آج سے تقریباً پچپن سال قبل امن کی آشا کا ایک سفر ڈھاکہ، چٹاگانگ، کھلنا، نواکھلی، فرید پور اور ایسے کئی سو مقامات پر شروع ہوا تھا۔ بنگال کا دانشور طبقہ قیام پاکستان سے اپنی شکست پر تلملایا ہوا تھا کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔ دنیا بھر کے تعلیمی ادارے، سیاسیات کے ماہر، تاریخ کے شناور اور سیکولر دانشور صدیوں سے لوگوںکو یہ سبق پڑھاتے چلے آئے تھے کہ قومیں رنگ، نسل، زبان اور علاقے سے بنتی ہیں۔ اسی بنیاد پر جنگ عظیم اوّل کے بعد دنیا کو تقسیم کیا گیا۔ لیکن مشرق میں رہنے والے بنگالیوں کو کیا ہو گیا؟ ایک بنگالی تہذیب، ایک بنگالی زبان، مشترکہ ادبی اور ثقافتی ورثہ اور ایک ہی مسحور کن علاقے کے باوجود انہوں نے تحریک آزادی کے وقت ملک علیحدہ کر لیا اور وہ بھی اس لیے کہ یہاں کے رہنے والے کلمۂ طیبہ لاالہ الااللہ پڑھتے ہیں۔ ان کے معروضی علم اور موضوعی دماغ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی۔ بنگال کی سرزمین سے علیحدہ اسلامی مملکت کی تحریک نے جنم لیا اور پھر مغربی حصہ بھی اس کا ہمنوا ہو گیا تھا۔ 1947ء میں تخلیق پانے والے اس پہلے اسلامی نظریاتی ملک نے بہت سے سینوں پر مونگ دلے اور ہزاروں دانشوروں کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا۔ ادھر اس تقسیم سے ایک ایسے مذہب کے متشدد اور امن پسند دونوں طبقات نے بھی انتقام کی آگ کو بھڑکایا جو صدیوں سے ہند کی سرزمین کو پوتر اور پاک سمجھتے ہوئے مذہبی طور پر یہاں سے باہر جانے کو بھی حرام قرار دیتے تھے، جو اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ باہر سے آنے والے مسلمانوں نے اس دھرتی کو‘ جو دیوتائوں کی سرزمین ہے، ناپاک کر دیا ہے۔ وہ تمام مسلمانوں کو ملیچھ یعنی ناپاک تصور کرتے تھے۔ ملیچھ کا مقام ہندوئوں کی ذات پات کے مذہبی نظام میں شودروں اور دلتوں کے بھی بعد آتا ہے۔ مشرقی بنگال کے عوام کا مغربی ہندوستان کے لوگوں کے سا تھ مل کر ایک ایسا علیحدہ ملک بنانا‘ جس کی بنیاد کلمۂ طیبہ ہو، سیکولر دانشوروں اور ہندو ویدانتی مذہب کے متوالوں دونوں کے لیے ایک المیہ تھا۔ اس سارے کھیل کو کیسے بگاڑا جائے؟ کس طرح رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر نفرت کی آگ بھڑکائی جائے؟ اس کے لیے ایک مصنوعی دشمن ضروری ہوتا ہے جس کی نسل، رنگ، زبان اور علاقہ مختلف ہو۔ مغربی پاکستان دشمنی کے اس معیار پر پورا اترتا تھا؛ چنانچہ سیاسی پنڈت اور معاشی ماہرین میدان میں کودے۔ تجزیے، تبصرے اور معاشی جائزے پیش کیے گئے۔ دوسری جانب مغربی پاکستان میں حکومتی افسروں نے بھی اپنی بدترین غلطیوں سے نفرت کی تحریروں کے لیے مواد فراہم کیا۔ مشرقی پاکستان میں یہ تصور راسخ کر دیا گیا کہ مغربی پاکستان لٹیرا ہے۔ صحافت کے میدان میں یہ نعرہ زبان زدِ عام ہو گیا کہ ''مغربی پاکستان کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے‘‘۔ نفرت کے اس شدید ماحول میں ایک
ثقافت، ایک تہذیب، ایک زبان اور ایک ادبی ورثہ کے تحت امن کی آشا کے پھول کھلانے شروع کر دیے گئے۔۔۔ میگھا ایک طرح کی چھاتی ہے، برہم پتر دریا سب کو ایک طرح سیراب کرتا ہے۔۔۔رقص و موسیقی کے دھارے ایک جیسے ہیں، ٹیگور مشترکہ ورثہ ہے۔۔۔ اور وہی نعرہ جو آج یہاں بھی لگایا جاتا ہے کہ ہم تین ہزار سال سے بنگالی، چودہ سو سال سے مسلمان اور صرف چند سالوں سے پاکستانی ہیں۔ تین ہزار سال سے عرب ہونے کا دعویٰ تو مکّہ میں ابوجہل کا تھا اور میرے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس نسلی تفاخر کی جڑ کاٹ کر رکھ دی تھی۔ جیسے مشرکین مکّہ کو نسل، زبان اور رنگ کی برتری کی شکست کا دکھ تھا ویسے ہی پاکستان کی تخلیق پر ان طبقات کی حالات بھی دیدنی تھی جن کے بنگالی اور ہندوستانی قومیت کے نعرے 14 اگست 1947ء کو ہوا میں تحلیل ہو گئے تھے۔ اس کا توڑ صرف امن کی آشا تھی، یہ یقین دلانا تھا کہ ہم ایک ہیں، نسلاً ایک ہیں، مذہب تو ایک ثانوی چیز ہے۔ اس کے بعد کی کہانی بہت دردناک ہے۔ اس کا آغاز اس دن سے ہو گیا تھا جب مغربی پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء کے انتخابات میں ایک امیدوار بھی مشرقی پاکستان میں کھڑا نہ کیا اور مشرقی پاکستان کے مقبول لیڈر شیخ مجیب الرحمٰن نے مغربی پاکستان میں تین برائے نام امیدوار کھڑے کیے۔ علیحدگی کی تحریر کا یہ پیش لفظ تھا جو ان دونوں رہنمائوں نے تحریر کر دیا تھا۔ اس کے بعد تاریخ کا خونچکاں باب شروع ہوا۔ ہوسِ اقتدار نے کھل کر عام انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ انسانی خون اور عزت و آبرو کی پامالی کے اس بدترین موسم میں کچھ دیوانے اور فرزانے ایسے تھے جو وطن کے پرچم، ملک کے نظریے کی حفاظت اور تحفظ کی جنگ لڑ رہے تھے۔ یہ نسلاً بنگالی تھے۔ ان کی زبان، رنگ اور علاقہ وہی تھا لیکن ان کے نزدیک پاکستان کا تحفظ اس متحدہ ریاست کا تحفظ تھا جو اللہ کے نام پر وجود میں آئی تھی۔ ان لوگوں میں عبدالقادر ملاّ بھی تھے، فرید پورکے رہنے والے‘ جنہیں کل بنگلہ دیش میں تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔
اس ساری لڑائی، خونریزی، قتل و غارت اور دھماچوکڑی کے بعد جب مشرقی پاکستان کی متحدہ پاکستان سے علیحدگی ہوئی تو دنیا کے سامنے دو قومی نظریے کی وہ عظیم سچائی پھر اُبھر کر سامنے آ گئی۔۔۔ نہ کسی کو بنگالی زبان یادآئی اور نہ ہی یکساں ثقافت، کہا گیا کہ تم مسلمان ہو اس لیے تمہارا ملک علیحدہ ہو گا۔ مسلمان بنگالیوں کا بنگلہ دیش اور غیرمسلم بنگالیوں کا مغربی بنگال۔ لیکن معاشی پنڈتوں اور مغربی پاکستان کی لوٹ مار کی کہانی کا بھی بدترین انجام ہوا۔ 