تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     13-12-2013

جج اور جنرل

جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بعد جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سبکدوشی سے پاکستانی تاریخ کا ایک اور باب مکمل ہو گیا ہے ۔ چیف جسٹس کی مدّتِ ملازمت کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔ 30جون 2005ء کو جنرل مشرف نے انہیں قاضی القضاۃ مقرر کرتے ہوئے ایک مہلک غلطی کی ۔چیف جسٹس بننے سے پہلے اور بعد کے جج میں بہت فرق تھا۔ وہ قاف لیگ کی کٹھ پتلی حکومت کے غلط فیصلوں کی کامیاب مزاحمت کرتے رہے ؛حتیٰ کہ 9مارچ 2007ء کا دن آپہنچا۔اس کے بعد وہ دنیا کی تاریخ کے واحد جج کہلائے ، جنہیں عوامی تحریک سے دو بارہ ان کے عہدے پر بحال کیا گیا۔ اس مقبولیت نے ان کے مزاج کو مزید تندوتیزبناڈالا ۔ 
جنرل کیانی اور جسٹس چوہدری کی کہانی کے کئی باب مشترک ہیں ۔ دونوں جنرل پرویز مشرف کا انتخاب تھے ۔دونوں نے اپنے اپنے ادارے کی توقیر بحال کرائی ۔ عہدہ ملنے سے قبل دونوں ایسی خاموشی اور مصلحت سے کام کرتے رہے کہ پرویز مشرف کو کبھی ان سے اندیشہ نہ ہوا۔ان کا گمان تو یہ تھا کہ وہ ان کے کرتوتوں میں مددگار ہوں گے ۔ ہوا اس کے برعکس۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پرویز مشرف کے خلاف ایسے وقت میں اعلانِ جنگ کیا ، جب چہار 
دانگِ عالم میں ان کا ڈنکا بج رہا تھا۔ پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کے عادی، جنرل کیانی نے شمشیر زن ہونے کی بجائے ،بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پرویز مشرف کو قاف لیگ سمیت حالات کے سپرد کر دیا۔ حالات بڑے بے رحم ہوا کرتے ہیں ۔ فوجی افسروں کو انہوں نے سختی سے دھاندلی روکنے کا حکم دیااور ایسا ہی ہوا۔یہی وجہ تھی کہ 2008ء کے الیکشن میں شدید بحران کا شکار مسلم لیگ نواز پیپلز پارٹی کی 118کے مقابلے میں89نشستیں حاصل کر سکی۔نون لیگ کو جنرل کیانی کا ممنونِ احسان ہونا چاہیے تھا لیکن 2013ء کے الیکشن سے قبل ایسا نہ ہو سکا۔ 
پرویز مشرف جب جسٹس افتخار محمد چوہدری کو مستعفی ہونے کا حکم دے رہے تھے تو دوسرے جنرل صاحبان کے ساتھ اشفاق پرویز کیانی بھی موجود تھے ۔ بتایا جاتاہے کہ جج سے مصافحہ کرتے ہوئے ،جنرل صاحب نے ان کا ہاتھ ذرا سا دبایا تھا اور یہ ڈٹے رہنے کا مشورہ تھا ۔ بہرحال اس روز داد کے اصل مستحق تو جج صاحب ہی تھے اورمدح بھی انہی کی ہوئی ۔ جج اور جنرل 16مارچ 2009ء کی
شب ایک بار پھر ہاتھ ملاتے نظر آتے ہیں ۔ وہ لمحہ، جب ججوں کی بحالی کی صورت میں جنر ل کیانی لانگ مارچ کے شرکا ء کے لوٹنے کی ضمانت دیتے ہیں ۔ جسٹس چوہدری کو شاید جنرل کیانی کا ممنونِ احسان ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوا۔ پھر ایک دن شدید تلخی نے جنم لیا اور بہت مشکل سے معاملہ سنبھالا گیا۔ 
