تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     15-12-2013

عبدالقادرملاکی پھانسی اورسقوط ِڈھاکہ کے زخم

سانحۂ سقوطِ ڈھاکہ، قیام پاکستان کے بعدرونماہونے والاسب سے بڑا قومی حادثہ تھا۔سقوط بغداد کے بعد مسلمانوں کو اتنی بڑی ہزیمت کا سامناشائد کبھی نہیں کرنا پڑاتھا۔عالم اسلام کے سب سے بڑے ملک کا دولخت ہونا معمولی بات نہیں تھی۔ اس سانحے نے ہر دین پسنداورمحب وطن انسان کے دل ودماغ کوہلا کر رکھ دیا تھا۔سقوط ڈھاکہ جہاں اہل پاکستان کے لیے دکھ اورکرب کا سبب تھا وہاں انڈیا کے لیے خوشی اور مسرت کا باعث تھا کہ اس سانحے کی وجہ دسے دو قومی نظریے کی افادیت پرکاری ضرب لگی ۔دین کی بنیاد پر بننے والے وطن کی لسانی یا قومی تقسیم ناقابل برداشت اور ناقابل یقین خبر تھی۔یہ خبر مسلمانان برصغیر کے اعصاب پر بجلی بن کر گری اورطویل مدت بیت جانے کے باوجوداس سانحے کی تلخیاں اہل دل کے حافظوں میں سمائی ہوئی ہیں۔
ریاستی امور سے مذہب کوعلیحدہ کردینا ایک کثیرالقومی ریاست کے لیے انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔مذہب ایسی ریاست میں مقناطیسیت کا کردار ادا کرتے ہوئے ریاست کو یکجا کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے اور مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے افراد مذہبی ہم آہنگی کی وجہ سے ایک دوسرے سے اپنائیت اور قربت محسوس کرتے ہیں،لیکن افسوس! ہمارے نمایاں سیاسی رہنمااس حقیت کاادراک نہ کر سکے اور پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست کے طور پر چلانے کے بجائے قومی ریاست کے طور پر چلانے کی کوشش کرتے رہے۔سقوط ڈھاکہ کا ایک بڑا سبب ہمارے قومی رہنمائوں کی ناعاقبت اندیشی تھی جنہوںنے بڑھتے ہوئے لسانی اور علاقائی تعصبات کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے اور بنگال میں اسلام پسندی کی بجائے بنگالی قومیت اور بنگلہ زبان کے تعصب کو اجاگر ہونے کا پورا پورا موقع دیا۔مشرقی پاکستان میںانڈیا نے بھی بنگالیوں کے احساس محرومی کو بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا اور بعض سیاسی اور انتظامی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر بنگال میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مغربی پاکستان اور یہاں کے رہنمائوں کے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا۔ بنگال کے سکولوں،کالجوںاوریونیورسٹیوں میں تعلیم دینے والے ہندو اور قوم پرست اساتذہ نسل نوکے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے میں کامیاب ہو گئے کہ تقسیم پاکستان کے بغیر بنگالیوں کو ان کے بنیادی حقوق نہیں مل سکتے۔مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے 1970ء کے انتخابی نتائج کوکھلے دل سے تسلیم نہ کرکے تقسیم وطن میں نمایاںکردارادا کیا اوربنگالی رہنما اپنی قوم کویہ باورکروانے میں کامیاب ہو گئے کہ انتخابات میں فتح کے باوجود بنگالیوں کا مینڈیٹ تعصب کی وجہ سے تسلیم نہیں کیا جارہا۔سیاسی کشمکش نے بھائی چارے اوررواداری کے جذبات کو بری طرح مجروح کیا اوراخوت وخیر خواہی کے جذبات کی جگہ نفرت اور حسد کے جذبات نے لے لی۔انڈیا نے جلتی پرتیل کا کام کرنے کے لیے زبردستی پاکستان پرجنگ مسلط کردی۔جنگیں ہمیشہ اتحاداورقومی یکجہتی کے ساتھ لڑی جاتی ہیں،اگرقوم تقسیم ہوتوجنگوں میںکامیابی نہیں ہوتی۔ 1965ء میں قوم متحد تھی، انڈیا کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا گیااوراس کے جارحانہ عزائم اور خطرناک ارادے خاک میں مل گئے۔1971ء میں قوم تقسیم تھی اس لیے بنگال کے محاذ پرانڈیا کا مقابلہ نہ ہو سکا اورسقوط ڈھاکہ کا المناک سانحہ رونما ہوگیا۔
ہم پٹنہ ،پونا ،کھلنااورراس کماری سے محروم ہو گئے، چٹاگانگ میں ایشیاء کی سب سے بڑی عیدگاہ کوکھو دیا، مسلمان تہذیب کے عظیم مرکز ڈھاکہ اوراس میں موجو د کعبۃاللہ کی بیٹی مسجدبیت المکرم کوالوداع کہہ کرتکلیف دہ یادوں اور احساسات کے وارث بن گئے۔
قومی اور لسانی کشمکش کے اس تکلیف دہ دور میں بعض سعید روحیں ایسی تھیں جنہوں نے ملک و ملت کے خلاف ہونے والی ناپاک سازشوں کے خلاف بھر پورآواز اٹھائی۔جذبہ حب الوطنی سے سرشاران لوگوں کا دو قومی نظریے پر پختہ یقین تھا۔انہوں نے ایمان اور یقین کی بنیاد پر بننے والے اس ملک کے خلاف ہونے والی سازشوں کا پردہ چاک کرنے کے لیے اپنی تمام ترصلاحیتیںاورتوانائیاںاستعمال کیں۔انہوں نے اہل بنگال کو اس بات کا درس دیا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں بسنے والے تمام مسلمان نبی کریم ﷺ کے امتی ہیںاوررسول اللہ ﷺ کی امت کو ہر حالت میںباہم متحد رہنا چاہیے اور چھوٹی موٹی انتظامی کمزوریوں اور سیاسی اختلافات کو نظراندازکردینا چاہیے۔انہوں نے تقسیم وطن کے المیے کو روکنے کے لیے اپنی حد تک بھر پورکوشش کی۔ان عظیم لوگوں میں ملا عبدلقادر شہید ؒبھی شامل تھے۔جماعت اسلامی کے اس عظیم رہنماکا جرم صرف دو قومی نظریے کی پاسداری تھی۔اگرچہ قوم پرست بنگالی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور بنگلہ دیش ایک علیحدہ مملکت کے طورپردنیا کے نقشے پرابھرآیا؛تاہم نفرت اورتشددکے ان سودا گروں نے متحدہ پاکستان کے بہی خواہوں کوچن چن کرانتقام کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔
کل سقوط ڈھاکہ کے سانحے کو بیالیس سال پورے ہو جائیں گے، لیکن بنگالی قوم پرستوں کی آتش انتقام تاحال ٹھنڈی نہیں ہوئی۔ انہوں نے جائزموقف پرکاربندرہنمائوںکوفکری اور سیاسی اختلاف کی وجہ سے ظلم وتشدد کا نشانہ بنانے کا عمل جاری رکھاہوا ہے ۔ملا عبدالقادرکی پھانسی نے سقوط ڈھاکہ کے زخموں کوہرا کردیا ہے اوریوں محسوس ہو رہا ہے کہ بنگال آج ہی ہم سے جدا ہواہے۔آج پوری دنیا میں مسلمان ظلم وتشدد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ برما،انگولا، مصر،شام ، فلسطین،کشمیراورافغانستان میںجبروتشدد ہوتا دیکھ کرمسلمان حکمرانوں کے سوئے ہوئے ضمیربیدارہونے کے امکانات نظرنہیں آرہے۔مسلمان حکمران اس ظلم وتشددکوخاموش تماشائی بن کردیکھ رہے ہیں اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ان کے لبوں سے حرفِ احتجاج تک ادا نہیں ہورہا۔
ملا عبدالقادرشہید کی پھانسی سے قبل حکومت پاکستان نے ان کی سزائے موت رکوانے کے لیے کسی بھی فورم پرٹھوس طریقے سے بات نہیں کی اور ستم بالائے ستم یہ کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس سانحے کو بنگلہ دیش کا داخلی معاملہ قرار دے دیا۔ملاعبدالقادرتو پھر بھی ہم سے دور رہتے تھے ،ہماری حکومتیں تو ریمنڈ ڈیوس جیسے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانے سے قاصر رہیں۔ملا عبدالقادر کے قتل ناحق کا کیا شکوہ کرنا،ہمارے حکمران توڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والے مظلوں کے لیے آواز اٹھانے سے بھی قاصر ہیں۔جوحکام اپنی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بازیابی کے لیے تواناآواز بلند نہیں کر سکتے وہ ملا عبدالقادرکی شہادت پرکیسے آوازاٹھاسکتے ہیں۔ملا عبدالقادر شہید کے قتل نا حق پر ہماری حکومت کی خاموشی اور بے حسی بہت بڑا المیہ ہے۔ہم یوم سقوط ڈھاکہ پرہردین پسنداورمحب وطن شخص کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ملا عبدالقادرشہید نے اپنے اندازسیاست سے عزیمت واستقامت کی نئی تاریخ رقم کر دی ہے اور وہ آغا شورش کاشمیری مرحوم کے ان شعروں کا مصداق بن گئے ہیں: 
ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا 
جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں
سرفروشوں کے لیے دار و رسن قائم تھے 
خانزادوں کے لیے مفت کی جاگیریں تھیں 
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خونِ احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں 
از افق تابہ افق خوف کا سناٹا تھا 
رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں 
رہنمائوں کے لیے حکم زباں بندی تھا 
جرمِ بے جرم کی پاداش میں تعزیریں تھیں 
حیف اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھیرے 
اور زندان کے سزاوار فقط ہم ٹھیرے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved