ تک نہیں ہیں‘ مگر چل رہے ہیں اور دھڑا دھڑ داخلے ہورہے ہیں۔ 81 کے قریب پرائیویٹ کالجز چل رہے ہیں۔ کیا اس ملک میں ہر دوسرے بچے نے اب ڈاکٹر ہی بننا ہے؟
پیپلز پارٹی حکومت کو یہ الزام اپنے سر لینا ہوگا کہ انہوں نے ڈاکٹر عاصم کو پاکستان میڈیکل ڈینٹل کالج کا سربراہ بنا کر وہ جرم کیا تھا‘ جس کی سزا اس ملک کی نسلیں بھگتیں گی۔ اس شیر کے بچے نے ہر گلی محلے میں بغیر کسی حساب کتاب کے کالجوں کو اجازت دی کہ وہ کھل کر جسے چاہیں لُوٹیں‘ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ سائرہ افضل تارڑ نے اشاروں کنایوں میں بہت کچھ کہہ دیا کہ کیسے اس ملک میں میڈیکل کی تعلیم کا بیڑا ڈاکٹر عاصم اور زرداری صاحب کی ایم این اے بہن نے مل کر غرق کر دیا تھا جو پی ایم ڈی سی کی ممبر تھیں۔ دوسری طرف قومی اسمبلی میں بتایا گیا ہے کہ ہر سال پاکستان میں 48 لاکھ بچے پیدا ہورہے ہیں۔ ہر گھرانہ فی کس اوسطاً 7 افراد پر مشتمل ہے۔ نالائقیوں کی ایک اور داستان سن لیں کہ پاکستان کے پاس اس حوالے سے بھی اعدادوشمار نہیں ہیں کہ اس ملک میں کتنی خواتین کو بریسٹ کینسر ہے جو تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس دفعہ گائوں گیا تو قصائیوں کے بچے نوکری کے لیے ملنے آئے تو ویسے ہی پوچھ لیا کہ ان کے گھروں میں کل کتنے بچے ہیں تو جواب سن کر سکتے میں آ گیا۔ ان سب بچوں نے مل کر وہیں اپنے گھروں میں موجود بچوں کو گننا شروع کیا تو پتہ چلا کہ صرف سات گھرانوں میں پچاس بچے ہیں اور مزید پیدا ہونے ہیں۔ سوچ رہا ہوں کہ گائوں میں ایک مدرسہ ہی کھلوا لوں تاکہ ان بچوں کا مستقبل تو محفوظ ہو۔ 
کسی کو ان ایشوز پر کوئی گھبراہٹ نہیں۔ آپ کتنی بجلی پیدا کرلیں گے؟ کتنے ڈیم بنا لیں گے؟ کتنے قرضے نوجوانوں کو دے کر روزگار پیدا کر لیں گے؟ کتنے لیپ ٹاپ بانٹ لیں گے؟ کیا کچھ کر لیں گے جب ہر سال تقریباً 48 لاکھ بچے پیدا ہورہے ہیں؟ پھر سوچتا ہوں کہ کن ایشوز پر لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔ یہ تو وہ ظالم ہیں جنہیں معصوم بچوں کی لاشوں پر بین اور سروں میں خاک ڈالتی مائیں بھی نظر نہیں آتیں۔ جو ٹریفک کا معمولی نظام درست کرنے کو تیار نہیں، وہ ان اہم ایشوز پر کیوں کر کام کریں گے جو پاکستان کے مستقبل کے لیے خطرہ ہیں! یہ تو وہ ظالم ہیں جو چند لاکھ روپے لے کر نیا نجی میڈیکل کالج کھولنے کی اجازت دے دیتے ہیں جو اپنے پیسے پورے کرنے کے لیے دس سے بیس لاکھ روپے عطیہ لے کر سیٹیں بیچتے ہیں اور ملک میں میڈیکل کی تعلیم کا بیڑا غرق کر رہے ہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved