امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں پیش کیے جانے والے تمام تر نکات سننے کے بعد میں نے سوچا کہ بہتر ہے‘ اس بحث میں قارئین ایک نئی آواز سے روشناس ہوں۔۔۔ یہ آواز محمد حسن کی ہے۔ یہ ان کا اصل نام نہیں ہے۔ دراصل وہ اپنا نام یا اپنے شعبے کی شناخت واضح نہیں کرنا چاہتے، اس لیے یہ ان کا فرضی نام ہے۔ ان کی احتیاط قابلِ فہم ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں امریکی ایجنٹ ہونے کے شبے میں سینکڑوں افراد کو بہیمانہ تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ اگر کسی شخص پر طالبان کو ہلکا سا شک بھی ہو جائے تو وہ اُسے ہلاک کر دیتے ہیں۔ چنانچہ حسن نے Der Spiegel، جو ایک جرمن روزنامہ ہے، کے نمائندے سے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کا کہا۔ مجھے جس چیز پر حیرت ہوئی وہ یہ تھی کہ حسن کو اپنی زندگی جوکھم میں ڈال کر یہ کام کرنے کے ہر مہینے میں صرف 200 ڈالر ملتے ہیں۔ وہ انتہائی دشوار کام کر رہا ہے، جس میں معمولی سی غلطی کا انجام بھیانک موت ہے، لیکن اس کے عوض یہ تنخواہ بہت کم ہے۔ میرا خیال تھا کہ سی آئی اے، جس کے پاس بہت بھاری بجٹ ہوتا ہے، ایسے خطرناک کاموںکے لیے کچھ زیادہ رقم دے گی لیکن آپ حسن کی پوزیشن کو سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اب کسی سے شکایت بھی نہیںکر سکتا۔
Der Spiegel کو انٹرویو دیتے ہوئے حسن نے طالبان کے ساتھ ہونے والے مجوزہ مذاکرات کی سختی سے مخالفت کی۔۔۔ '' آپ ان لوگوں سے کیا بات کریںگے؟ کیا آپ ان کو اقتدار میں حصہ دینے کے لیے راضی ہیں؟‘‘حسن کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں جس میں جدیدیت، جیسا کہ سڑکیں، سکول، ہسپتال، تفریح، موسیقی وغیرہ کا شائبہ تک نہ ہو۔ وہ اسلام کی جدید شکل، جس پر عام پاکستانی یقین رکھتے ہیں، کو تسلیم نہیںکرتے ہیں۔۔۔ کیا عمران خان اس'' ریاست‘‘ میں ایک دن گزار سکتے ہیں؟
جب حسن سے پوچھا گیا کہ وہ امریکی ڈرون حملوں کا کیا جواز فراہم کرتا ہے جبکہ ان حملوں میں اس کے ہم وطن ہلاک ہو رہے ہیں؟ تو اس کا جواب تھا۔۔۔''ہم حالت جنگ میں ہیں اور میں اس جنگ کا حصہ ہوں۔ ایک جنگ میں جانی نقصان ناگزیر ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جنگوں میں عام شہری بڑی تعداد میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ میں ایمانداری سے خیال کرتا ہوں کہ ان طالبان کے خلاف یہ ڈرون حملے بہت موثر ہیں کیونکہ اس خطے میں ان انتہا پسندوںکو ہلاک کرنے کے لیے کوئی اور ہتھیار کام نہیں دیتا ہے۔ یکم نومبر کو حکیم اﷲ محسود، جو طالبان کا کمانڈر تھا، امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گیا۔ فوجی نقطہ ٔ نظر سے ایک بڑی کامیابی ہے۔‘‘
جب حسن سے پوچھا گیا کہ یہ حملے پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہیں تو اُس نے کہا ۔۔۔''کون سی خودمختاری؟ کئی عشروں سے پاکستان ان علاقوں پر کنٹرول نہیں رکھتا۔ یہاں پاکستان کا قانون نہیں چلتا۔۔۔ بلکہ یہاں کوئی بھی قانون نہیں چلتا۔ یہ ایک جنگل ہے‘‘۔
حسن سے جب اخبار کے نمائندے نے سب سے اہم سوال پوچھا کہ ان ڈرون حملوں میں عام شہری بھی بڑی تعداد میں ہلا ک ہو جاتے ہیں تو اس پر حسن کا کہنا تھا۔۔۔''یہ احمقانہ بات ہے، بلکہ یہ محض پروپیگنڈا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اعدادوشمار (جیسا کہ بیورو آف جنرلزم نے پیش کیے تھے) دفتر میں بیٹھ کر ہی بنائے گئے ہیں۔ ان کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ وہ اعداد وشمار ہیں جو پاکستانی اخبارات میں شائع ہونے والے کالموں اور خبروں میں بیان کی جانے والی ہلاکتوں کے تخمینے سامنے رکھ کر اکٹھے کیے گئے ہیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پاکستانی اخبارات میں لکھنے والے ان علاقوں تک رسائی نہیں رکھتے۔ وہ سنی سنائی باتوں کو ہی بیان کرتے ہیں۔ ان کے پیش کردہ اعدادوشمار کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ میں چونکہ اُس علاقے میں موجود ہوں، میں جانتا ہوں کہ شہریوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں اور بدقسمتی سے ہلاک ہونے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ میرے پاس درست اعدادوشمار نہیں ہیں لیکن میں پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ ہلاک ہونے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق انتہا پسندوں، جو ریاست پاکستان کے دشمن ہیں، سے ہوتا ہے۔
آخر میں جب حسن سے پوچھا گیا کہ وہ میڈیا سے بات کرنے کے لیے کیسے راضی ہو گیا تو اُس نے کہا۔۔۔''میں محسوس کر رہا تھا کہ عوام تک یہ باتیں پہنچنے کی ضرورت ہے۔ آج کل ڈرون حملوں پر بہت سی باتیں ہو رہی ہیں، چنانچہ حقائق کو نظر انداز نہیںکیا جانا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شہری علاقوں میں رہنے والے لوگ جتنا مرضی شور مچا لیں، قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کی حمایت پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سب لوگ طالبان سے ڈرتے ہیں، کوئی بھی سچ بولنے کی جرات نہیں رکھتا۔ جو بھی کہتا ہے کہ ڈرون فائدہ مند ہیں، اسے ختم کر دیا جاتا ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ یہاں جو لوگ ڈرون طیاروں کے خلاف ہیں، طالبان کے حامی وہ بھی نہیںہیں۔ وہ دراصل امن سے رہنا چاہتے ہیں؛ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ جب تک یہ انتہاپسند ختم نہیں ہو جاتے، ہم امن سے نہیں رہ سکتے‘‘۔
حسن کا یہ انٹرویو پڑھنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ جن رہنمائوں نے پشاور میں نیٹو سپلائی روک رکھی ہے اور وہ بھی جو ٹی وی پروگراموں میں ڈرون حملوں کی مخالفت میں دہائی دیتے رہتے ہیں، اگر ان سے کہا جائے کہ وہ جا کر چند ہفتے قبائلی علاقوں میں بسر کریں تو وہ ایسا نہیں کریں گے حالانکہ وہاں وہ ان جہادیوں کی مہمان نوازی کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ شاید وہ ان کو یہ سمجھانے میں بھی کامیاب ہو جائیں کہ جب امریکی طیاروں کی آواز سنیں تو گھروں میں عورتوں اور بچوں کے درمیان پناہ لینے کا چارہ نہ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ سیاست چمکانے والا کوئی سیاست دان قبائلی علاقوں میں جانے کا خواب بھی نہیں دیکھے گا۔ اُنہیں اپنی گردن عزیز ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان طالبان نے فاٹا کے معصوم شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اُنھوںنے سکول تباہ کر دیے ہیں تاکہ بچے تعلیم حاصل کرنے کی بجائے خود کش حملہ آور بنیں۔ وہ خواتین کو گھر سے نکلنے بھی نہیں دیتے۔ ان علاقوں میں رہنے والے شہریوں کی نہ تو ریاست پُرسانِ حال ہے اور نہ ہی قبائلی سردار ان کا طالبان کے خلاف کوئی تحفظ کر پاتے ہیں۔ یکے بعد دیگر ے مختلف حکومتوں نے اُنہیں ان کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ اس دوران خوش فہم رہنما ''خود مختاری‘‘ کی رٹ لگائے رہتے ہیں تاکہ کچھ کرنا نہ پڑے اور سیاسی پوائٹ سکورنگ بھی ہو جائے۔
جب امریکہ کے سیکرٹری برائے دفاع، چک ہیگل، نے حال ہی میں امریکہ کی طر ف سے ملنے والی امداد کو نیٹو سپلائی سے مشروط کیا تو یہ ایک کھوکھلی دھمکی نہیں تھی۔ ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ وہ بہت جلد ڈالر کا ریٹ سو روپے سے نیچے لائیںگے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ ہیری پورٹر کی جادوئی چھڑی رکھتے ہیں یا پھر ان کی حسِ مزاح بہت عمدہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔ ایک بھکاری میں بھی اتنی سمجھ بوجھ ہوتی ہے کہ جو ہاتھ اُسے خیرات دیتا ہے، وہ اُسے کاٹنے کی کوشش نہیں کرتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved