تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     15-12-2013

الوداع‘ شہید کو الوداع

پروردگار کی بارگاہ میں ہمارے ہاتھ بلند، عبدالقادر ملّا تمہارے سامنے ہماری جبیں خم ہے ۔ دعائوں اور آنسوئوں کے ساتھ ہم تمہیں الوداع کہتے ہیں ۔ 
ہمیں خبر ہے بڑے علم و آبرو والے 
ترا مقام کسی اور کو نصیب کہاں 
جب وہ پھانسی کے تختے پر کھڑا ہوا۔ ہاتھ پشت پر باند ھ دیے گئے ۔ چہرے پہ کالا نقاب چڑھا دیا گیا تو وہ کیا سوچ رہا تھا؟ زیرِ لب وہ دعائیں دہراتے ہوئے، جو سرکارؐ کی زبان سے ادا ہو کر بابرکت ہو گئیں ، اپنے نصیب پر شاید اس نے فخر کیا ہوگا۔ شاید حیرت کے وفور میں اس نے سوچا ہو : ایسی خوش بختی؟ اتنی بڑی سعادت؟آج میں شہدا کے قافلے میں شامل ہوتا ہوں ۔ ممکن ہے کہ قرآنِ کریم کی وہ آیت اسے یا د آئی ہو۔ ''اور وہ جو اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے گئے ، انہیں مردہ نہ کہوبلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے‘‘۔ 
اگر قرآنِ کریم کی شہادت سچّی ہے اور وہی تو سچی ہے تو عبدالقادر ابد الآباد تک زندہ رہیں گے ۔ اپنے ہم نسل سراج الدّولہ کی طرح ، جن کی شہادت پر ان کے ہندو وزیر نے لکھا ۔ 
غزالاں تم تو واقف ہو ،کہو مجنوں کے مرنے کی 
دوانہ اٹھ گیا، آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
تینتیس برس ہوتے ہیں، سوویت یونین کی سفاک سرخ سپاہ افغانستان میں داخل ہوئی ۔ ایک چھوٹی سی نثری نظم اس ناچیز نے لکھی تھی ۔ 
لفظوں کے ویران باطنوں میں 
مفہوم و معانی کی مشعلیں جلاتے شاعرو
یہ راز تم پہ کب کھلے گا 
کہ جنون و جبر کے جبڑوں سے 
جہاں جہاں زندگی آزاد ہے 
وہ شہیدوں کی سخاوت میں زندہ ہے 
اہل علم کو وارث نصیب ہوتے ہیں اور نہیں بھی ہوتے ۔ شہیدوں کے وارث مگر لازماً ہوتے ہیں۔ ہرچیز رائیگاں ہوتی ہے مگر شہید کا خون کبھی نہیں ۔ ان کی جدوجہد کبھی نہیں جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں ۔ اپنے محترم دوست گلبدین حکمت یار سے میں نے پوچھا: افغان سرزمین میں قبرستان ایسا سناٹا تھا۔ کابل یونیورسٹی فکر و نظر کا ویرانہ ، پھر کس چیز نے چنگاریوں کو ہوا دی؟ کہا: جمال الدین افغانی کے مزار نے ، جو اس قطعہ ء ارض پہ واقع تھا، جہاں جامعہ تعمیر ہوئی۔ 
نوابزادہ نصر اللہ خاں ادب اور تاریخ کی گزرگاہوں پہ غور کیا کرتے۔ کبھی امتحان کی ساعت سنگین ہو جاتی تو وہ کہا کرتے: ''یزید سے نہیں، مسلمان حسینؓ سے اکتسابِ نور کرتے ہیں‘‘۔ 
سوا دو سو برس ہوتے ہیں، دریائے گومتی کے کنارے ایستادہ محل میں ایک درویش آباد تھا ۔ ایک صدی ہونے کو آئی ، مسلم برصغیر کے فکری مسیحا اقبالؔ نے اس کے مزار کا قصد کیا۔ واپس آئے تو ''ٹیپو کی وصیتـ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی۔ 
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرائیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز 
ساحل تجھے ملے بھی تو ساحل نہ کر قبول
نظامِ حیدر آباد اور مرہٹے انگریز کے ساتھ تھے مگر کیا وہ اسے قتل کر سکے ؟ انگریز چلے گئے ۔ نظام حیدر آباد اور مرہٹے تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیے گئے مگر ٹیپو زندہ ہے ۔ رب کعبہ کی قسم، ہم سے زیادہ زندہ ۔ 214برس گزر چکے ، سنگِ سیاہ کے اس مزار پر چراغ کبھی نہیں بجھتے ۔ چہروں پر بہتے آنسوئوں کے ساتھ ، گیت گانے والے کبھی چپ کی کالی چادر نہیں اوڑھتے۔ اقبالؔ نے کہا تھا: ایک مسلمان حکمران کے تمام اعلیٰ اخلاقی اوصاف ٹیپو میں جمع ہو گئے تھے ۔ وہ مرا تو فرانسیسی شاعر نے لکھا۔ 
پھولوں کے ہار گوندھ کر 
آسمان پر حوروں نے شہیدوں کے سردار کا سواگت کیا