چیف جسٹس کی معزولی اور پھر بحالی کی تحریک سے پرویز مشرف کا اقتدار لڑکھڑانے لگا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی فائدہ اٹھانے کے لیے آدھمکی اور اس پر بہت کچھ لکھا گیا۔ مخدوم امین فہیم کو امیدوار نامزد کر کے 2007ء کے صدارتی الیکشن کو ساکھ عطا کی گئی ۔جواباً انتخاب سے صرف ایک دن قبل، 5اکتوبر کو این آر او جاری ہوا۔ پھر پرویز مشرف نے چھڑی جنرل کیانی کو تھما دی ۔ ایمرجنسی نافذ ہوئی اور جج نظر بند کر دیے گئے ۔ محترمہ نے چیف جسٹس کی بحالی کے لیے جدوجہد کا اعلان کیا اور قتل کر دی گئیں ۔ جج اور جنرل کے درمیان بی بی کا کردار بظاہر مظلوم کے انداز میں ابھرتا ہے اورباقی حقائق کو ڈھانپ دیتاہے ۔ مثلاً یہ کہ محترمہ اپنے آخری دنوں میں آمر سے ساز باز کی بنا پر نامقبولیت کا شکار تھیں ۔ جنوبی پنجاب کے لوگ گواہ ہیں کہ وہاں جلسوں میں عوام کی کم تعداد سے مایوس ہو کر انہوںنے راولپنڈی کا رُخ کیا تھا۔ 
جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سبکدوشی پر میڈیا میں ان کی حمایت اور مخالفت میں ایک ہنگامہ برپا ہے ۔ اس کا سبب بھی ان کی داد وصول کرنے کی خواہش اور اس ضمن میں اٹھائے گئے اقدامات ہیں ۔ سراہے جانے کی تمنّانے کبھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ سب سے بڑا مظہر وہ ہے ، جب پیپلز پارٹی کے دور میں مارشل لا نہ لگنے کا سہرا بھی وہ اپنے سر سجانا چاہتے ہیں ۔اگر یہ کارنامہ ہے ،تو جنرل کیانی کا لیکن وہ خاموش رہتے ہیں ۔عافیت بھی اسی میں ہے ۔
غلط حکومتی اقدامات پر چیف جسٹس نے جہاں سختی سے سرزنش کی ، وہیں بعض اوقات وہ ایک مہم جو نظر آئے۔ اس کا سب سے بڑا مظہر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے وارنٹ عین اس وقت جاری کرنا تھا ، جب علّامہ طاہر القادری اپنے ''لاکھوں ‘‘جاں نثاروں کے ہمراہ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے براجمان تھے ۔ ـ''شیخ الاسلام ‘‘ نے اپنے مبارک لبوں سے یہ خوشخبری عام کی تو مجمع چیف جسٹس کے حق میں نعرے لگاتا رہا۔ چیف جسٹس کرپشن کے خلاف ایک چٹان بن گئے لیکن اس کوشش میں بعض اوقات انہوںنے حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ نوبت یہاں تک آئی کہ ان کی بحالی میں سب سے بڑا کردار ادا کرنے والی نون لیگ کی حکومت ان کی رخصت کا انتظار کرتی نظر آئی۔ بے شک بے شمار معاملات میں انہوںنے انصاف کیا لیکن تین چار دوسرے معاملات کی طرح ڈاکٹر شعیب سڈل والے معاملے میں بھی لڑکھڑا گئے ۔ سب سے بڑی حیرت یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے روز انہوں نے ایک فاش غلطی کی اور میڈیا میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔شاید وہ سمجھ نہ سکے کہ ان کی سبکدوشی کا انتظار بہت بے چینی سے کیا جا رہا تھا۔شاید وہ سمجھ نہ سکے کہ سبکدوش آدمی کا رعب پہلے جیسا نہیں رہتا۔ کتنے ہی شہسواروں کو انہوں نے مٹی ہوتے دیکھا تھا۔ پھر وہ سمجھ کیوں نہ سکے ؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved