تحریر : وصی شاہ تاریخ اشاعت     15-12-2013

مریم سے مریم تک

پرائم منسٹر ہائوس میں یوتھ پروگرام کی لانچنگ تقریب میں پورے پاکستان سے مدعو کیے گئے معروف ،معتبر اور سینیئرصحافیوں اور دانشوروں کے ہمراہ ہال میں داخل ہوا تو پہلا خیال یہی آیا کہ
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
وہی ہال تھا، وہی کرسیاں تھیں، وہی کرسیوں کی ترتیب، وہی قدآدم دروازے ، وہی ماحول ، اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ملک میں وہی جگمگاتے ہوئے فانوس، وہی ڈیکیور ،وہی چھت ،وہی فرش جہاں پیپلز پارٹی کے وزراء اور اس وقت کے پیپلز پارٹی اور پاکستان کے کرتا دھرتا عوام کے دکھوں سے بے نیاز خاص ترنگ میں ادھر سے اُدھر گھومتے نظر آیا کرتے تھے۔ دیواروں پر بڑے بڑے بینرز پر بھٹو صاحب ، زرداری صاحب اور بے نظیر کی تصویریں نظر آیا کرتی تھیں (بس نہیں چلتا تھا کہ تصویریں اتنی بڑی لگا دی جائیں کہ دیواریں نظر ہی نہ آسکیں)، آج ان کی کرپشن کے چرچوں اور بیڈ گورننس کی گونج کے سوا وہاں کچھ باقی نہ تھا۔ ہال میں داخل ہوتے ہوئے دلچسپ بات یہ لگی کہ صرف تصویریں بدلی تھیں، تصویروں کے سائز نہیں، یہاں تک کہ قدمِ آدم تصویروں کے ذریعے جو پیغام دیا جاتا ہے وہ پیغام تک نہیں بدلا تھا۔
تصویریں چیخ چیخ کر بتار ہی تھیں کہ ایک خاندان کو دوسرے خاندان نے ریپلیس کر دیا ہے ۔ پاکستانی عوام پہلے بھی بے روزگار اور قرضہ لینے والوں میں تھے اور آج بھی ہیں، مگر ایک بات طے ہے کہ جس ڈھٹائی سے پیپلز پارٹی کی حکومت میں کرپشن کی طرف سے آنکھیں بند کی گئیں، اب تک کی ن لیگ کی گورنمنٹ بہرحال اس میدان میں پیپلز پارٹی سے کافی پیچھے نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن میں پاکستان کا درجہ کچھ گھٹا ہے، مگر یہ بھی صحیح ہے اور نواز شریف صاحب سے اسحق ڈار صاحب تک کے سوچنے کا مقام ہے کہ کرپشن میں درجہ گھٹنے کے باوجود غربت میں یقینا یہ درجہ مزید اوپر گیا ہے۔ ٹماٹر سے لے کر ڈالر تک ہر شے نے عوام الناس کی باں باں کرا دی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف صاحب نے اپنی تقریر میں فخر کے ساتھ کرپشن کے نیچے آنے کے حوالے سے مختلف رپورٹس کا حوالہ دیا تو انہیں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عوام ''اعشاریوں‘‘ پر نہیں اس ''اصلیت‘‘ پر زندگی گزارتے ہیں جو انہیں روز مرہ اشیاء کی خریداری کے سلسلے میں جھیلنی پڑتی ہے۔ رپورٹوں میں پاکستان کرپشن میں سو درجے بھی نیچے آجائے لیکن اگر ٹماٹر، پیاز، آلو، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ، تعلیم و صحت کی سہولتیں سستے میں دستیاب نہیں ہوں گی تو عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ایسی رپورٹس کو کیا چاٹنا ہے؟
یہ بھی حقیقت ہے کہ جس شام سو ارب روپے کے یوتھ پروگرام کے افتتاح پہ وزیر اعظم کرپشن کے گھٹنے کا ذکر کر رہے تھے اسی شام ہوٹل سے پرائم منسٹر ہائوس کی راہداریوں اور ہال تک صحافیوں کا موضوعِ سخن چیئرمین نادرا طارق ملک والا معاملہ تھا، جس کا تعلق مالی کرپشن سے نہ سہی انتخابی کرپشن سے ضرور جڑتا ہوا نظر آتا ہے ۔ساتھ ساتھ عمران خان صاحب کی غیر سیاسی ذہنیت پربھی صحافی تاسف کا اظہار کرتے پائے گئے کہ خان صاحب اور کچھ نہیں تو کرکٹ سے ہی سیکھ لیتے کہ ماہر بائولر ہمیشہ بیٹسمین کے وِیک ایریاز پر اٹیک کیا کرتا ہے مگر خان صاحب کو خبرہی نہیں کہ ڈرون سے کہیں زیادہ نادرا والا معاملہ ان کے مخالف کو ''آئوٹ‘‘ نہ سہی ''ایمبیرس‘‘ کرنے کا باعث ضرور بن سکتا ہے۔
محترمہ مریم نواز صاحبہ انگریزی لٹریچر کی طالبعلم رہی ہیں۔بلاشبہ ان کی اس شام کی تقریر میں جو ٹھہرائو تھا وہاں موجود تقریباً ہر شخص نے اس کی تحسین کی۔ البتہ محترمہ اتنے اہم پروگرام کو کامیابی سے چلانے کی کتنی صلاحیتیں رکھتی ہیں اور ان کی گفتگو میں کتنا اخلاص پایا جاتا ہے اس کے لیے آنے والے وقت کا انتظار کرنا ہو گا۔ تقریب کے آخر میں ملک بھر کے طول وعرض سے آئے ہوئے نوجوانوں سے کچھ سوالات بھی لیے گئے۔ حسنِ اتفاق سے آخری سوال آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب لیے جس بچی نے کیا اس کا نام بھی مریم تھا اور وزیراعظم صاحب نے سو ارب کے یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن اپنی صاحبزادی کو بنایا ہے وہ بھی مریم ہی ہیں۔ بیس کروڑ عوام کی بیٹی مریم چند لاکھ روپے قرض کی خاطر نیچے بیٹھی سوال کر رہی تھی اور نواز شریف صاحب کی صاحبزادی مریم سٹیج پر قرض دینے والوں میں تھیں۔ دونوں میں جو فرق تھا وہی پاکستان کے بیس کروڑ عوام اور چند خاندانوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ بلاول ہو کہ مریم، بختاور ہو کہ حمزہ اس ملک میں کچھ لوگ ہمیشہ سٹیج پر بیٹھ کر عوام کے پیسے عوام ہی کو قرض کے نام پر دے کر ''ہم دے رہے ہیں‘‘ ''ہم دے رہے ہیں‘‘ کی تکرار کرتے رہیں گے، جیسے یہ رقم اپنی جیب سے دے رہے ہوں۔ جب کہ باقی بیس کروڑ بلاول ، مریم، حمزہ اور بختاور یونہی ہاتھ پھیلائے سٹیج کی طرف دیکھتے رہیں گے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ لوگ بھٹو اور شریف فیملی میں جنم لیتے ہیں اور باقی بیس کروڑ عام پاکستانیوں کے گھر۔اس فرق کے علاوہ سٹیج پر پروقار انداز میں تقریر کرتی ہوئی مریم نواز اور نیچے ہال میں عاجزانہ بیٹھی قرض کی خاطر آئی ہوئی مریم میں مجھے کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ کے لیے آنے والے دنوں میں ایک چیلنج یہ بھی ہو گا کہ وہ ''مریم نواز‘‘ اور ''مریم پاکستانی‘‘ کے درمیان کا یہ فرق مٹانے کے لیے کس حد تک کوششیں کرتی ہیں۔ امید رکھنی چاہیے کہ اگر انہیں کبھی موقع ملا تو وہ مالی معاملات میں آگے نکلنے کے بجائے. مریم نواز اور مریم پاکستانی کے فرق کو مٹانے میں اپنے والد سے آگے نکلنے کی کوشش کریں گی۔
افسوس! جیسے کسی زمانے میں معصوم ، مظلوم اورمحروم رعایا چھوٹی چھوٹی ضروریات و عنایات کے لیے بادشاہوں کی طرف دیکھا کرتی تھی... ہمارے ہاں اب بھی دیکھا کرتی ہے!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved