پہلے اردوعان اور 260ترک کاروباری افراد نے‘ حسنی مبارک کے بعد والے مصر کا تاریخی دورہ کیا۔ ایک ہی دن میں ترک کاروباری افراد نے‘ مصری کمپنیوں کے ساتھ 853 ملین ڈالر کے نئے معاہدے کیے ۔ ایک ترک بزنس مین داووت دوگان نے ایک کروڑ ڈالر کی لاگت سے فرنیچر سازی کا نیا مرکز قائم کرنے کا وعدہ کیا۔دوگان نے کئی ہفتے بعد استنبول میں ایک انٹرویو میں فخریہ کہا ''یہ کارخانہ دو سو افراد کو روزگار فراہم کرے گا‘‘۔
اردوعان کے شاندار خیرمقدم سے‘ ترک بزنس مینوں کی طرف سے معاشی طاقت کے اظہار تک‘ اس دورے سے عیاں ہوا کہ ترکی خطے کی اقتصادی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے ۔ قاہرہ کے بعد اردوعان نے تیونس اور طرابلس کے دورے کیے ۔ نئے نئے آزاد ہونے والے ، عرب بہار کے بعد کے ان تینوں عرب دارالحکومتوں میں‘ اردوعان نے وہ کچھ کیا جو کوئی امریکی نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے ہمہ تن گوش حاضرین سے کہا کہ اسلام اور جمہوریت ایک ساتھ قائم و برقرار رہ سکتے ہیں۔ ایک قدامت پسند اسلامی جماعت کے راسخ العقیدہ سربراہ نے کہا کہ مسلمان جمہوریت پسند ہوتے ہوئے بھی صاحبِ ایمان ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے تیونس میں کہا، ''اسلام اور جمہوریت میں کوئی تضاد نہیں۔ مسلمان‘ ریاست کا نظام بہت کامیابی سے چلا سکتا ہے‘‘ ۔
شرق اوسط میں نہایت مقبول ہونے کے ناتے‘ اردوعان کو اس خطے میں امریکہ سے زیادہ اعتبار حاصل ہے ۔ غلط ہو یا درست، انہوں نے حالیہ برسوں میں اسرائیل کو آڑے ہاتھوں لے کر خود کو ایک عوامی ہیرو کا درجہ دلوا لیا ہے ۔ ملازمتیں مہیا کرنے میں ان کی کامیابی کو ‘معاشی ترقی کیلئے ترسنے والے ملکوں نے بہت سراہا ہے ۔
بہرحال اردوعان نے خطّے پر حاوی دو سیاسی حرکیات کو مٹا ڈالا ہے:ایک بے فیض جمہوریت اور دوسری جابرانہ فوجی حکمرانی۔ انہوں نے ترک فوج کی گرفت ختم کر کے‘ بہت سے لوگوں کو خوش کر دیا۔ ترک فوج نے 1960ء اور 1980ء کے درمیانی عرصے میں‘ تین غیر فوجی حکومتیں برخاست کر دی تھیں۔ان کی جماعت‘ ترکی کے دھڑے بندی سے معمور سیاسی نظام میں ایک ایسی غالب قوت بن گئی ہے کہ اس نے طویل عرصے سے اتحادی حکومتوں کے قیام کا سلسلہ ختم کر دیا ہے ۔
2011ء کے انتخابات میں‘ اردوعان کی جماعت نے 49فی صد ووٹ حاصل کر کے تیسری بار حکومت بنانے کا حق حاصل کیا۔ ترکی کے کثیر جماعتی نظام میں ووٹوںکی اتنی زیادہ تعداد تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ 2012ء میں ایک پارلیمانی کمیٹی نے 1980ء میں فوجی بغاوت کے بعد بنائے جانے والے آئین کی جگہ نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا شروع کیا۔
ایک ترک اخبار کے کالم نویس اور اکثر اوقات‘ اردوعان کا دفاع کرنے والے مصطفی اکیول نے کہا کہ وزیرِ اعظم اردوعان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی‘ جسے اے کے پی بھی کہا جاتا ہے، عرب بہار کے بعد مسلم ملکوں کی اسلامی جماعتوں کے لیے ایک نمونہ ہے ۔ مصطفی اکیول نے 2011ء میں طبع ہونے والی اپنی کتاب Islam Without Extremes: A Muslim Case for Liberty میں با استدلال لکھا ہے کہ اسلام کے دائرے کے اندر لبرل ازم کی گنجائش ہے ۔ انہوں نے ایران، سعودی عرب اور عسکریت پسند گروہوں کی آمرانہ نوعیت کی تعبیروں کو بھی چیلنج کیا ہے ۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا، ''ہم اے کے پی کو دیگر اسلامی جماعتوں کے لیے نمونہ قرار دے سکتے ہیں۔۔۔ اور یہ ایک اچھا نمونہ ہے ۔ اسلام پسند ایران کی آمرانہ مثال کی بجائے‘ اے کے پی کے نمونے سے جتنا زیادہ اثر قبول کریں گے ، خطے کے لیے اُتنا ہی اچھا ہو گا‘‘۔