سکینڈے نیویا اور برطانیہ سے ڈیڑھ سو سال پہلے ٹیپو سلطان نے سوشل سکیورٹی سسٹم اپنی ریاست میں نافذ کر دیا تھا۔ تاوانِ جنگ کا مرحلہ آیاتو اپنے بیٹے اس نے یرغما ل کیے ۔ آزردہ اور حیران وہ دارالحکومت کو روانہ ہوا۔ پھر اس کی (بیشتر )غیر مسلم رعایا جلے ہوئے دیہات سے امنڈ کر آئی اور بچا کھچا سلطان کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔ وہ آدمی ، جس کے ہاتھ پر اس عہد کے سب سے بڑے ڈاکو نے اسلام قبول کر لیا ۔ ٹیپو کی شہادت کے بعد اس نے جنگ جاری رکھی ۔ جنگلوں اور شہروں میں چھاپہ مار جنگ ۔ 
ع نام فقیر تنہاں دا باہو ، قبر جنہاں دی جیوے ہو 
امیر المومنین عمر بن عبدالعزیزؓ کی وفات پر شہنشاہ روم نے کہاتھا: بادشاہ نہیں ،ایک درویش اٹھا ہے ۔ دنیا اس کے قدموںمیں ڈھیر کی گئی مگر اس نے آسمان کی بادشاہت پر اسے قربان کر دیا۔ 
اپنی پارٹی نہیں ، اپنے لیے نہیں ، عبد القادر ملا نے اسلام کے لیے جان دی ۔ ہم اسے دو قومی نظریہ کہتے ہیں۔ مسلم برصغیر نے پہاڑ جیسی غلطیاں کی ہیں ۔ اپنے لہو سے مگر ہم نے اس سرزمین پر کھود دیا ہے ''ہم ایک الگ قوم ہیں‘‘ پتھر پر لکیر اور یہ لکیر مٹ نہیں سکتی ۔ فقط جماعتِ اسلامی کا نہیں ، عبدالقادر ملا اسلام کا فرزند تھا۔ دو قومی نظریے کی جنگ لڑتے ہوئے اس نے جان دی ۔ اس پر لگایا گیا الزام جھوٹا ہے ۔ اس کی عمر 17سال سے کم تھی ، جب وہ بھدی جنگ برپا ہوئی ۔ گواہی دینے والی خاتون اڑھائی برس کی بچی تھی ۔ ایک بھی سچا قانون دان تسلیم نہیں کرتا۔ فرض کیجئے، الزام درست ہے تو کس کے قتل کا ؟ بھارت کے ایجنٹ ؟ مکتی باہنی والوں کو کس نے بھیجاتھا؟ کلکتہ میں ان کی کمان کس کے ہاتھ میں تھی ؟
جماعتِ اسلامی کی سیاست سے ہزار اختلاف لیکن ہر انصاف پسند مانے گا کہ دو چیزوں میں وہ سچے ہیں: خدمتِ خلق اور حبّ وطن۔ اختلاف ان کی حکمتِ عملی اور اندازِ فکر سے ہے۔ اسلام کے نام پر وجود پانے والے ملک کے لیے انہوںنے قربانیاں دی ہیں۔ مشرقی پاکستان میں، کشمیر اور افغانستان میں۔ سیاسی حریف تعصب میں اندھے ہو کر جھوٹ بولتے ہیں کہ افغانستان میں انہوں نے ڈالر کمائے یا مشرقی پاکستان میں اپنے سیاسی مخالفین کو مارا۔ ان کے فکری مغالطے اپنی جگہ مگر فروختنی وہ ہرگز نہیں ۔ لوٹ مار کے وہ مرتکب نہیں۔ بیرونِ ملک انہوںنے جائیدادیں نہیں بنائیں اور استعمار سے رہ و رسم نہیں رکھتے ۔ 
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو تھے ۔ پاگل پن کو چھو لینے والی ان کی ہوسِ اقتدار۔ حکومت شیخ مجیب الرحمن کو سونپنا چاہیے تھی مگر یحییٰ خان صدار ت برقرار رکھنے پر تلے تھے ۔ اسمبلی کے اجلاس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو حکومت میں اپنے حصے کی ضمانت مانگتے رہے ۔ 
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تشدد سے کسی گروہ کو تحلیل نہیں کیا جاسکتا۔ سری لنکامیں بندرا نائیکے رخصت ہوئے تو مسز بندرا نائیکے، اندرا گاندھی کے بعد راجیو، راجیو کے بعد سونیا گاندھی ۔ بھٹو کے بعد بے نظیر اور بے نظیر کے بعد آصف علی زرداری ۔ لہو زندہ ر ہتاہے ؛حتیٰ کہ اس ادنیٰ شخص کا خون بھی، جو بے گناہ مار دیا جائے۔ حلاّج زندہ اور تمام مسلم زبانوں میں ایک لہکتا ہوا استعارہ۔ 
یہ فقط حسینہ واجد کا جذبۂ انتقام نہیں ۔ بھارت اس کے پیچھے ہے۔ دوقومی نظریے پر ایمان رکھنے والی ہر جماعت کو تباہ کرنے پر تلاہوا۔ 
بنگلہ دیش کا اپنا پرچم اور سکہ ضرور ہے مگر وہ ایک آزاد ملک نہیں ۔ آزاد وہ ہو کر رہے گا۔ قتل گاہوں سے علم چنے جائیں گے اور جدوجہد جاری رہے گی ۔ مسلم برصغیر سپین نہیں اور یہ پندرھویں صدری نہیں کہ یہ سرزمین اسلام کا مقتل بن جائے۔ پروردگار کی بارگاہ میں ہمارے ہاتھ بلند، عبدالقادر ملّا تمہارے سامنے ہماری جبیں خم ہے ۔ دعائوں اور آنسوئوں کے ساتھ ہم تمہیں الوداع کہتے ہیں ۔ 
ہمیں خبر ہے بڑے علم و آبرو والے 
ترا مقام کسی اور کو نصیب کہاں 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved