یہ دماغ ہے!حماقتوںکی آماجگاہ۔۔۔ بالکل ایک شوخ اور چنچل لڑکی کی طرح ،کبھی نچلا نہ بیٹھنے والا،میانہ روی سے یہ بدکتا ہے، اعتدال اسے ناپسند ہے، سلامت روی اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی؛چنانچہ یہ ہمارے لیے بہت سی الجھنیں پیدا کرتارہتا ہے۔ کیا ہم اورہمارادماغ ایک ہی ہیں؟میراخیال ہے ایسا نہیںہے کیونکہ اگرایسا ہوتاتوہمارے زیادہ ترمسائل پیدا ہی نہ ہوتے،ہم اپنے دماغ کوکنٹرول کرتے ہوئے اسے مناسب زندگی گزارنے کا حکم دے سکتے تھے، لیکن بات یہ ہے کہ ہم اورہمارے حالات اورہیںاورہمارادماغ اور ہے۔ ہم اصل میںکیا ہیں؟ انسان کواس کی درست فہم ہونے میں ابھی دیرہے۔
ہمارادماغ ہمیںدرمیانے راستے پرچلنے کی ترغیب نہیں دیتابلکہ یہ ہمیں انتہائوں میں الجھائے رکھتا ہے۔ زندگی کی عملی شاہراہ ہویا فکری جہت، درمیان میں چلنے سے سکون مل سکتا ہے، لیکن دماغ کا کیا کیجیے جو ہمیں انتہائی خوشی یا انتہائی کرب کی حالت کی طرف دھکیل دیتا ہے۔گہوارے سے گور تک ہم اپنے دماغ کے خبط کے اسیر بن کر ایسی زندگی گزار دیتے ہیں جوکسی حد تک منقسم ہوتی ہے۔
شاعر، فنکار، سائنسدان اور مصنف اپنے وجدان سے تحریک پاتے ہوئے بہترین چیزیں تخلیق کرتے ہیں۔ وجدان، جو سرشاری کاعالم ہوتا ہے، انجانی خوشی کویک سوکرتے ہوئے غیرمعمولی کام کرنے کے قابل بنا دیتاہے۔دوسری طرف دکھ اورکرب انسان کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ایسا انسان خبط،ذہنی انتشار اورکج فہمی کا شکار ہوجاتا ہے۔اس حالت میں متواتر رہنے کی وجہ سے اُس کی یادداشت بھی کھو جاتی ہے اوراس حالت میں اُس کا علاج نہیںہوسکتا۔یہ چیزہم سب کے لیے باعث ِ فکر ہونی چاہیے۔کیاہم اپنے ذہن کوخود پرغلبہ پانے اورحکم چلانے سے باز رکھ سکتے ہیں؟کیا ہمیں اپنے ذہن کوکنٹرول کرنے کی ضرورت نہیںہے؟شائد کرسکتے ہیں لیکن اس کاکوئی سادہ فارمولادستیاب نہیں ہے۔سائنس کی دنیاان امکانات پر غور کررہی ہے جوابھی مستقبل میں ہیں،ہمارافکری ڈھانچہ اُسی دنیامیں ہے،اُسے دریافت کرنے کی کوشش سائنسی اورعمرانی علوم کا موضوع ہوناچاہیے۔
مسٹر چارلس ڈہیگ(Charles Duhigg) اپنی کتاب ''The Power of Habit‘‘ میںاس بات کاجائزہ لیتے ہیںکہ زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے ہمیں اپنی سوچ اورعمل میں مطابقت پیداکرنے کی ضرورت ہے۔ہماری زندگی کا راستہ کچھ اتفاقات اورکچھ عادات متعین کرتی ہیں۔ہوسکتا ہے کہ ہم اتفاقات پرقابونہ پاسکیں لیکن اپنی عادت کوکنٹرول کرسکتے ہیں۔چارلس کا کہنا ہے کہ ہماری عادت ہماری قسمت کا لکھانہیں،ہم اسے خوداختیارکرتے ہیں۔انسانی فطرت کی تفہیم کرتے ہوئے ہم اپنی عادات اورزندگی کو بدل سکتے ہیں۔ چارلس، ہارورڈ بزنس سکول کے تعلیم یافتہ اورنیوریارک ٹائمز کے تحقیقاتی رپورٹرہونے کاتجربہ رکھتے ہیں۔اپنی پیشہ وررانہ زندگی میں اُنھوںنے تین سو کے قریب سائنسدانوں اور بزنس ایگزیکٹوزکا انٹرویوکیا۔ان کاکہنا ہے کہ ہمارے سامنے چوائس موجو د ہوتا ہے لیکن عام انسان عمل کے بجائے سوچنے میں زیادہ وقت گزاردیتے ہیں۔دراصل کامیابی اورناکامی کے درمیان یہی فرق ہے۔
دنیا بھر میں میک اپ کی اشیا فروخت کرنے والی کمپنی کے ایک کامیاب سی ای اوسے بات کرنے سے اُسے پتا چلا کہ اُس کی کامیابی کارازاپنے ماتحتوں کی کارکردگی سے یکسانیت کاخاتمہ کرنے میں مضمرہے،اس لیے کہ یکساںکارکردگی زوال کی علامت ہوتی ہے۔کاروبار میں مختلف چیلنج تبدیلی کے عمل کو یقینی بناتے ہیں۔ اسی طرح ایک کاسمیٹکس بنانے والی مشہورکمپنی کے انتظامی سربراہ نے بتایا کہ ایک مشہورپراڈکٹ کو فروخت کرنے سے پہلے مارکیٹنگ کے ماہرین نے عوام کی عادات کا گہراجائزہ لیااوردیکھاکہ اس پراڈکٹ کی اُنہیں زندگی کے کس موڑ پرضرورت ہوسکتی ہے،اس کے بعداشتہارمیں زندگی کے اُس لمحے کواجاگرکیاگیا۔یہ چیزلوگوں کو اپنی زندگی کے قریب محسوس ہوئی اوروہ پراڈکٹ تیزی سے فروخت ہونے لگی۔مسٹر چارلس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشہورتیراک مائیکل فلپس نے جس کے پاس اولمپکس گولڈ میڈلزکا ریکارڈ ہے،درست عادات اپناتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔
یہاں ہمارے دماغ کی کارکرگی کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ ہم اپنے ذہنی رجحان کوعادت کے تابع لا سکتے ہیں۔ مثال کے طورپرفطری اعتبار سے ایک سست آدمی خود کو صبح اٹھنے کی عادت ڈال کرچست زندگی بسر کرسکتاہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ عادت ہمارے ذہن کوکسی حد تک ہمارے کنٹرول میں لاسکتی ہے یاکم ازکم اس کی غیرمفید فعالیت کو ختم کرسکتی ہے۔ہوسکتا ہے کہ اس سے تبدیلی یک لخت واقع نہ ہو لیکن یہی وہ راستہ ہے جس پرچل کرہم اپنے ذہن کوکنٹرول کرسکتے ہی،البتہ درست عادت اپنانے کے لیے ہمیں ایک فریم ورک کی ضرورت ہوتی ہے۔مصنف کا کہنا ہے کہ اس کے لیے ہمیں اپنے معمولات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس دوران کو ن سی چیزیں ہمیں فائد ہ پہنچاتی ہیں اور کون سی نقصان۔ مصنف اپنی مثال پیش کرتا ہے کہ کس طرح اُسے ہر سہ پہر چاکلیٹ کھانے کی عادت پڑچکی تھی اوراس سے اُس کی صحت متاثر ہورہی تھی، وزن بہت بڑھ گیا تھا۔ اُس نے چار مرحلوں پرعمل کرتے ہوئے اس عادت سے چھٹکارا پالیا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ وہ اب تک تیس پائونڈ وزن کم کر چکا ہے۔اس عمل کے دوران اُسے خود احتسابی کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔یہ اس کی بہت بڑی کامیابی تھی۔اگرآپ اپنی کسی خراب عادت کوختم کرنے کی کوشش کریںتوآپ کوخودشناسی کی منزل سے گزرنا ہوتا ہے۔
جہاں تک ہم پاکستانیوں کا تعلق ہے، کچھ باتیں ہماری قومی عادت بن چکی ہیں،ان میں سے سب سے خراب شکوک و شبہات کا شکار رہنا ہے۔ہمیں عالمی سطح پرہونے والی ہر تبدیلی یا فکری میدان میں اٹھایا جانے والاہرقدم اپنے خلاف سازش محسوس ہوتا ہے۔ہم اس وہم میں مبتلا ہیں کہ عالمی طاقتوں کواس کے سوااورکوئی کام نہیں اوروہ فارغ بیٹھ کرہمارے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔کیا ہم اس عادت سے نجات پا سکتے ہیں؟ اس کے لیے ہمیں کس ذہنی مشق کی ضرورت ہے؟ میراخیال ہے،اگر ہم ہرروزدس منٹ کے لیے اپنی خامیوں اوراپنے اردگردافراد کی خوبیوں کا جائزہ لے لیں تویہ مشق ہماری سوچ کا دائرہ بڑھا دے گی۔اس کے بعدہم اس دائرے کووسیع کرتے جائیںگے یہاں تک کہ عالمی سطح پر ہونے والے واقعات کا درست جائزہ لینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ جب ہم اس منزل پر پہنچ جائیں گے توہمارے ہاں سازش کی تھیوریاں دم توڑ جائیںگی۔ ایک سادہ سی بات سوچ لیں۔۔۔ جس شخص یا ادارے نے ہمارے لیے موبائل فون بنایا ہے اُس کے پاس ہمارے خلاف سازشیں کرنے کے لیے یقیناًوقت نہیں ہوگا اور شاید اُسے ضرورت بھی نہ ہوکیونکہ ہم بہرحال اس کے صارف ہیں۔ اگرآپ یہ سادہ سی بات سمجھ گئے ہیں تواپنے اردگردکا جائزہ لیں اوردیکھیں کہ ان چیزوںکے بارے میں آپ کی سوچ کیا کہتی ہے۔ہرروزیہ مشق کریں، ایک نہ ایک دن آپ کو دنیا میں تبدیلی آتی ضرور محسوس ہوگی۔