اے کے پی نے ترکی میں جو معاشی انقلاب برپا کیا ہے، اردوعان کے ہمراہ مصر کے دورے پر جانے والے فرنیچر کے بہت بڑے ترک بزنس مین داووت دوگان، اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ استنبول کی شائستہ و نرم خو اشرافیہ کے برخلاف اناطولیہ کے زیادہ مذہبی، جوشیلے اور کسی کی پروا نہ کرنے والے کاروباری افراد نے‘ ترکی کے اقتصادی عروج میں مرکزی کردار ادا کیا ہے ۔بلند جیلیبی ترکی کی ایک اور طرز کی ترقی کی مثال ہیں، یعنی کہ ہائی ٹیک کے شعبے میں ترقی۔ پاکستان میں ''ڈیٹنگ‘‘ کی پہلی ویب سائٹ کے بانی‘ مونس رحمان کی طرح بلند جیلیبی کا تذکرہ بھی امریکی صحافی المیرا بیراسلی نے ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے نوجوان کاروباری افراد کے بارے ایک مضمون میں کیا تھا۔
مونس رحمان کی طرح بلند جیلیبی بھی ٹیکنالوجی، قلیل سرمائے سے کاروبار کرنے کے رجحان اور عالمگیریت کے امتزاج کی عکاسی کرتے ہیں۔
استنبول دنیا کا ایک نہایت خوب صورت شہر ہے ۔ المیرا بیراسلی نے لکھا ہے کہ یہاں الیکٹرانک ذرائع سے رسائی پانا نہایت دشوار ہے ۔شہر کے مکانات کی دیواریں کنکریٹ کی ہیں۔ امریکہ کی پلاسٹر بورڈ کی دیواروں کے لیے وضع کیے گئے وائرلیس راؤٹروں سے نکلنے والے سگنل ان دیواروں کے پار نہیں جا سکتے۔
جیلیبی نے موقع بھانپ کر2004ء میں اپنی کمپنی ''ایئرٹائیز‘‘ قائم کی‘ جو خصوصی ماحول کے لیے الیکٹرانک آلات بناتی اور فروخت کرتی ہے ۔ استنبول میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد جیلیبی نے امریکہ جا کر سان فرانسسکو میں چپ کمپنی ''یوبیکوم‘‘ قائم کی لیکن وطن کی یادیں اور ایک کاروبارکا تصور انہیں واپس لے گیا۔
جیلیبی پوری دنیا کے لیے وائی فائی بنا رہے ہیں۔ المیرا بیراسلی کے بقول ریڈیو جیسا یہ وائی فائی باکس پوری دنیا میں وائی فائی سگنل بھیجتا ہے جبکہ امریکی وائی فائی ہر جگہ کام نہیں کر سکتا۔ وائرلیس کی سب سے بڑی کمپنیوں لنک سیس، ڈی لنک اور نیٹ گیئر کو بھی‘ ابھی تک یہ خیال نہیں سُوجھا۔ امریکہ کی مارکیٹ پر توجہ مرکوز رکھنے کے باعث ان کمپنیوں نے عالمی مارکیٹوں کے لیے آلات نہیں بنائے ۔ سان فرانسسکو میں جیلیبی نے ان کمپنیوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اُن کے تیار کردہ آلات‘ ایسی ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے لیے خرید لیں جو جیلیبی کے ایقان کے مطابق بہت ترقی کرنے والی تھیں۔ جب ان کمپنیوں نے انہیں نظرانداز کیا تو انہوں نے یہ کام خود انجام دینے کا فیصلہ کیا۔
المیرا بیراسلی لکھتی ہیں کہ جیلیبی نے سان فرانسسکو میں قائم کیے اپنے تعلقات کے ذریعے سلیکون ویلی کے سرمایہ کاروں سے تین لاکھ ڈالر کی رقم حاصل کی اور امریکہ سے تعلیم یافتہ چند ترک انجنیئروں کو اپنا ساتھ دینے پر آمادہ کیا۔پہلے جیلیبی نے استنبول پر توجہ مرکوز کی، جہاں کنکریٹ کے فرش اور دیواریں ایک مسلسل وائرلیس سگنل کو کمزور کر دیتی ہیں۔
المیرا بیراسلی کے مطابق ‘یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے انہوں نے ایک ایسی ٹیکنالوجی اختراع کی جو دل کی دھڑکن کی طرح بار بار لہریں بھیجتی ہے ۔ الیکٹرونک آلات ان لہروں کو بغیر وقفے کے موصول کر سکتے تھے اور یوں استعمال کنندہ کو بہتر سگنل مہیا کر سکتے تھے ۔
المیرا بیراسلی نے لکھا ہے کہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے لنک سیس اور دیگر کمپنیوں کے برخلاف صارفین کی خدمت اور ان کی ضرورتوں کے مطابق آلات بنانے کو ترجیح دی۔ انہوں نے ترکی، بلقان اور شرق اوسط کی 465ملین نفوس پر مشتمل مارکیٹ کو پیشِ نظر رکھ کرراؤٹر بنائے جن کے ساتھ ترکی، عربی، بلغارین، یونانی، قازق اور رومانی زبانوں میں راہنما کتابچے مہیا کیے جاتے ہیں اورگاہکوں کو 24 گھنٹے مدد فراہم کی جاتی ہے ۔اس کے بعد انہوں نے روسی زبان کا بھی اضافہ کر دیا جس سے یوکرائینیوں سمیت ان کے امکانی خریداروں میں 187 ملین افراد کا اضافہ ہو گیا۔(جاری)