1971ء سے پہلے ایک بنگالی بھی بھارت میں چھوٹی موٹی نوکری کرنے نہیں گیا تھا، آج وہاں ایک کروڑ بنگالی دربدر خاک بسر چھوٹی چھوٹی نوکریاںکر رہے ہیں۔ 1971ء سے پہلے بنگالی عورت عزت و آبرو کے ساتھ اپنے شہروں میں زندگی گزار رہی تھی لیکن اب غربت و افلاس کا یہ عالم ہے کہ دس لاکھ بنگالی عورتیں دنیا بھر کے بازاروں میں بیچی جا چکی ہیں۔ کلکتہ کے بازارِ حسن میں ستر فیصد عورتیں بنگلہ دیشی ہیں۔ 1971ء سے پہلے بہت کم لوگ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان میں چھوٹی موٹی نوکری کرنے آتے تھے لیکن آج یعنی 2013ء میں اندازاً بیس لاکھ بنگالی اس مغربی پاکستان میں معاشی مجبوری کی وجہ سے باروچی بنے ہوئے ہیں اور دوسری چھوٹی چھوٹی نوکریاں کر رہے ہیں۔ وہ لوگوں کے طعنے سنتے ہیں، پولیس والوں کو رشوتیں دیتے ہیں، جعلی شناختی کارڈ بناتے ہیں لیکن اپنے سنار بنگلہ دیش واپس نہیں جاتے‘ جسے میرے ملک کے دانشوروں نے 1971ء میں انہیں اس طرح پیش کر دیا تھا کہ مغربی پاکستان سے آزاد ہو کر وہ دنیا کی خوشحال ترین قوموں میں سے ایک ہوں گے۔ امن کی آشا سے جب بنگلہ دیش کی آزادی ہوئی تو وہ سب کے سب مجرم بنا دیے گئے جو اس ایک ملک پاکستان کے تحفظ کی قسم اٹھاتے تھے اور اس سے محبت کرتے تھے۔ اس کے بعد امن کی آشا کے نقیب بھارت نے اس نوزائیدہ ملک کے سا تھ جو کیا وہ بھی ایک المناک داستان ہے۔ پچیس سال تک دو ارب ڈالر کی متروک اشیاء انہیں زبردستی بیچی گئیں اور ان سے ایک ڈالر کی چیز بھی نہ خریدی۔ دریائوں کا پانی روکا گیا اور آج اس بنگالی قوم کے درمیان ایک باڑ ہے جسے عبورکرنے والوںکو گولی مار دی جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک دس سالہ بچی کی وہ تصویر دنیا بھر کے میڈیا کے لیے حیرت کا باعث بنی جو اس دس فٹ اونچی باڑ کو بمشکل عبور کر رہی تھی اور ایک زبان بولنے والے مغربی بنگال جا رہی تھی کہ اسے گولی مار دی گئی اور اس کی لاش بنگالی قومیت کے چہرے پر تصویر بن کر رہ گئی۔
یہ داستان طویل بھی ہے اور دلگداز بھی۔ اس داستان سے میرے ملک کی اکثریت ناآشنا ہے کیونکہ انہوں نے وہی کہانیاں پڑھی ہیں جو میرے ملک کے میڈیا پر قابض ''عظیم‘‘ دانشوروں نے سنائی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے محبت کے جرم میں عبدالقادر ملا کو دی جانے والی پھانسی پر کوئی آنکھ اشکبار نہیں ہوئی، لیکن اللہ اس دن سے بچائے، اس وقت سے پاکستان کو محفوظ رکھے کہ آج جو آنکھیں بنگلہ دیش میں پاکستان کی محبت میں مرنے والوں اور فوج کا ساتھ دینے والوں پر خاموش ہیں اگر کل کہیں کوئی ایسی حکومت برسراقتدار آ گئی جو سوات آپریشن، وزیرستان کارروائی اور بلوچستان آپریشن میں پاکستان اور پاکستان کی فوج کا ساتھ دینے والے کو تختۂ دار پر کھینچنے لگی تو شاید ان کے لیے چند سطریں لکھنے والا بھی کوئی موجود نہ ہو۔