میرے کچن کی کھڑکی سے باہر سڑک پر آتے جاتے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ ہر روز صبح سویرے چائے کا کپ بناتے ہوئے‘ مجھے اس کھڑکی سے گھروں میں کام کرنے والی غریب محنت کش عورتوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں دکھائی دیتی ہیں۔ موسم کوئی بھی ہو‘ سخت جاڑا یا پھر لُو بھرے دن‘ یہ محنت کش خواتین اپنی دھن میں مگن تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے جا رہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح شام ہوتے ہی انہی راستوں سے واپس اپنے گھروں کو جاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ محنت کش خواتین گھروں میں کام کرنے والی ملازمائیں ہیں جنہیں عرف عام میں ہم ''ماسی‘‘ کہتے ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ خوب صورت بنگلوں اورکوٹھیوں میں رہنے والی پھوہڑاوربدسلیقہ باجیوں کا بھرم بہت سی ایسی ہی سلیقہ مند ماسیوں کے دَم سے قائم ہے‘ جو ان کے گھروں کی صفائیاں کرتی ہیں، بکھری ہوئی چیزوں کو ترتیب سے رکھتی ہیں‘ گندے برتنوں کو مانجھتی اور باورچی خانوں کو چمکاتی ہیں۔ سہولتوں سے آراستہ باورچی خانوں میں نت نئے کھانے بناتے ہوئے انہیں اپنے گھر کا ایک چولہے اور چند برتوں پر مشتمل کچن بھی یاد آتا ہوگا... وہ سر جھکائے صبح سے شام تک کام کرتی ہیں اور پھر تمام دن کی سخت محنت مشقت کے بعد اپنے گھروں میں واپس جا کر ایک نئے دن کا آغاز کرتی ہیں جہاں انہیں گھرکا
ایک ایک کام بھی کرنا پڑتا ہے۔ شوہرکی جھڑکیاں اور مارپیٹ بھی سہنا ہوتی ہے اور چھ سات بچے بھی سنبھالنا ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ننھے شیرخوار بچوں کوکاندھے پرٹکائے‘ وہ سارا دن کام کرتی ہیںاور بچہ بھی سنبھالتی ہیں‘ باقی بچے گھر میں سارا دن ماں کا انتظار کرتے ہیں کہ کب ماں آئے اور کوٹھیوں سے ملی ہوئی کھانے پینے کی چیزیں اپنے ساتھ لائے‘ بچوں کی نظریں ماں سے زیادہ اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پلاسٹک کے لفافوں پر ہوتی ہیں جس میں مختلف گھروں سے ملنے والے رنگ برنگے کھانے بندھے ہوتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں ہمارے معاشرے کا بہت کارآمد کردار ہیں، دوسری جانب یہ قابل رحم بھی ہیں۔بیشترملازم پیشہ خواتین اپناگھربارانہی ماسیوں کے سپرد کر کے نوکری کرتی ہیں۔ ایک ڈاکٹر اگرکلینک پردس بارہ گھنٹے بیٹھتی ہے تو وہ بھی گھریلو ملازمہ کی مرہونِ منت ہے۔ اگر کوئی خاتون وزیر ہے‘ صحافی ہے‘ بیوروکریٹ ہے‘ پارلیمنٹیرین ہے یا کسی دوسری حیثیت سے گھر سے باہرجاتی ہے تواس صورت میں ایک قابلِ اعتباراور دیانت دارگھریلو ملازمہ ہی اس کی سب سے بڑی مددگارہوتی
ہے کیونکہ وہ اس کے گھر کو بہترین طریقے سے سنبھالتی ہے، اس کی عدم موجودگی میں گھر کا دھیان رکھتی ہے۔
مختصر یہ کہ ہماری زندگیوں میں اچھی مددگار ملازمہ کا کردار بے حد اہم ہے جسے کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔اس کاافسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی یہ اہم ورک فورس‘ ہمہ وقت عدم تحفظ اورکئی طرح کی دوسری ناانصافیوں کا شکار رہتی ہے ۔وہ خواتین جن کی ہمت اور محنت سے ان کے گھروں کا چولہا گرم رہتا ہے،ان کے حقوق کے لیے کوئی این جی اوکام نہیں کر رہی نہ ہی حکومتی سطح پر ان کے لیے کوئی قانون سازی ہوئی۔البتہ اب ایک اچھی خبر آئی ہے کہ وزارتِ انصاف اور قانون نے گھریلو ماسیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو بہت ہی مستحسن قدم ہے۔چند ہفتے پیشتر یہ خبر پڑھی تھی،امید ہے کہ اس پرکام ہو رہا ہوگا اور ہم جلد ہی اس حوالے سے خوش خبری سنیں گے۔ ان محنت کش عورتوں کے کام کے اوقات بھی مقرر نہیں ہیں۔کم اجرت پرکام کرنے والا یہ طبقہ کئی طرح کے معاشی استحصال کا شکار ہوتا ہے۔ چھٹی کرنے پر باجیاں تنخواہ تو کاٹتی ہیں لیکن مقررکردہ حد سے زیادہ کام لینے کا معاوضہ ادا نہیں کرتیں،اس ناانصافی پراگر یہ آواز اٹھائیں تو پھر انہیں نوکری سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔
سنگاپور میں پہلے گھریلو ملازموں کو ہفتہ وار چھٹی دینے کا کوئی تصور موجود نہیں تھا لیکن اب وہاں اس حوالے سے قانون سازی ہوئی ہے۔ گھریلو ملازمائیں اب ہفتے میں ایک چھٹی کر سکتی ہیں۔
انڈیا اور بنگلہ دیش میں بھی ابھی تک گھریلو ملازم عورتوں (House maids) کے لیے ٹھوس قانون سازی نہیں ہوئی۔اگرپاکستان میں ہائوس میڈزکواستحصال سے محفوظ رکھنے کے لیے قانون سازی ہوتی ہے تو یقیناً ہم اس حوالے سے دنیا کے سامنے بہترمثال پیش کر سکتے ہیں۔لیکن قانون کے بعد اس پر عملدرآمدکو یقینی بنانا اصل کام ہوگا۔
چندروز پہلے ایک ٹی وی کے مارننگ شو میں گھریلو ماسیوں پرگفتگوہورہی تھی‘ موضوع تھا:' آپ اپنی میڈ کی کن عادتوں سے تنگ ہیں‘۔ اس پروگرام میں تمام منفی پہلوئوں پر بات ہوئی، شاید یہ ہماری قومی سوچ ہے کہ ہم ہرچیز کے منفی رُخ کو زیادہ دیکھتے ہیں اور چیزوں کو Generalize کردیتے ہیں،اس طرح بہت سے اچھے پہلو نظر اندازہوجاتے ہیں۔
کہیں یہ بات پڑھی تھی کہ کسی کوکمترنہ سمجھو کہ ہر شخص اپنی جگہ زندگی کی جنگ میں ایک مشکل کردار نبھا رہا ہے۔ ہر شخص اپنی کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ اترن پہننے والی اور بچا کچھا کھانا کھا کر راضی ہونے والی ان گھریلو ماسیوں کو دیکھ کر ہمیشہ یہی خیال آتا ہے۔ ان کے چہروں پر حسرتوں کی کتنی داستانیں تحریر ہوتی ہیں۔ یہ غربت زدہ خواتین شہر کے خوشحال گھروں میں کام کر کے دو متضاد دنیائوں کو قریب سے دیکھتی ہیں۔ ایک طرف ان کی زندگی ہے جس میں غربت کے اندھیرے اوردم توڑتی آرزوئیں ہیں‘ دوسری طرف خوشحالی‘ دولت اور عیش و آرام کی زندگی ہے۔ اس کے باوجود یہ ماسیاں اپنی زندگی پر قانع نظر آتی ہیں اورانسانی وصف کے اعتبار سے ان میں بعض ایسی شاندار خواتین موجود ہیں کہ لفظوں میں ان کی تصویر کشی کی جائے تو خوب صورت کردار تخلیق ہوں۔
آخری مگراہم ترین بات۔۔۔کسی بھی قانون سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں آنے والی ان مددگارخواتین کو عزت دیں اوران کے حقوق کو پہچانیں۔