تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     15-12-2013

پاکستان کا تازہ شہید

65سالہ عبدالقادر ملّا کو رات کی تاریکی میں تختہ ٔ دار پر لٹکا دیا گیا۔ 42سال پہلے دسمبر کے اِسی مہینے میں مشرقی پاکستان کو بھارتی جارحیت کے نتیجے میں بنگلہ دیش بنایا گیا تھا۔ پاکستانی فوج کے ساتھ جو پاکستانی اپنے وطن کی حفاظت کے لئے سینہ سپر تھے، اُن میں23سالہ نوجوان عبدالقادر بھی تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا کارکن، ڈھاکہ یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے و الا۔ اُسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ہر ملک کے ہر شہری پر لازم ہے کہ اپنی سرزمین پر دشمن کے ناپاک قدم برداشت نہ کرے۔ اُس کے خلاف جو بھی اقدام ممکن ہو‘ کر گزرے۔ اُسے یہ بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ اُس کا انجام بھیانک ہو سکتا ہے، اُس کے بہت سے ہم وطن جو دشمن کے ساتھ مل چکے ہیں‘ خون کی ہولی کھیلنے میں لگے ہیں۔ پاکستان کا نام لینے والوں پر عرصہ ٔ حیات تنگ کر رہے ہیں، اُن کی جان ومال اور آبرو کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ اُس کی جان بھی لے سکتے تھے، لیکن اسے اس کی پروا نہیں تھی۔ وہ اپنی دھن میں مگن تھا، اپنے جذبے سے سرشار تھا، اپنا جھنڈا اونچا رکھنے کی اپنی سی سعی کر رہا تھا۔
پھر یہ ہوا کہ وہ نہ ہو سکا، جس کے لئے وہ سر بکف تھا۔ وہ ہو گیا جو اُس کے مخالف چاہتے تھے۔ 16دسمبر کو اُس کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور وہ پھٹی آنکھوں سے دیکھتا رہ گیا۔ میدانِ جنگ نے دنیا بدل ڈالی تھی۔ 15دسمبر کے محب وطن، غدار قرار پائے تھے اور اُس دن کے غدار محب وطن بن چکے تھے۔ پاکستان سے محبت جرم بن گئی تھی اور پاکستان سے نفرت انعام و اکرام کی حق دار۔ ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ اُس نے نہیں کیا تھا۔ اُس کے ہزاروں، لاکھوں ساتھی تو سب کے سب حیران تھے۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے اُن کے حلق میں اٹک گئے تھے۔ مغربی پاکستان سے آنے والے فوجی اور غیر فوجی رخصت ہونے لگے، انہیں (قیدی بنا کر) بھارت پہنچایا جانے لگا، لیکن عبدالقادر اور اُس کے ساتھیوں کو تو یہیں رہنا تھا، اُن کے قید خانے کا نام بھارت نہیں بنگلہ دیش تھا۔
عبدالقادر، اُس کے رہنمائوں، اُس کے ساتھیوں، اُس کے ہم خیالوں کی تعداد کم نہیں تھی، اُن کی گنتی بھی کروڑوں کو چھوتی تھی، لیکن میدان ِ جنگ کا فیصلہ اُن پر مسلط ہو چکا تھا۔ اپنے ہی وطن میں اجنبی بن جانے والے نئے حقائق سے آنکھیں کب تک چراتے؟ وہ نئے ڈھنگ سے جینے کا سامان کرنے لگے، تنگ ہوتی ہوئی زمین بالآخر کشادہ ہونے لگی۔ شاہین کب پرواز سے تھک کر گرتا ہے؟
عبدالقادر اور اُس کے ہم نوائوں نے بنگلہ دیش کو اپنا وطن تسلیم کر لیا۔ اُس میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے لگے، اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کے لئے سرگرم ہو گئے۔ عبدالقادر صحافت اور سیاست دونوں محاذوں پر سرگرم رہا، اُسے لوگ عبدالقادر ملّا کے نام سے جاننے لگے۔ اُس کی ذہانت اور فراست راستہ بنانے لگی، سکہ چلانے لگی۔ وہ دو بار اسمبلی کا رکن منتخب ہوا، ''سنگرام‘‘ کا ایڈیٹر رہا، اپنے راستے پر چلتا رہا، آگے بڑھتا رہا۔ بنگلہ دیش کا منظر تبدیل ہونے لگا، توحید کے ترانے گونجنے لگے، اسلامی انقلاب کی چاپ پھر سنائی دینے لگی۔ مخالفوں میں کھلبلی مچ گئی، اُن کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے، پاکستان کو توڑ کرسکون کا سانس لینے والوں کا سکون غارت ہو گیا۔ اُن کا بنایا ہوا بنگلہ دیش اُن کے ہاتھ سے نکل رہا تھا، اُن کے نظریات کا مدفن بن سکتا تھا۔ انہوں نے بوسیدہ الزامات کو نئے کپڑے پہنانے شروع کر دیے۔ جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنمائوں کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ 42 سال پہلے کی درندگی اُن کے سر تھوپی جانے لگی،مقدمات قائم ہونے لگے، نام نہاد ٹریبیونل قائم ہوئے اور سزائیں سنائی جانے لگیں۔
دنیا بھر میں ہنگامہ اُٹھا، ترکی اور ملائیشیا سے پُرزور احتجاج ہوا، اقوام متحدہ اور یورپ کی انسانی حقوق کی تنظیمیں بلبلا اٹھیں۔ عدالتی ٹریبیونلز کی ساخت، انداز سماعت اور شہادتوں کے معیار پر سوالات اُٹھائے گئے، لیکن بنگلہ دیش کے عاقبت نا اندیش حکمرانوں نے راستہ نہیں بدلا۔ عبدالقادر ملّا کو ٹریبیونل نے عمر قید کی سزا سنائی تو حکومت پھانسی کا مطالبہ لے کر اپیل میں جا پہنچی۔ سپریم کورٹ میں بیٹھے ہوئے اس کے گماشتوں نے اسے منظور کر لیا۔ عبدالقادر پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔
عبدالقادر ملّا نے حکومت سے رحم کی اپیل نہیں کی۔ سنٹرل جیل ڈھاکہ سے لکھے گئے آخری خط میں انہوں نے لکھا: مجھے نئے کپڑے فراہم کر دیئے گئے ہیں۔ نہانے کا پانی بالٹی میں موجود ہے۔ سپاہی کا آرڈر ہے کہ جلد از جلد غسل کر لوں۔ کال کوٹھڑی میں بہت زیادہ آنا جانا لگا ہوا ہے۔ ہر سپاہی جھانک جھانک کر جا رہا ہے۔ کچھ کے چہرے افسردہ اور کچھ چہروں پر خوشی نمایاں ہے۔ ان کا بار بار آنا جانا میری تلاوت میں خلل ڈال رہا ہے۔ میرے سامنے سید مودودی ؒ کی تفہیم القرآن موجود ہے: غم نہ کرو، افسردہ نہ ہو۔تم ہی غالب رہو گے۔ سبحان اللہ کتنا اطمینان ہے، ان کلمات میں۔ میری پوری زندگی کا حاصل مجھے اِن آیات میں مل گیا ہے۔ زندگی اور موت کے درمیان کتنی سانسیں ہیں، یہ رب کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ مجھے اگر فکر ہے تو اپنی تحریک اور کارکنان کی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان سب پر اپنا فضل اور کرم قائم رکھے۔ اللہ پاکستان کے مسلمانوں اور میرے بنگلہ دیش کے مسلمانوں پر آسانی فرمائے، دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو ناکام بنا دے۔ (آمین) عشاء کی نماز کی تیاری کرنی ہے۔ پھر شاید وقت ملے نہ ملے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ ہم سب نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے، اُس پر ڈٹے رہیں۔ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ یہ راستہ سیدھا جنت کی طرف جاتا ہے‘‘۔
آخری ملاقات میں انہوں نے اپنے اہل خانہ کو تلقین کی کہ اُن کے لئے آنسو نہ بہائے جائیں۔ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ لاریب عبدالقادر ملّا پاکستان کے تازہ شہید ہیں، اُن پر آنسو ہر گز نہیں بہانے چاہئیں، آنسو تو پاکستان کے اُن ارباب اختیار پر بہانا چاہئیں، جن کی زبان سے مذمت کا ایک لفظ ادا نہیں ہوا۔ جن کو بنگلہ دیش کی حکومت سے احتجاج کی توفیق نہیں ہوئی اور جن کو یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ نظر آتا ہے جنہوں نے قومی اسمبلی میں احتجاجی قرارداد کو بھی موخر کر دیا۔ پاکستان میں بیٹھی ان زندہ لاشوں پر ہر پاکستانی کو نفرین بھیجنی چاہیے اور اپنے آپ پر آنسو بھی بہانے چاہئیں کہ انہوں نے معاملات کن لوگوں کے ہاتھ میں دے دیئے ہیں، جو اپنے ہی ماضی سے بے خبر ہیں اور اپنے ہی خون کو پہچاننے سے انکاری ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved